• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معروف قلم کار، اداکار، ہدایت کار، ڈراما نویس کفایت رودینی کی باتیں
معروف قلم کار، اداکار، ہدایت کار، ڈراما نویس کفایت رودینی کی باتیں

بات چیت و عکّاسی: وحید زہیرؔ، کوئٹہ

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نام وَر ڈراما ڈائریکٹر اور لکھاری، کفایت رودینی کی بنیادی تعلیم مدرسے کی ہے۔ اُن کے پاس باقاعدہ کوئی تعلیمی اسناد نہیں، خُود ہی لفظ جوڑ جوڑ کر پڑھتے، سیکھتے رہے۔ خضدار، کوئٹہ، حب اور کراچی میں دُھول مٹّی اور گرمی کی پروا کیے بغیر مزدوری کی، ٹی وی اسٹیشنز سے دھتکارے جانے کے باوجود پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیا اور پھر اُن کا شوق، جنون اور جذبہ جیت گیا۔ گزشتہ دنوں ایک خصوصی نشست میں اُنھوں نے اپنی عزم و ہمّت پر مشتمل سرگزشتِ حیات کے چند اوراق اُلٹے، جو جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہیں۔

س: جائے پیدائش، خاندان اور تعلیم سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: مَیں بلوچستان کے علاقے، گِدر سوراب میں 1979ء میں پیدا ہوا۔ میرے والد، مولوی حمید اللہ( مرحوم) مسجد کے پیش امام تھے، جب کہ بھائی، مولوی عنایت اللہ سماجی اور سیاسی طور پر معروف ہیں۔ مدرسے میں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خضدار کا رُخ کیا، عمارتوں کے تعمیراتی کاموں اور رنگ و روغن میں استادوں کے ساتھ مزدوری کرتا رہا۔ اِسی دوران مجھے یرقان ہوا، تو تین ماہ اسپتال میں داخل رہا۔ 

وہاں اخبارات کے ٹکڑے سامنے رکھ کر لفظ جوڑتا رہا۔ لکھنے پڑھنے کی سوجھ بوجھ پر ڈائجسٹس کی وَرق گردانی کی کوشش کی اور ہر روز کچھ نہ کچھ ضرور پڑھتا۔ انگریزی سیکھنے کے لیے بول چال کی کتابیں منگوائیں۔ صحت یاب ہونے کے بعد ایک ٹیلر ماسٹر کے ہاں سلائی کڑھائی کا کام سیکھا اور پھر کرائے پر ایک دکان حاصل کرکے کپڑوں کی سلائی کا کام شروع کردیا۔اِسی دوران میری شادی بھی ہوگئی۔

س: ڈراموں میں کام کی ابتدا کیسے ہوئی؟

ج: مَیں خضدار ہی میں تھا، جب دوستوں نے ایک ڈراما اسٹیج کیا اور مجھے بھی ایک کردار نبھانے کے لیے کہا گیا۔ سب نے میری اداکاری کو بے حد پسند کیا، جب کہ کیمرا مین، ماسٹر ریاض نے تو میری اداکاری کو نور محمّد لاشاری جیسا قرار دے دیا۔ پھر اُنہوں ہی نے مجھے کوئٹہ ٹی وی جانے کا مشورہ دیا۔ مَیں نے کہا’’ مَیں تو وہاں کسی کو جانتا تک نہیں۔‘‘ اِس پر اُنہوں نے مشہور ڈراما نگار، ڈاکٹر تاج رئیسانی سے ملنے کو کہا، جن کی پوسٹنگ خضدار میں تھی، لیکن جب مَیں اُن سے ملنے اسپتال گیا، تو وہ نہیں ملے۔ 

مجھے کہیں سے ڈاکٹر رئیسانی کے برادرِ نسبتی کی دُکان کا پتا چلا، تو اُن کے پاس پہنچ گیا اور پھر میرے اصرار پر اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات کا بندوبست کردیا۔ ڈاکٹر تاج رئیسانی کو دیکھ کر مجھے شرمندگی ہوئی کہ وہ تو میری دُکان پر آتے رہے ہیں اور مَیں اُن سے عام گاہکوں جیسا برتاؤ کرتا رہا، ملاقات کے دَوران اُن کا برتاؤ بھی ویسا ہی تھا۔ مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مجھے ڈراما لکھنے کا شوق ہے اور اداکاری بھی کرنا چاہتا ہوں۔

