• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معروضی عوامی مباحثوں کے متعدد پہلو توجہ طلب ہیں کیونکہ یہ قومی رویوں پر اثرانداز ہورہے ہیں اور ملک کے دانشورانہ ماحول کو ایک نئی جہت سے سرفراز کررہے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شو کے مباحثوں میں طرز فکر کے مخصوص جھکاؤ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں، جن کی عکاسی سرکاری اعلانات اور کئی رائے سازوں کی توجیہات میں بھی ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ رو یۓ سوچ کی عادت بنتے ہوئے نظرآرہے ہیں، جوکہ آج ملک میں فکری تذبذب کے اضافے میں اپنا کردار ادا کررہےہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو افراد عوامی آراء پر اثرانداز ہوتے ہیں یا عوامی مباحثوں میں شرکت کرتے ہیں وہ اس طرح سوچتے ہیں، بلکہ اس کا مقصد ان عوامل کی نشاندہی کرنا ہے جوکہ اس پریشان کن مظہر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس زاوئیے سے معروضی عوامی آراء کے پانچ متعلقہ پہلو قابل ذکر ہیں،اس زمرے میں اول پہلو ملکی صورتحال کے معائنے میں ضرورت سے زیادہ انہماک ہے، یقیناً معائنہ کرنا ایک اچھی چیز ہے بشرطیکہ یہ عوامی مباحثوں کو تعمیری نتائج کی اگلی سطح تک لے جائے، جہاں سے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے، اور یہ نتائج اقدامات کی جانب پیش قدمی کا موجب بنیں۔ اگر عوامی مسائل پر مباحثوں کا مقصد محض معاشرتی مسائل کا معائنہ کرنا ان پر ماتم کرنا ہے کہ ملک میں کیا غلط ہورہا ہے تو پھر اس کا مقصد محض اونچی آواز میں شکایات کرنے سے زیادہ اورکچھ نہیں ہوگا، یعنی یہ کرخت آواز میں بےمقصدشکوے سے زیادہ اور کچھ بن کر نہیں رہ جائےگا۔ آہ و زاری کرنا ایک ایسے ملک کیلئے کبھی کارگر ثابت نہیں ہوتا جسے کئی چیلنج درپیش ہوں، اس سے درپیش مسائل کا حل ملتا ہے اور نہ ہی اس سے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کیلئے تجاویز ملتی ہیں۔ اس کے برخلاف یہ رویہ خودترحمی کے کلچر کو تقویت دیتا، جس کی وجہ سے اقوام کی خود اعتمادی زائل ہوتی ہے اور مسائل کے حل کی تلاش میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم کہاں آن پہنچےہیں،حالات سے روگردانی پر مبنی اس جملے کی صدا پاکستان کے اس تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی جانب سے متواتر سنائی دیتی آئی ہے، جو سیاسی موضوعات پر آراء پیش کرتے ہیں، یہ رویہ شکایات کے ازالے کی ضرورت سے پہلوتہی اور اس ذمہ داری سے روگردانی کو جلاء بخشتا ہے، جس میں مسائل کے حل کی تلاش کیلئے نئے خیالات پیش کیے جانے ہوتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کہ بس زبان زدعام ملکی مسائل کی تشخیص کی جائے اور بطور شہری اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کیلئے محض ہاتھ ملنے کو کافی سمجھا جائے۔ ان نہ ختم ہونیوالے مباحثوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ کیا ’کیا جاسکتا ہے‘ اس بات پر زیادہ اصرار کیا جاتا ہے ’کیا ہوسکتا تھا۔ اس کی عکاسی ایک اور قسم کے روئیے میں بھی نظر آتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ماضی کی ’کس نے کیا کیا‘ بجائے اس کے مستقبل کے ممکنات پر بحث کی جائے۔ عوامی فورموں پر ہونیوالے کئی مباحث میں ماضی سے سیکھنے کے بجائے اس کا تذکرہ کرکے اس میں مقید رہنے کی گونج سنائی دیتی ہے،مباحثوں میں مشغول سیاسی جانبداریوں کے حامل افراد ماضی کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں، لیکن مستقبل کیلئے راہ بہت کم ہی وضع کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اس سے متعلق ایک رجحان یہ ہے کہ ملکی مسائل کیلئے سوائے اپنے ہر کسی کو مورد الزام ٹھہرایا جائے، مسائل کی اصل وجوہ کا تعین کرکے انہیں حل کرنے کے بجائے دوسروں کو اس کیلئے ذمہ دار ٹھہرانے کا رجحان تقریباً ہر گروپ، سیاسی جماعت یا ادارے کی جانب سے ہوتا ہے۔
