اسلام آباد ( مہتاب حیدر) آئی ایم ایف کی جانب سے ای ایف ایف سہولت کے تحت تازہ بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئندہ اجلاس کے موقع پر پاکستان کی درخواست کے سائڈ لائن پر پاکستان 15 اپریل کو اپنے بین الاقوامی بانڈز پر ایک ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کریگا۔ پاکستان کو توقع ہے کہ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ پروگرام کی آخری قسط 1.1 ارب ڈالر کی منظوری رواں ماہ میں ہوجائے گی اور یہ رقم مل بھی جائے گی۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں 1.1 ارب ڈالر ملنے سے کوئی زیادہ تبدیلی آنے کی توقع نہیں ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس میں شرکت کےلیے واشنگٹن ڈی سی جائیں گے یہ اجلاس 15اپریل سے 20اپریل 2024 تک جاری رہے گا۔ پاکستان ای ایف ایف پروگرام کو ماحولیاتی فنانسنگ کے ذریعے اسکا حجم بڑھوانے کے امکان پر بھی باتکریگا۔ تاہم اس پروگرام کا حقیقی حجم اور دورانیہ آئی ایم ایف کے آئندہ جائزہ مشن کے دوران ہی طے ہوسکے گاجس کی مئی کے پہلے ہفتے میں پاکستان آنے کی توقع ہے ۔اب اسلام آباد کو بیرونی قرض کی اخری سہ ماہی میں 4.3 ارب ڈالر کا قرض ادا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو چین اور چینی سیف ڈپازٹ کی واپسی پر بھی 1 ارب ڈالر کی ادائیگی موجودہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں کرنا ہے۔ اب وزیراعظم کو چین سے ایک نئی درخواست کرنا ہوگی کہ وہ ایک ارب ڈالر رقم رول اوور کردیں۔ حکومت کو آخری سہ ماہی میں 32.88 ملین ڈالر تجارتی بینکوں کو بھی اصل زر اور سود کی مد میں ادا کرنا ہے۔ حکومت کو تمام باہمی قرض دہندگان کو 7.6 ملین ڈالر بھی آخری سہ ماہی میں ادا کرنا ہیںاس میں 218 ملین جاپان کے ہیں 149 ملین فرانس کے ہیں 48 ملین کوریا اور دیگر متعدد ممالک کے ہیں۔ پاکستان کو تجارتی بینکوں کو 1.232 ارب ڈالر موجودہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں ادا کرنا ہیں۔ ملک کو 265 ملین ڈالر آئی ایم ایف کو بھی اصل زر اور سود کی مد میں ادا کرنا ہیں۔ نیاپاکستان سرٹیفکیٹ پر 66 ملین ڈالر بھی موجودہ مالی سال کے آخری تین مہینوںمیں ادا کرنا ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو کثیر الطرفین قرض دہندگان کو بیرونی قرض ادا کرنا ہیں اور اس مٰن سب سے بڑا حصہ ایشیائی ڈویلپمنٹ بینک کا ہے جو کہ 406.8 ملین ڈالر کے قریب ہے جبکہ ورلڈ بینک کا 185.3 ملین اور اسی طرح دیگر کا ہے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہاس 8.04 ارب ڈالر موجود ہیں ۔ یہ وہ رقم ہےجو 29 مارچ کو بینک کے پاس موجود تھی۔ ایس بی اے پروگرام کے تحت پاکستان پر لازم تھا کہ وہ غیر ملکی زرمبادلہ کا ایک بفر بنائے لیکن بیرون ملک سے ڈالروں کی آمد مطلوبہ مقدار تک نہیں پہنچ پائی ۔