اُنہوں نے سوال کیا’’ کیا پڑھتے ہو؟’’مَیں نے زیرِ مطالعہ ڈائجسٹس کا بتایا، تو اُنہوں نے مزید کوئی بات کیے بغیر مجھے میکسم گورکی کا ناول’’ ماں‘‘ پڑھنے کے لیے دیا۔ مَیں نے دل میں کہا’’ کسی سے جان چُھڑانے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔‘‘ خیر، مَیں نے چار دنوں میں ناول پڑھ ڈالا اور دوبارہ اُن کے پاس پہنچ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ وہی ناول پڑھنے کو کہا، تو مَیں نے کہا’’ سر! وہ تو مَیں پڑھ چُکا ہوں۔‘‘اُنھوں نے کہا’’ جائو اور اسے دوبارہ پڑھو۔ اس کے کرداروں کا جائزہ لیتے رہو، اپنے ارد گرد اِس قسم کے کردار تلاش کرو۔‘‘یوں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا رہا۔

س: اِس دوران آپ کی معاشی سرگرمیاں تو متاثر ہوئی ہوں گی؟

ج: ایسی ویسی۔ گھر سے وقت برباد کرنے کے طعنے سُنتا رہا۔ پیسوں کی تنگی دیکھنی پڑی۔ اُنہی دنوں ڈاکٹر صاحب کے سیریل’’ ناخدا‘‘ کی کوئٹہ میں ریکارڈنگ ہورہی تھی۔ ایک روز دیکھا، وہ ویگن میں بیٹھے کوئٹہ جارہے ہیں، تو مَیں بھی ویگن میں سوار ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر ٹی وی اسٹیشن میں حسّام قاضی، ایوب کھوسہ اور بہت سے دیگر اداکاروں کو پہلی بار قریب سے دیکھا۔مختلف لکھاریوں سے ملاقات ہوئی، جس سے میرا حوصلہ بڑھا۔ میرے پاس چار، پانچ رجسٹر تھے، جن میں، مَیں بے شمار کہانیاں لکھ چُکا تھا۔ 

وہ رجسٹر اب بھی میری الماریوں میں محفوظ ہیں۔ بہرحال،’’ ناخدا ‘‘ اور براہوی ڈرامے’’ آدینک‘‘ میں مجھے سپورٹنگ کردار ملا۔ اِسی دوران نائلہ قادری اور مصطفیٰ رئیسانی ایک پراجیکٹ کے تحت ایک ڈراما ریکارڈ کر رہے تھے، تو مَیں نے بھی دس منٹ کا ایک ڈراما اُنہیں لکھ کر دیا، جو ریکارڈ ہوا۔اِسی دوران مَیں نے ایک این جی او بھی بنائی اور ڈاکٹر بختیاری کے ساتھ ایک ریسرچ کورس بھی کیا۔ اس طرح تجربات و مشاہدات میں اضافہ ہوتا رہا۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

سوال: پھر کراچی چلے گئے؟

ج: 2001ء میں پرائیویٹ پروڈکشنز کا آغاز ہوا، تو سب ہی نے کراچی کا رُخ کرلیا۔ مَیں نے بھی وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ صدر بازار میں ایک ٹیلر ماسٹر سے بات کی، تو اُنہوں نے مجھے کپڑوں کی کٹنگ پر بِٹھا دیا۔ طے یہ ہوا کہ شام میں آکر کٹنگ کیا کروں گا اور صبح اداکاری کو وقت دوں گا۔ اِس دَوران پی ٹی وی اور دیگر نجی چینلز کے دفاتر کے چکر کاٹتا رہا۔ کئی کئی گھنٹے باہر بیٹھا رہتا کہ شاید اندر جانے کا موقع مل جائے۔