ابھرتی ہوئی توجیہ حقیقت کی عکاسی کرنے کے بجائے مخصوص مفادات کو پورا کرنے کا شاخسانہ ہے، جبکہ بدترین امر یہ ہے کہ اس کی وجہ سے قومی مباحثوں کی راہ متزلزل ہوتی ہے اور عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنےمسائل حل کرنے کے حوالے سے نااہل ہیں جو کہ بہرحال حقیقت سے پرے ہے۔ جس سے سازشی آراء کی جانب سے توجہ مبذول کرانے اور الزام تراشی کے کلچر کو تقویت ملتی ہے اور ساتھ ہی داخلی مسائل کی وجہ بیرونی عناصر کو گرداننے کی عادت پنپتی ہے، ملک کے داخلی مسائل کی ذمہ داری دنیا کے دیگر ممالک پر عائد کردی جاتی ہے، اور متعدد رائے ساز رہنما اس کھیل کا حصہ بننے کے خواہشمند نظر آتے ہیں، سازشی آراء کی جانب نشاندہی کرنے والےکچھ افراد کی آراء اجتماعی سوچ پر غالب آجاتی ہے اور مسائل کا الزام دوسروں کے سر تھوپ کر پھر ذمہ داری سے روگردانی کی جاتی ہے، حقیقت سے منہ موڑکر اسے کچھ نہ کرنے کے عذر کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔ مصیبت زدہ ہونے کے اظہار کا کلچر بھی خطرناک ہے، مصیبت زدہ ہونے کا احساس عمومی طور پر اس تاثر اور غلط اعتقادکو تقویت دیتاہےکہ انفرادی حیثیت میں اور بحیثیت مجموعی کوئی اور ہماری قسمت کی ڈور اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہے۔ درحقیقت، سازشی آراءمستقبل کےحوالے سے ناامیدی کو جنم دیتا ہےکیونکہ اس کی وجہ سے کسی بھی مسئلے اور چیلنج سے نبرد آزماء ہونے کی صلاحیت زائل ہوجاتی ہے۔ اگر تقریباً ہر خرابی کی وجہ کسی اور کو سمجھ لیا جائے تو محض، یہ فرض کر کے ہم اس بابت کچھ زیادہ نہیں کرسکتے،سست ہوکر بیٹھ جانے کا رویہ اپنانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ عوامی مباحثوں کا ایک تیسرا اور شاید سب سے غالب پہلو عقلی بنیاد پر استوار دلائل اور سوچ کا فقدان ہے،اگر عقلیت پسندی منطق کا اطلاق ہے تو پھر کسی امر کی وجہ کا تعین کیے جانے کیلئے دلائل جذبات کے بجائے حقائق پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور ٹی وی ٹاک شوز میں پیش کیے جانے والی آراء سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقلی بنیاد پر وضع کردہ دلائل کی کس قدرکمیابی ہے، بہرحال اس رجحان سے بالاتر کچھ اچھے دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں لیکن زیادہ مباحثوں میں پیش کیے جانیوالے دلائل کھوکھلے ہوتے جن میں عقلیت پسندی اور منطق بمشکل ہی نظرآتی ہے۔
اس مظہر کی سب سے زیادہ قابل اعتراض مثال میڈیا کی جانب سے اس شخص پر توجہ دینے کی ہے جس نے پانی سے کار چلانے کے طریقے کو دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ جب تک اس کا دعویٰ جعلی ثابت نہیں ہوگیا اس وقت تک اسے پذیرائی ملتی رہی اور قومی سطح پر اس کی ایجاد پر خوشیاں منائی گئیں۔ لیکن ہفتوں تک عوام کا اہم حصہ اس کے دعوے کے سحر میں مبتلا رہا جوکہ کم از کم اس عرصہ نامعقولیت کی فتح کا مظہر ہے۔ شاید یہ ایک رجحان کی انتہائی مثال ہوسکتی ہے، تاہم جوکہ غفلت کی غماز ہے، جس میں غیرمستحکم دلائل اورغیرمستحکم سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کا ایک اور پہلو مخصوص بیانات داغنے اور رائے سازی میں اعتدال پسندی سے روگردانی ہے، جس سے اس عادت کی غمازی ہوتی ہے کہ عوامی سطح پر بیانات داغنے سے قبل الفاظ کو تولا نہیں جاتا، اور بولے جانیوالے لفظوں کی صداقت کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ شاید اس سے دانشورانہ سستی کا انعکاس ہوتا ہو لیکن الفاظ نتائج کے حامل ہوتے ہیں اور عوام کے ذہنوں پر دیرپا اثر چھوڑتے ہیں۔ تخیل میں احتیاط سے احتراز برت کر بولے جانیوالے الفاظ ہمارے گرد دانشورانہ ابتری کے غماز ہیں، بدقسمتی سے اس ضمن میں بے احتیاطی کا دامن تھام کر افراد کو غیرمحب وطن اور کسی اور کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ عوامی مباحثوں کا چوتھا پہلو ان پر فرسودہ سوچ کے غلبے نظرآناہے،فرسودہ اوربےوقعت بیانات بھی دانشورانہ سستی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ حکومتی عہدیدار اکثر ہی فرسودہ بیانات دیتے ہیں، مثال کے طور پر’ترقی کامیابی کیلئے لازمی ہے‘ یا‘ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی‘، جیسا کہ وہ اس پر عملدرآمد کرانے والے اور اس قسم کے اعلانات سے عوام قائل ہوجائیں گے کہ ایسا ہونےوالا ہے۔ ٹی وی پر ہونے والے مباحثوں میں بھی احمقانہ بیانات دیئے جاتےہیں،جوکہ معنی سے خالی ہوتےہیں اور زیربحث مسئلے پر روشنی کم ڈالتے ہیں۔ بالآخر،کسی بھی معاملے پر عوامی مباحثوں میں مبالغہ آرائی کا رجحان متواتر نظر آتا ہے، مثال کے طور پر باربار یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے، جس سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ ایسا کہنے والے چاہتے ہیں کہ لوگ ایک تخیلاتی دنیا پر یقین کریں، کیونکہ جو ایسا کہتے ہیں وہ اس دعوے کی وضاحت دینے کی زحمت نہیں کرتے کہ کس بنیاد پر یہ دعوے کیے گئے ہیں اور کس طرح ان اثاثوں سے فیضیاب ہوا جاسکتا ہے۔
یہ کہنا اور بات ہےکہ پاکستان کے کئی قدرتی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے تجاویز پیش کرنے کے قابل عمل طریقے بھی ہیں۔ جبکہ یہ ایک اور بات ہے کہ جب دعوؤں کے ساتھ اعدادوشمار یا حقائق پیش نہیں کیے جاتے تو مبالغہ آرائی پر مبنی بیانات اپنے معنی کھودیتے ہیں۔
کئی بار بظاہر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی جانب سے عوامی فورموں پر یہ سنا جاتا ہے کہ پاکستان کو کمزور کرنے اور اسے اپنے بیش بہا قدرتی وسائل بروئے کار لانے سے روکنے کیلئے بیرونی سازش کارفرما ہے۔ یہ ایک سراسر بےسروپا دلیل ہے، جو اس سوال کے جواب دینے سے قاصر ہے کہ ملک کو کون سی شے اس سازش کو ناکام بنانے سے روک رہی ہے اور اس کے بیش بہا وسائل اور اس کی تقدیر اسکے ہاتھوں سے چھیننے کے درپے ہیں۔ باہمی تعلق رکھنے والے رجحانات پرحالیہ بحث سے مسخ شدہ اور گمراہ کن کہانیاں سامنے آتی ہیں جن کا ان پالیسیوں کے بنانے یا ان کے لئے راہ وضع کرنے سے کوئی تعلق نہیں جو ملک کو درپیش تکلیف دہ صورتحال سے نکالنے کیلئے انتہائی ضروری ہیں۔ حالانکہ اسے اس طرح نہیں ہونا چاہیے۔ قوم کے رہنمائوں بشمول رائے سازی کرنے والے رہنماؤں کا یہ قومی فریضہ ہے کہ آہ وزاری کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہونے کے بجائے بحث کو مثبت اور تعمیری سمت میں لے جانے کیلئے کوششیں کریں اور پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کیلئے گفت و شنید کی حوصلہ افزائی کریں۔ایسے مباحثوں کا مقصد بدنماماضی پر ماتم کرنے کے بجائے ایک بہتر مستقبل کے قیام میں معاونت حاصل کرنا ہونا چاہئے، سب سے بڑھ کر اس سے عوام کی اس حوالے سے حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کہ انہیں یہ یقین ہو کہ ہم اپنی قسمت خود بناسکتے ہیں اور ہم اپنی کوششوں سے چیلنجوں پر قابو پانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔
تازہ ترین