• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی بیش تر قدرتی و زمینی آفات ہماری کوتاہیوں کا شاخسانہ ہیں

بات چیت : وحید زہیر، کوئٹہ

انجینئر جمیل احمد کُرد بلوچستان میں عوامی خدمت کا استعارہ ہیں۔تعلیم، صحت اور دیگر امدادی سرگرمیوں میں ہمہ وقت مصروف نظر آتے ہیں۔ ادب نواز ہیں، اپنے علاقے، دشت مرّو(کوئٹہ سے 60 کلومیٹر دُور واقع )کے پُرفضا مقام پر اکثر ادبی محافل سجاتے رہتے ہیں، جب کہ ان کا ایک سفرنامہ بھی زیرِ طباعت ہے۔ ’’ الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ سے وابستہ ہیں اور حال ہی میں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر تیسری مرتبہ اِس کے صوبائی سربراہ منتخب ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں بلوچستان کے حالات پر گفتگو ہوئی، جو جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے خاندان، تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: ہمارے آباؤ اجداد کا تعلق دشت پنگو، ضلع مستونگ سے ہے۔ تقریباً 120سال پہلے ہمارے بزرگوں نے کوئٹہ کا رُخ کیا۔ہم ،میر قادر بخش کُرد دوئم کی اولاد ہیں، جنہوں نے پہلی شادی ضلع مستونگ، دشت میں کی، جن سے اللہ نے اُنہیں ایک بیٹا، جمشیر خان کُرد عطا کیا، جب کہ تقسیمِ ہند سے قبل دوسری شادی حیدرآباد دکن میں کی، جن سے اُن کے چار بیٹے ہوئے۔ وہ اِس دوسری شادی کے بعد حیدرآباد دکن ہی کے ہو کر رہ گئے اور واپس نہیں لوٹے۔ ہمارا حیدرآباد دکن میں بسنے والے اس خاندان سے طویل عرصے تک خط و خطابت کا سلسلہ جاری رہا۔

میر جمشیر خان کُرد ایک بڑے زمین دار تھے۔ان کے دو بیٹے میرعبدالکریم کُرد اور میر علی جان کُرد تھے۔ ہمارے دادا، میرعلی جان کُرد تھے۔پہلے پہل ہمارے آباؤ اجداد بلوچی اسٹریٹ، کوئٹہ میں آباد ہوئے، پھر موجودہ وحدت کالونی، دیبہ میں بس گئے۔ میرے دادا ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرتے رہے، جب کہ اُن کے بڑے بھائی، میرعبدالکریم کُرد برٹش آرمی میں تھے۔میرے والد، محمّد انور واپڈا سے ریٹائرڈ ہوئے۔ہم11 بہن، بھائی ہیں۔ گو کہ والدین زیادہ پڑھے لکھے نہیں، مگر پھر بھی ہماری تعلیم و تربیت میں اُن کا مرکزی کردار ہے۔ مَیں نے میٹرک کیمبرج سیکنڈری اسکول، کوئٹہ سے، جب کہ ایف ایس سی گورنمنٹ ڈگری کالج، کوئٹہ سے کیا۔ 

بعدازاں، خضدار انجینئرنگ یونی ورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں سند حاصل کی۔ ہم بہن، بھائی اپنے تعلیمی معاملات کے لیے عموماً اپنے تایا اور چچا سے رابطہ کرتے کہ والد زیادہ پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے تعلیمی امور بہتر انداز سے نہیں دیکھ پاتے تھے۔ اِس ضمن میں بڑے بھائی، محمّد سلیم کُرد نے ہم پر بہت توجّہ دی۔وہ اسکولز کے چکر لگاتے، پڑھائی میں سُستی پہ ڈانٹتے، پٹائی بھی کردیتے اور بہتر کارکردگی پر حوصلہ افزائی بھی کرتے۔

س: انجینئر بننے کا خیال کیسے آیا؟

ج: سچّی بات تو یہ ہے کہ بلوچستان میں کیریئر کاؤنسلنگ نہ ہونے کے سبب عموماً بچّے اپنے والدین کی خواہشات ہی کے مطابق چلتے ہیں۔ میرا تعلیمی سفر بھی کسی خاص منصوبہ بندی کے بغیر تھا۔ ایف ایس سی کے بعد آرمی میں کمیشن آفیسر بننے کے لیے فارم جمع کروائے، مگر منتخب نہ ہو سکا۔ دیگر آپشنز کے طور پہ ایف جی اور ڈگری کالج میں بی ایس سی کے فارم جمع کروائے، جب کہ انجینئرنگ کے لیے بھی کاغذات جمع کروا دئیے۔ اِن تینوں جگہوں پر میرا داخلہ ہو گیا۔ تاہم، مَیں نے انجینئر بننے کے لیے خضدار انجینئرنگ یونی ورسٹی جوائن کرلی۔