اِس مرحلے پر کسی نے میری کوئی خاص رہنمائی نہیں کی اور نہ ہی کسی نے مجھے کام دِلانے کی کوئی کوشش کی۔ اِس چکر میں کئی ماہ گزر گئے۔ ایک روز پتہ چلا کہ پروڈیوسر عطاء اللہ بلوچ کا کوئٹہ سے کراچی ٹرانسفر ہوا ہے۔ اب مَیں نے اُنھیں کام کے سلسلے میں تنگ کرنا شروع کردیا، یہاں تک کہ وہ بھی بے زار ہوگئے۔ مَیں نے کراچی ایئر پورٹ کے قریب ٹین کی چھتوں پر مشتمل دو کمروں کا گھر کرائے پر لیا۔ سخت گرمیاں تھیں اور گھر میں پنکھے تک نہیں تھے۔ کئی کئی بسز بدل کر روز پی ٹی وی اسٹیشن جاتا، تو کبھی پیسے بچانے کے لیے پیدل ہی چل پڑتا۔ 

آخر کار، ایک روز عطاء اللہ بلوچ نے تنگ آکر مجھے کہا کہ’’ میرے ساتھ کام کرو۔‘‘اور یہ کام، چائے بنانے، مہمانوں کو پیش کرنے سمیت دیگر چھوٹے موٹے امور پر مشتمل تھا، مَیں نے بھی فوراً ہامی بھرلی۔دو، تین ماہ تک یہی چھوٹے موٹے کام کرتا رہا۔ اُن کی ڈراما سیریل ’’مٹّی کی مورت‘‘ پر کام شروع ہوا، تو اُنہوں نے مجھے باقاعدہ اسسٹنٹ کے طور پر ذمّے داری سونپ دی۔

اِس سے یہ فائدہ ہوا کہ مَیں اسکرپٹ پڑھتا رہا، اداکاروں اور پروڈیوسرز کے درمیان ہونے والی گفتگو ذہن نشین کرتا رہا، خُود بھی لکھتا رہا۔ ایک دن عطا بھائی کو کسی بات پر غصّہ آیا، تو کہنے لگے’’ کفایت! تم فیصلہ کرو، تمہیں کیا بننا ہے۔ ڈائریکٹر، ایکٹر یا رائٹر۔‘‘ابھی مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ 2004ء میں لندن میں ٹرین دھماکا ہوا، جس سے پاکستانی طلبہ کی وہاں تعلیم کے حصول میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ 

عطاء اللہ بلوچ کو اِس واقعے پر ایک ڈراما تیار کرنے کو کہا گیا، جس کے لیے ایک، دو رائٹرز نے اسکرپٹ لکھا، لیکن عطاء بھائی کو کسی کا آئیڈیا پسند نہیں آیا۔ڈراما شیڈول بھی تھا۔

اُنہوں نے طے کر لیا کہ وہ ہیڈ کوارٹر کو اِس ڈرامے سے دست بردار ہونے کا کہیں گے۔ مَیں نے موقع پا کر اُن سے ڈراما لکھنے کی اجازت چاہی اور اُنہوں نے روا داری میں کہہ دیا’’ٹھیک ہے، دیکھ لو۔‘‘مَیں مسلسل لکھتا رہا اور جب دو روز تک ٹی وی اسٹیشن نہیں گیا، تو عطاء بھائی کا فون آیا’’ کہاں ہو؟‘‘ مَیں نے بتایا’’ وہی لانگ پلے لکھ رہا ہوں اور آٹھ سین لکھ چُکا ہوں۔‘‘ اُنہوں نے فوراً ہوٹل میں ملنے کے لیے کہا۔ مَیں وہاں پہنچا اور جو کچھ لکھا تھا، اُن کے حوالے کردیا۔ 

اُنہوں نے پڑھا اور وہیں سے سیٹ ڈیزائنر کو فون کرکے منظر کے مطابق سیٹ لگانے کو کہا۔ یوں ڈرامے کی ریکارڈنگ شروع ہوگئی اور مَیں نے باقی ڈراما بھی لکھ ڈالا۔ جب وہ ڈراما آن ایئر ہوا، تو ہر طرف سے میری تعریف موصول ہوئی۔ بعدازاں، سیریل ’’ سدوری ‘‘ لکھی۔

