• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ہفتے پہلے میں نے لکھا تھا کہ کیا کوئی تیسرا آپشن بھی ہے یا صرف مذاکرات ہوں گے یا جنگ۔ مگر سات دن کے اندر ہی تیسرے آپریشن پر عمل درآمد خود بہ خود ہی شروع ہو گیا ہے۔ یعنی بات چیت اور جنگ دونوں۔ طالبان کے پاس تو سوائے جنگ اور حرب کے کوئی آپشن ہے ہی نہیں، اس لئے یہ بے شمار جنگجو ٹولے سوائے ’’مار اور بھاگ‘‘ کے کچھ اور جانتے ہی نہیں۔ یہ کوئی ایک پروفیشنل فوج جس میں ڈسپلن ایک آہنی اصول ہوتا ہے وہ تو ہیں نہیں۔ ہر ٹولے کے کمانڈر نے لڑائی کے دنوں میں ایک چھوٹے یا بڑے علاقہ پر قبضہ کر لیا اور وہاں اپنی چھوٹی سی امارت یا حکومت بنا لی کیونکہ ملک اور ریاست کو ان کی ضرورت تھی، ان کی حکومت چلتی رہی اور ان لوگوں کے منہ کو خون لگ گیا۔ عام لوگ تو ان ٹولوں کا مقابلہ کر نہیں سکتے تھے اور ریاست کیونکہ ان کو استعمال کر رہی تھی تو کوئی چیلنج کرنے والا تھا ہی نہیں۔ یہ عفریت بڑھتے بڑھتے وہ Frankenstein Monster بن گیا جو آخر میں اپنے ہی مالک یا پیدا کرنے والے پر حملہ آور ہو جاتا ہے کیونکہ علاقوں پر قبضہ تھا اور لوگ بھتے دینے پر، غنڈہ ٹیکس، ٹول ٹیکس، ناکہ ٹیکس، گاڑی ٹیکس اور ہر طرح کے مطالبے ماننے پر مجبور تھے۔ ان کا کاروبار خوب منافع بخش ہوتا گیا پھر اغوا برائے تاوان، اسلحہ کی اسمگلنگ، ہیروئن اور افیون، گاڑیوں کی چوری اور باقی سارے جرم بھی اس بزنس میں شامل کر لیں تو یہ اربوں کھربوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ اس کو بچانے کیلئے اور اپنے علاقے پر قبضہ قائم رکھنے کیلئے قتل اور بربریت ایک ضرورت بن گیا اور جیسے جیسے پائوں جمتے گئے ایک سیاسی شکل (Face) اور میڈیا کے سیکشن کی ضرورت بھی نظر آنے لگی۔ یوں باقاعدہ بیانات جاری ہونے لگے اور ترجمان مقرر ہو گئے پھر اس سارے گھنائونے کاروبار کو چلانے کیلئے ایک سیاسی ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی یا کسی آئیڈیالوجی کی ضرورت پڑی تو اسلام کا نام اور قرآن اور شریعت کا بڑا بھاری غلاف اوڑھ لیا گیا۔ تو یوں کہئے کہ یہ سارے غیر اسلامی، غیر قانونی اور غیر انسانی کاموں کو چھپانے کیلئے دین کا سہارا لیا گیا۔ لوگوں کو سڑکوں اور لاشوں کو کھمبوں پر لٹکا کر یوں ڈرایا گیا کہ بے چارے نہتے لوگ سمجھے یہی اسلامی عدل کا نظام ہے۔ ہاتھ کاٹنا، سر قلم کرنا اور ذبح کرنا عین اسلامی اور قانونی بتایا گیا۔ اصل میں ان لوگوں کا وہ کاروبار تھا جو کسی طرح نہ اسلامی، نہ قانونی اور نہ انسانی اصولوں کے مطابق تھا کیونکہ کوئی روکنے والا نہیں تھا اور ریاست بھی شاید آنکھ بند کر کے برداشت کرتی رہی تو یہ بیماری سارے ملک میں پھیل گئی۔ کراچی سے خیبر تک ایک نیٹ ورک بن گیا اور پھر انٹرنیٹ اور موبائل فون کے آنے سے آسانیاں بڑھتی گئیں پھر وہ دن آیا کہ یہ لوگ سمجھے کہ ہم ریاست سے بھی زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں اور باقاعدہ فوجی دستے تشکیل دیئے گئے اور پھر سوات پر لشکر کشی کی گئی۔ یہ ان کی آخری غلطی تھی کیونکہ اب ریاست کو ان کی ضرورت بھی نہیں تھی اور انہوں نے ساری حدود بھی توڑ دی تھی۔ اس طرح طاقتور ہونے اور طاقت کے نشے میں جھومنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ کئی سال حکومتیں اور ریاست کے باقی ستون آپس میں لڑتے رہے اور ان کے درمیان طاقت اور اقتدار کی کشمکش جاری رہی۔ کسی نے اس عفریت کی طرف زیادہ توجہ نہ دی۔ سوات میں بڑی مشکل سے زرداری کی حکومت نے فوج کو گرین سگنل دیا اور پھر جو آپریشن ہوا تو یہ جنگجو ٹولے دم دبا کر بھاگ لئے، جیسے کابل میں صرف ایک دن میں ساری طالبان کی حکومت موم کی طرح پگھل گئی تھی۔ مجھے اتنا لمبا قصہ لکھنے کی ضرورت یوں پڑی کہ کیونکہ یہ طالبان ایک سیاسی پارٹی ہیں نہ ان کا کوئی منشور ہے نہ ہی کوئی آئین اور قانون، تو جب نواز شریف کی حکومت نے مذاکرات کی پیشکش کی اور ان کے حملوں سے گھبرا کر سوچا کہ کیوں نہ بات چیت سے مسئلہ حل کیا جائے تو طالبان پھنس گئے۔ یہ لوگ تو امن کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ نہ کوئی ان کے پاس حکومتیں اور انتظامیہ چلانے کا تجربہ ہے۔ ان کا صرف ایک قانون ہے اور وہ ہے بندوق۔ پشتو کی ایک مشہور فلم بنی تھی جس کا نام تھا ’’ٹوپک زماں قانون‘‘ یعنی میرا قانون بندوق ہے۔ تو طالبان کے 50 ٹولے صرف اس قانون کو جانتے ہیں۔ اب مذاکرات میں تو بات چیت کرنی ہوتی ہے، کوئی ٹھوس دلیل دینی پڑتی ہے۔ ایک نظریہ بتانا پڑتا ہے اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بھی۔ یہ سب باتیں ان جنگلوں میں رہنے والے، ہر پل جان بچانے کی تدبیریں کرنے والے گوریلا لڑاکے بازوں کی سمجھ اور دسترس سے باہر ہیں۔ سو جب بات بڑھی تو ان لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ مذاکرات کرے تو کون کرے اور کیا مطالبات پیش کرے۔ قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی اور عام معافی تو سب کی سمجھ میں آنے والے نکات ہیں اورکسی بھی مذاکراتی میز پر یہ پہلے رکھے جاتے ہیں مگر اس کے بعد پھر کیا مانگیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے علماء کا سہارا لیا گیا اور ان کو اپنا نمائندہ بنا دیا گیا۔ وہ بھی خوش کہ میڈیا اور دنیا کی نظریں ان پر جم گئیں۔ حکومت نے اور کسی بڑے باریک بین دانشور نے اچھا مشورہ دیا کہ بجائے حکومتی اور فوجی لوگوں کے میڈیا کے لوگوں کو مذاکرات کی ٹیم میں ڈال دیا جائے۔ اب مشکل یہ آ گئی کہ اگر جنگ بندی کر دی تو پھر ہاتھ میں کیا رہ جائے گا اور وہ بندوق کس کام کی جس کو چلایا ہی نہ جا سکے۔ پھر چھوٹے چھوٹے ٹولے خطرہ محسوس کرنے لگے کہ کہیں علاقے اور سارا کاروبار ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ تو وہی ہوا جو ہونا تھا یعنی جب بات چیت شروع ہونے لگی یا سنجیدہ ہونے لگی کسی نہ کسی نے پیچھے سے چھرا گھونپ دیا۔ طالبان کی مرکزی قیادت جو خود اتنی پریشان تھی خاص کر حکیم اللہ محسود کی ڈرون میں ہلاکت کے بعد کہ اس نے امارت افغانستان میں پناہ لئے ہوئے فضل اللہ کو سونپ دی۔ جب ذرا بات اور آگے بڑھتی نظر آئی تو خراسانی صاحب نے وہ 23 اہل کاروں کی وڈیو جاری کر دی جن کو افغانستان میں نہ جانے کب شہید کیا گیا۔کیا وہ بتائیںگے کہ یہ لوگ کب مارے گئے۔کون سا طاقتور فریق اپنے قبضے میں گرفتار قیدیوں کے سر کاٹ کر پیغام بھیجتا ہے۔تو اب یہ سب کچھ کرنے کے بعد کون سا اسلامی یا شرعی جواز رہ گیا ہے ان لوگوں کے پاس۔ ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو ہلاک کر کے کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ دین اسلام پھیلا رہا ہے۔ یہ سب بہانے بازی ہے۔ یہ مذاکرات صرف ایک وقت کا ضیاع ہی تھے اور ہیں، اگر طالبان شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں تو عام لوگوں کو قتل کرنے سے تو یہ نہیں حاصل ہو گا۔ اب فوج اور حکومت ایک صفحے پر آ گئے ہیں تیسرا آپشن عام پاکستانیوں کیلئے تکلیف دہ ہو سکتا ہے مگر صرف یہی راستہ ہے، قوم ذرا ہمت سے کھڑی رہے۔
تازہ ترین