س: عملی زندگی میں کب قدم رکھا؟

ج: 2007 ء میں فائنل رزلٹ آنے سے قبل ہی چین کی ایک موبائل کمپنی سے بطور ٹیلی کام انجینئر وابستہ ہوگیا تھا۔ میری تین ماہ کے لیے لاہور میں تعیّناتی ہوئی۔ کمپنی کے پاکستانی مینجر نے میری محنت و لگن دیکھتے ہوئے مجھے ایرکسن جیسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کا کہا۔ لاہور میں انٹرویو دیا اور یوں میرا بلوچستان کے لیے انتخاب ہوگیا۔ 

اِس کمپنی میں بہت اچھا وقت گزرا۔ خاص طور پر فیلڈ ملازمت کی وجہ سے صوبے کا چپّا چپّا دیکھنے کا موقع ملا۔ پھر2011ء میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہوگیا۔

س: عوامی بھلائی کے کاموں کی طرف کیسے متوجّہ ہوئے؟

ج: اِس کا ایک سبب تو اپنے عوام سے محبّت ہے، پھر صوبے میں گھوم پھر کر لوگوں کی حالتِ زار کا بھی مشاہدہ کرچُکا تھا۔اِس لیے عوام کے لیے کچھ کرنے کی ٹھانی۔ 2014 ء کے آخر میں بلوچستان کی تعلیمی پس ماندگی کے پیشِ نظر دُور دراز کے دیہات میں معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے قرطبہ اسکولز آف ایکسیلینس جیسے ادارے کی بنیاد رکھی۔ 2015 ء میں کولپور گاؤں سے پراجیکٹ کا آغاز کیا اور الحمدُللہ اِس وقت بلوچستان میں قرطبہ کے10 اسکولز ہیں، جن میں ہزاروں بچّے معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ اِن اسکولز کے ذریعے خواتین کے روزگار کا بھی کچھ نہ کچھ انتظام ہوا ہے۔ مجھے’’ الخدمت فاؤنڈیشن، پاکستان‘‘ کے تحت بھی عوام کی خدمت کا موقع ملا اور مَیں نے اِس پلیٹ فارم سے گزشتہ10سالوں میں صوبے کے عوام کی ہرممکن مدد کی کوشش کی۔

س: بلوچستان میں’’ الخدمت‘‘ کا تنظیمی ڈھانچا کیا ہے؟

ج: ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ ایک مُلک گیر تنظیم ہے اور اس کے 9ریجنز ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ریجن ہے۔ یہاں کے 15 سے زاید اضلاع میں اس کے دفاتر موجود ہیں اور جہاں دفاتر نہیں ہیں، وہاں بھی رضا کاروں کا نیٹ ورک ہے، جو کسی بھی مشکل میں عوام کی خدمت کے لیے متحرّک ہوجاتا ہے۔

س:کیا قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مستقل بنیادوں پر کوئی نظام قائم کیا گیا ہے؟

ج: پاکستان اُن ممالک میں سرِ فہرست ہے، جو شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں اور پاکستان میں بھی بلوچستان اِن تبدیلیوں کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کا قدرتی آفات کا شعبہ انتہائی منظّم اور موثر ہے۔ رضا کاروں کی ٹیمز مُلک بَھر میں ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔

اپنے تجربے کی روشنی میں ایک بات ضرور کہتا چلوں کہ بلوچستان میں اکثر آفات قدرتی نہیں بلکہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی پیدا کردہ ہیں، جیسے ندی نالوں میں تعمیرات، ٹریفک حادثات، کوئلے کی کانوں میں حفاظتی تدابیر سے پہلو تہی۔مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس ضمن میں حکومتی سطح پر سال بَھر عوامی آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے اور ایسے اقدامات ہونے چاہئیں، جن کی مدد سے حادثات پر قابو پایا جاسکے۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے۔ عکّاسی: رابرٹ جیمس
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے۔ عکّاسی: رابرٹ جیمس

س: کوئٹہ میں منعقدہ حالیہ ڈونر کانفرنس کا کیا مقصد تھا؟

ج: لفظ’’ ڈونر‘‘ ہی کانفرنس کے مقاصد کی وضاحت کر رہا ہے۔دراصل، پورے مُلک میں ہر سال100 سے زائد مقامات پر مخیّر افراد کو جمع کرکے اُنھیں’’ الخدمت‘‘ کی خدمات اور ضروریات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ 