س: پھر آپ’’ جیو‘‘ سے منسلک ہوگئے؟

ج: 2012ء تک چند سوپ اور سیریل لکھ چُکا تھا۔ اس دوران جیو میں بطور ہیڈ آف کانٹینٹ اسکرپٹ کام کیا اور تقریباً چھے سال تک ادارے سے وابستہ رہا۔ بعد میں ایک دوسرا چینل جوائن کیا۔ اِس دوران’’ کاش! مَیں تیری بیٹی نہ ہوتی‘‘،’’ مَن کے موتی‘‘،’’ مائی ڈیئر سوتن‘‘ اور’’ رنج آشنائی‘‘ جیسے سُپر ہٹ ڈرامے لکھے۔

س: کووِڈ کا عرصہ کیسا گزرا؟

ج: ایک لحاظ سے تو کافی تکلیف دہ رہا۔ انڈسٹری میں کام رُک گیا اور اِس شعبے سے وابستہ افراد بے حد متاثر ہوئے۔ تاہم، دوسری طرف، مجھ جیسوں کو سوچنے، پڑھنے اور بہتر کارگزاری کا موقع ملا۔’’ویڈنگ نائٹ‘‘ سیریز لکھی، اُس کی ڈرامائی تشکیل کی، یوٹیوب پر اپ لوڈ کی۔ پھر انٹرنیشنل فیسٹیول میں بھی بھجوائی۔ ایک ڈراما،’’بلائنڈ‘‘ کے نام سے کیا، جسے’’ بیسٹ اسٹوری آف فلم‘‘ کے پانچ ایوارڈز ملے، جن میں آسٹریلیا، کینیڈا اور ممبئی فلم ایوارڈ بھی شامل ہیں۔

س: آج کل آپ اسلام آباد میں ہوتے ہیں، تو وہاں کیا مصروفیات ہیں؟

ج: جہاں کام ملتا ہے، وہاں چلے جاتے ہیں۔ ابھی ایک نئے ٹی وی چینل سے میرا سیریل’’ ایڈیٹ‘‘ آن ائیر ہوا ہے۔ ایک دو مزید پراجیکٹس پر بھی کام ہو رہا ہے۔

س: ایک طرف مذہبی گھرانے سے تعلق، دوسری طرف شوبز انڈسٹری، خاصی کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا؟

ج: میرے والد ایک روشن خیال عالم تھے۔ وہ بچپن میں ہمیں لیلیٰ، مجنوں جیسی کہانیاں سناتے اور شاید انہی کہانیوں کا اثر تھا کہ مَیں کہانی کار بن گیا۔ پھر بچپن میں ایک چروا ہے، عبدالرحمٰن سے بہت دوستی تھی، وہ بھی روز مجھے کہانیاں سُناتا تھا۔

س: آپ خود تو باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرسکے، بچّوں کی تعلیم و تربیت کا کیا سلسلہ ہے؟

ج: میری تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ اہلیہ عام گھریلو خاتون ہیں۔ جب مَیں کراچی آیا، تو شروع میں اِتنے پیسے نہیں تھے کہ بچّوں کو کسی نجی اسکول میں داخل کرواتا۔ تین ماہ تک وہ ایک قاری صاحب سے دینی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ بعد میں اُن کا ایک سرکاری اسکول میں داخلہ کروایا۔ جب آمدنی میں اضافہ ہوا، تو وہ پرائیویٹ اسکولز اور کالجز میں پڑھنے لگے۔بڑی بیٹی، نجمہ کفایت نے بی اے کرنے کے بعد’’ ناپا‘‘ جوائن کیا۔

وہ ایکٹنگ اور آرٹ سے منسلک ہے۔ صبیحہ، اقراء یونی ورسٹی سے فیشن ڈیزائننگ میں گریجویشن کرنے کے بعد آن لائن اسٹائلسٹ ڈیزائنر کے طور پر کام کر رہی ہے۔ بیٹے، ثاقب کفایت نے آپٹک کمپیوٹر سے گریجویشن کی، جب کہ چھوٹی بیٹی فروغ کفایت نے گوتم سے گریجویشن کی اور اب بطور فری لانسر کام کر رہی ہے۔ چھوٹا احمر کفایت میٹرک سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ تاہم، وہ ایک اچھے ایڈیٹر کے طور پر معروف ہے اور آن لائن کام کر رہا ہے۔

