دنیا بھر میں وقت کے ساتھ حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور آنے والے وقت کیلئے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔ مستقبل میں ہمیں معاشی بدحالی، قدرتی وسائل کی کمیابی ، اشیائے خورو نوش اور پینے کے پانی کی قلت، قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلی، قومیتوں اور تہذیبوں کی لڑائی،ارادی و غیر ارادی نقل مکانی، آبادی میں اضافے، سائبر کرائم و سائبر عدم تحفظ ، مصنوعی ذہانت کی بے لگام ترقی اور افرادی قوت کی طلب میں کمی جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا ہو گا۔ چند واقعات کی روشنی میں ہم جائزہ لیتے ہیں کہ آیا ہم ان چیلنجز کا سامنا کرنے ،ان سے نبٹنے کی صلاحیت یا ارادہ رکھتے ہیں۔
گزشتہ دور حکومت میں وزارتوں کی تشکیل کے بعد محکمہ بہبود آبادی کے وزیر کے دفتر ،ایک مشترکہ دوست کے ہمراہ جانا ہوا تو وزیر موصوف کچھ مایوس اور خفا دکھائی دیئے۔ مبارکباد دینے والوں کا اژدھام ختم ہوا تو وزیر صاحب فرمانے لگے مجھے پاپولیشن کنٹرول کی وزارت دے کر پارٹی لیڈر شپ نےبہت زیادتی کی ہے میں اس سے بہتر وزارت کی توقع کر رہا تھا جس میں افسر شاہی کنٹرول میں رہتی، سیاستدان اور عوام اپنے مسائل اور کاموں کے لیے میرے پاس آتے اور میں اپنے حلقے کے عوام کی خدمت کر کے اپنے پاور بیس کو آئندہ کے لیے مضبوط کرتا۔
اسی طرح کبوتر بازی کے ماہر ایک ایم پی اے کو ماحولیات جیسے اہم محکمے کا وزیر لگا دیا گیا کیونکہ کچھ وزارتیں اتحادی پارٹی کو کوٹے میں دینی تھیں۔ محکمہ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کی ایک خاتون وزیر نے اپنے محکمہ کی ایک ایماندار اور نڈر خاتون افسر کا ناطقہ بند کر دیا کہ وہ افسر سیاسی دبائوسے بالاتر فیصلے کرنے پر مصر تھی۔ محکمہ ہوا بازی کے ایک سابقہ وزیر ایئر پورٹ کے قریب سرکاری زمینیں اپنے عزیزوں اور سیاسی ورکروں کو الاٹ کرنا چاہتے تھے، محکمہ کے سیکرٹری نے ماحولیاتی آلودگی اور ایوی ایشن سیفٹی کے نقطہ نظر سے انکار کیا تو اس کی شکایت اس وقت کے وزیراعظم سے کر دی گئی اور محترم وزیراعظم نے سیکرٹری کو طلب کر کے کہا مجھے معلوم ہے وزیر صاحب کیوں آپ کو اس عہدے سے تبدیل کرانا چاہتے ہیں مگر میں ان کی بات رد نہیں کر سکتا کیونکہ پارٹی کو نقصان ہو گا، آپ کو کوئی دوسرا محکمہ دے دیا جائے گا۔میرٹ اور اہلیت کو نظر انداز کر کے سیاسی مصلحتوں اور طاقتور حلقوں کی سفارشات پر وزرا مقرر کرنا اور اعلیٰ عہدوں پر غیر مستحق افراد کی تعیناتی کسی ایک دور حکومت پر محیط نہیں بلکہ ماضی کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکمران ایسے فیصلے کرتے رہے ہیں جن کا خمیازہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ ہمارا ہمسایہ ملک ہمارے ملک آنے والے دریائوں پر ڈیم اور نہریں بناتا رہا اور ہمارے حکمران ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنے اقتدار کو طول دینے میں مشغول رہے اور اب وہ وقت دور نہیں جب عوام کی اکثریت پینے کے صاف پانی اور ہمارے کھیت نہری پانی سے محروم ہو جائیں گے۔ بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے کھوکھلے نعرے لگانے کے بجائے ہمیں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پروٹوکول کے شوقین نااہل اور کرپٹ لوگوں کو اہم منصوبوں کی سربراہی سے الگ کر کے قابل ، دیانت دار اور اہل افراد کی تعیناتی ایک ایسا عمل ہو گا جو ماضی میں ذاتی وابستگیوں یا مختلف عوامل کی بناپر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ شہروں میں بارش کے پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر اور دیہات میں جوہڑ یا تالاب میں پانی کا ذخیرہ کر کے ہم پانی کی کمی کو کچھ حد تک کم کر سکتے ہیں۔
دنیا بھر کے ممالک جہاں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہے ہیں وہاں اس اہم فیلڈ میں ہماری کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماتحت درجنوں ادارے اور محکمے کام کر رہے ہیں مگر کہیں قابل ذکر ریسرچ، ڈویلپمنٹ یا نئی ایجادات نظر نہیں آتیں البتہ حلال اشیاءکی نگرانی اور عید کے چاند کی تلاش میں معاونت اس اہم منسٹری کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ ماضی میں این ای ڈی یونیورسٹی، یو ای ٹی اور ٹیکنیکل کالج رسول، پاک سویڈش انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں کے فارغ التحصیل نوجوان ملک و بیرون ملک انڈسٹری اور ٹیکنالوجی میں نام پیدا کر چکے ہیں، اب لاتعداد یونیورسٹیاں انجینئروں کی کھیپ تیار کر رہی ہیں مگر ان کے معیار میں کمی آئی ہے ۔ملک میں انڈسٹری کے قیام اور فروغ میں تنزلی اور نئے تعمیراتی منصوبوں کی تعمیر میں تاخیر سے اس شعبے میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ گزرتے وقت کے ساتھ بیرون ملک بھی ان شعبوں میں مانگ کم ہو رہی ہے۔
ہماری زرعی پیداوار ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے جبکہ زمین اور موسم ایک جیسے ہیں، ہمارے زرعی ماہرین کو بیجوں کی کوالٹی بہتر بنانے، کاشت کے نئے طریقے اپنانے اور بدلتے موسمی حالات کے مطابق اپنی فصلوں کی ترتیب بدلنے کی ضرورت ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم، سبزیوں اور دوسری زرعی اجناس کی امپورٹ کسی طور قابل قبول نہیں اور اس شعبے میں ترقی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک ایسا معاشرہ اور انسانی ماحول تشکیل دینا ہو گا جس میں ہر فرد کو رہنے سہنے، پڑھنے لکھنے اور اپنی ترقی و بہبود کے لیے بلا امتیاز ریاستی ضابطوں کے تحت آزادی ہو۔ ہمارا تعلیمی نظام کتابیں پڑھا کر اور ڈگریاں دے کر افراد کو تعلیم یافتہ تو بنا دیتا ہے مگر مہذب معاشرے میں زندگی گزارنے کے اطوار، لوگوں کے ساتھ برتاو اور شفاف معاملات اور لین دین کیلئے مناسب تربیت سب سے ضروری ہے۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)