اِس طرح کافی فنڈز جمع ہوجاتے ہیں۔ ہم بلوچستان میں بھی محض ایک نشست میں کروڑوں روپے جمع کرلیتے ہیں، جو ہم پر عام لوگوں کے اعتماد کا اظہار ہے۔اِس سال بلوچستان کے مخیّر افراد نے ہمیں سُنا اور 12کروڑ روپے سے زائد کے عطیات دئیے۔

س: سُنا ہے بعض اداروں سے ڈونرز کا اعتماد اٹھ چُکا ہے؟

ج: جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے اور کام کی بجائے سارا زور صرف زبانی جمع خرچ پر ہو، تو پھر کون اعتماد کرے گا۔ آج کے جدید دَور میں، جہاں ٹیکنالوجی عروج پر ہے، آپ دھوکے کی بنیاد پر ادارے نہیں چلا سکتے۔اب لوگ ایک کِلک سے کسی بھی دیہات میں پہنچ کر آپ کے اعلان کردہ منصوبوں کی حقیقت جان سکتے ہیں۔

س: دیگر این جی اوز اور آپ کے کام میں کیا فرق ہے؟

ج: بنیادی طور پر الخدمت فاؤنڈیشن بھی ایک این جی او ہی ہے، مگر مَیں نے اِس میں اور دیگر این جی اوز میں جو فرق محسوس کیا، وہ یہ ہے کہ ایک تو الخدمت کے ڈونرز انفرادی ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان افراد کے اپنے ادارے ہیں، جن سے الخدمت ڈونیشنز وصول کرتی ہے، جب کہ دیگر این جی اوز حکومتی فنڈز کے لیے بھاگ دوڑ میں مصروف رہتی ہیں۔نیز، انسٹی ٹیوشنل فنڈنگ کی طرف بھی اُن کا بہت زیادہ جھکاؤ ہے۔ 

دوسرا فرق یہ ہے کہ الخدمت سے وابستہ بیش تر افراد تن خواہ دار نہیں، بلکہ اس کی ٹیمز رضاکاروں پر مشتمل ہے، جو کہ اللہ کی رضا کے لیے مخلوق کی خدمت کرتے ہیں، اس کے برعکس، دیگر این جی اوز میں تن خواہ دار ہی ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ الخدمت اپنے انتظامی امور پر10 سے12 فی صد خرچ کرتی ہے اور باقی این جی اوز میں یہ تناسب 40 فی صد سے بھی زاید ہے۔ہم انتظامی امور پر اخراجات کی شرح صفر کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ تمام فنڈز عوامی بھلائی کے کاموں میں استعمال ہوں۔

س: آپ نہیں سمجھتے کہ لوگوں کو خیرات کا عادی بنانے کی بجائے ہنر مند بنانا چاہیے؟

ج: اِس ضمن میں الخدمت فاؤنڈیشن کے دو شعبوں، تعلیم اور فراہمیٔ روزگار کا ذکر بے حد ضروری ہے، جو ضرورت مند افراد کو خود انحصاری کی طرف گام زن کر رہے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے بجٹ کا تین فی صد ہی اِن کاموں پر صَرف ہو رہا ہے کہ باقی معاملات کے لیے بھی بڑی رقم درکار ہوتی ہے۔ تاہم، میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنی ترجیحات کا دوبارہ تعیّن کر کے معاشرے میں سدھار کے لیے اِن شعبوں پر زیادہ وسائل خرچ کرنے چاہئیں تاکہ لوگ امداد لینے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔

س: حالیہ انتخابات میں انجینئر عبدالمجید بادینی کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کام یابی کا سبب سیلاب کے دَوران اُن کی کارکردگی تھی یا لوگ اب سرداروں سے بے زار ہو چُکے ہیں؟

ج: ’’ الخدمت‘‘ کے انجینئر عبدالمجید بادینی ایک نڈر اور محنتی انسان ہیں، اُنہوں نے برسوں لوگوں کی خدمت کی ہے۔سیلاب کے دَوران متاثرین پر کروڑوں روپے خرچ کیے، اُن کے لیے گھر بنوائے، راشن تقسیم کیا اور اُن تک پینے کا صاف پانی پہنچایا۔ ظاہر ہے، جو مشکل وقت میں ساتھ کھڑا ہو، لوگ اُسے یاد رکھتے ہیں۔پھر یہ بھی اہم ہے کہ لوگ اب پڑھ لکھ گئے ہیں، وہ سرداری نظام سے بے زار نظر آتے ہیں۔