س: یہاں تک پہنچنے میں پہلا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟

ج: میری اہلیہ کو، جنہوں نے ہر طرح کے حالات میں میرا ساتھ دیا۔ بچّوں کی تربیت پر خاص طور پر توجّہ مرکوز رکھی۔ میری مصروفیات کے دور میں بچّوں کو سنبھالے رکھا۔ میری اور بچّوں کی سب کام یابیاں دراصل اُن ہی کی مرہونِ منّت ہیں۔

س: سب سے زیادہ کس سے سیکھا؟

ج: حالات بہت کچھ سِکھاتے ہیں۔ مَیں نے بھی قدم قدم پر وقت اور حالات سے سیکھا۔ اب بھی ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

س: کون کون سے ممالک کا سفر کرچُکے ہیں؟

ج: ملائیشیا، تھائی لینڈ، قطر، سری لنکا، تُرکی، نیپال اور دبئی گھوم چُکا ہوں۔

س: اب تک کتنے سیریل لکھے ہیں؟

ج: تقریباً ساٹھ کے قریب سیریل اور سوپ لکھ چُکا ہوں۔

س: کیا کسی فلم کے لیے بھی لکھا؟

ج: جی ہاں، تین فلمز کی کہانیاں لکھی ہیں، لیکن ابھی تک وہ پائپ لائن میں ہیں۔

س: کیا آپ کی بھی کہانیاں چوری ہوتی رہی ہیں؟

ج: ابتدائی دنوں میں تو ایسا کئی بار ہوا۔بہت سے افراد مجھ سے کہانیاں سُن کر اپنے نام کرتے رہے۔ ہمارے یہاں چور راستے تلاش کرنے والے اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا بیڑا غرق کرتے ہیں۔

س: اگر آپ کے پاس تعلیمی اسناد ہوتیں، تب خود کو کہاں دیکھتے؟

ج: شاید میری جدوجہد، جستجو اور جذبہ صفر ہوتا کہ اِسی کمی نے تو مجھ میں مقابلے کی سکت پیدا کی۔

س: کہیں آپ ان بزرگوں میں سے تو نہیں، جو تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود داستانیں، محاورے اور پہیلیاں تخلیق کرتے تھے؟

ج: شاید انہی بزرگوں کی رُوح مجھ میں ہے۔مَیں اپنے آباؤ و اجداد کی فوک وزڈم کا تسلسل ہوں۔ خضدار آنے تک مجھے پتا بھی نہیں تھا کہ ادب یا ادیب کیا ہوتا ہے۔ ہاں ،مَیں اپنے بہنوئی،سردار غوث بخش سے، جو نام کے سردار اور غیر تعلیم یافتہ، مگر بلا کے دُور اندیش تھے، کافی متاثر رہا۔

س: کس بات پر زیادہ مطمئن ہیں؟

ج: ایک ہی بات ہے کہ مَیں ڈگریز کی بے توقیری کرنے والوں میں شامل نہیں اور اپنے ربّ کا شُکر گزار ہوں کہ مجھے پڑھے لکھے اور محنتی انسانوں کی دوستی عطا کی۔

س: لکھنے لکھانے اور اداکاری کے علاوہ کیا مشاغل ہیں؟

ج: یوگا سے بہت دل چسپی ہے، نیپال سے میڈی ٹیشن کا کورس کرچکا ہوں اور ہائیکنگ بھی میرا مشغلہ ہے۔

س: آپ نے بھی کسی کا ہاتھ تھاما؟

ج: جی بہت کوشش کی، پرانے دوست آتے رہے، اُنہیں بہت کچھ سِکھایا، لیکن وہ کچھ بن نہ سکے۔ یہاں تک کہ میرا چھوٹا بھائی حفیظ رودینی کراچی آیا۔ جیو سے ان کا سوپ، قدم قدم عشق اور ایک آدھ ڈرامے آن ایئر ہوئے، مگر کووِڈ- 19کے بعد وہ بھی بہت سے دیگر اداکاروں، قلم کاروں کی طرح مایوس ہوگیا۔لاہور میں ایک تربیتی کورس کے دوران مَیں نے تقریباً 50سے زائد افراد کو تربیت دی،جن میں سے کچھ نے نام بھی کمایا۔