ایک دوسری مثال مولانا ہدایت الرحمٰن کی بھی ہے، جو مچھیروں کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش رہے۔لگتا یہی ہے کہ اگلے10 ،15 سالوں میں انتخابی میدان میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی۔

س: آپ کے کتنے بچّے ہیں اور اُن کی تعلیمی سرگرمیاں کیا ہیں؟

ج: میری اہلیہ، انیلہ کُرد قبیلے ہی سے ہیں۔اُنھوں نے گریجویشن کی ہے اور وہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔ تین بیٹے احمد کارزان، احمد ازور اور بن یامین ہیں۔ کوئٹہ میں اپنے کنبے کے ساتھ ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں رہتا ہوں۔دو بچّے اسکول میں پڑھتے ہیں۔

س: لکھنے لکھانے کا شوق کب سے ہے اور کس صنف میں طبع آزمائی کرتے ہیں؟

ج: مَیں کوئی باقاعدہ لکھاری نہیں ہوں۔ بلوچستان کے بے شمار سفر کیے، حالات بہت قریب سے دیکھے، تو مجھے احساس ہوا کہ اِس خُوب صُورت خطّے سے متعلق لوگ کم ہی جانتے ہیں، میری خواہش ہے کہ مَیں اپنے صوبے اور اپنے لوگوں سے متعلق زیادہ سے زیادہ تفاصیل سامنے لاؤں۔ 

اِس حوالے سے دو سال قبل لکھنا شروع کیا اور اب وہ سفرنامہ طباعت کے مراحل میں ہے۔اِس میں ڈیرہ بگٹی، بیلا شہر، مسلم باغ اور مکران ڈویژن سے متعلق لکھا ہے۔علاوہ ازیں، اپنے علاقے، دشت میں مشاعروں کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہوں، جن کا مقصد علاقے میں ادب اور کتاب دوستی کا فروغ ہے۔

س: کون کون سی زبانیں بول یا سمجھ لیتے ہیں؟

ج: میری مادری زبان براہوی ہے، اردو اور انگریزی بھی بول لیتا ہوں، جب کہ بلوچی، پشتو اور سندھی سمجھ لیتا ہوں۔

س: آپ کے خیال میں کسی مُلک کو مشکل حالات سے نکالنے کے لیے سب سے ضروری چیز کیا ہے؟

ج: کسی بھی مُلک کے لیے مضبوط پولیٹیکل سسٹم سب سے اہم ہوتا ہے۔ مشکلات سے نکلنے اور ترقّی یافتہ اقوام کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے ایک مضبوط اور ٹرانسپیرنٹ سیاسی نظام کی ضرورت پڑتی ہے۔ جہاں جہاں یہ نظام مضبوط ہے، وہاں ترقّی و خوش حالی ہے۔ وہاں کے ادارے بھی مضبوط ہیں اور حکومتیں بھی اچھی ساکھ کی حامل ہیں۔ ایسے ہی سیاسی نظام سے اچھی قیادت میسّر آتی ہے۔

س: بلوچستان سے متعلق کوئی خاص پیغام؟

ج: بلوچستان کے لوگ انتہائی خود دار اور مخلص ہیں۔ جب کسی کے ساتھ دھوکا ہو یا اس کے اخلاص کو فراموش کیا جائے، تو پھر ردّ ِ عمل منفی ہی ہوتا ہے۔ عوام اب ماضی کی زیادتیوں اور نا انصافیوں پر آواز اُٹھا رہے ہیں۔بلوچستان کی افغانستان اور ایران کے ساتھ ہزاروں کلو میٹر پر محیط سرحدیں ہیں، 750 کلومیٹر پر پھیلا ساحل ہے، صوبے میں معدنیات کے خزانے موجود ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہاں کی60 فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کسی خطّے میں اِتنا کچھ موجود ہو، تو وہ کیوں کر پس ماندہ ہو سکتا ہے، اس کے باسی کیسے بھوکے رہ سکتے ہیں۔مجھے پورا یقین ہے کہ جب بھی کوئی اچھی قیادت بلوچستان پر حقیقی معنوں میں توجّہ دے گی، تو یہ صوبہ اور یہاں کے باسی بہت جلد ترقّی کر جائیں گے اور یہ ترقّی، پورے مُلک کی ترقّی کا باعث بنے گی۔