• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ہونہار اداکار، فلم ڈائریکٹر، سمیع سارنگ کی باتیں
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ہونہار اداکار، فلم ڈائریکٹر، سمیع سارنگ کی باتیں

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

تصاویر: رابرٹ جیمس

سمیع سارنگ ایک انتہائی باصلاحیت نوجوان ہیں۔ اومان میں پہلی بلوچی فلم بنائی اور پھر سائوتھ انڈین فلم’’ راستہ‘‘ میں مرکزی کردار ادا کر کے اپنے مُلک اور صوبے کا نام روشن کیا۔ ماڈلنگ بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کی تفصیل جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے خاندانی پس منظر سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرے دادا، پَر دادا کا تعلق بلوچستان کے علاقے مستونگ سے ہے۔ دادا، بابو عبدالکریم’’ خزانچی‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ویسے ہمارا تعلق سارنگ زئی قبیلے سے ہے اور خاندان کے بزرگوں نے روزگار کے سلسلے میں کوئٹہ کا رُخ کیا۔مَیں 7جولائی1986 ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ 

میرے والد، عبدالقادر معصوم ابتدا میں محکمہ شناختی کارڈ میں فوٹو گرافر بھرتی ہوئے، بعدازاں محکمۂ صحت سے وابستہ ہوگئے اور بطور سپرنٹنڈنٹ ریٹائر ہوئے۔ ہم پانچ بھائی ہیں۔ جمال عبدالناصر محکمۂ صحت میں ملازم ہیں۔ آصف سارنگ کراچی میں ایک کمپنی کے زونل منیجر ہیں۔ محمّد عمران ڈی سی آفس میں کام کرتے ہیں، جب کہ میرے بعد ایک چھوٹا بھائی کلیم ہے۔

س: تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

ج: میری بنیادی تعلیم جامع ہائی اسکول، کوئٹہ کی ہے۔ والد کا گنداواہ اور تربت میں تبادلہ ہوا، تو کچھ عرصہ وہاں بھی تعلیم حاصل کی۔ سائنس کالج، کوئٹہ سے ایف ایس سی کے بعد پاک فوج جوائن کرنے کا شوق ہوا، لیکن طبّی معیار پر پورا نہیں اُتر سکا۔ بلوچستان یونی ورسٹی میں داخلہ لیا، لیکن چار، پانچ ماہ بعد فیصلہ بدل کر نمل یونی ورسٹی، اسلام آباد میں داخلہ لے لیا۔

س: ایک مِڈل کلاس نوجوان کو اسلام آباد میں مسائل کا سامنا تو کرنا پڑا ہوگا؟

ج: پہلی بار اپنے صوبے سے کسی دوسرے علاقے میں گیا تھا، جو کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا، لیکن مشکلات سے لڑنے کا جذبہ ہو، تو قدم، منزل کی جانب خود بخود بڑھنے لگتے ہیں۔ اسلام آباد میں اچھے دوست ملے، پھر میرے ایک رشتے دار سردار صلاح الدّین نے مجھ سے بہت تعاون کیا، میری بے حد حوصلہ افزائی کی۔ بہرکیف، نمل یونی ورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کی سند لینے کے بعد پی ٹی وی سمیت مختلف ٹی وی چینلز میں انٹرن شپ کا موقع ملا۔

س: اداکاری کی طرف کیسے آئے؟

ج: مَیں بچپن میں اپنے چچا، قیوم بیدار کے ساتھ پی ٹی وی مرکز جایا کرتا تھا، جو وہاں پروڈیوسر تھے۔ بچّوں کے مقبول پروگرام’’ گُل رنگ‘‘ میں بھی شرکت کرتا رہا، تو یوں میری دل چسپی بڑھتی رہی۔ کوئٹہ میں مختلف اخبارات سے بھی منسلک رہا، جس سے لکھنے پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔

س: اسلام آباد میں اِس شوق کی تسکین کیسے ہوئی؟

ج: ’’جہاں چاہ، وہاں راہ‘‘ والی بات ہوئی۔ میری انٹرن شپ پی ٹی وی نیوز، اسلام آباد میں ہوئی، تو وہاں کوئٹہ کے پروڈیوسر، شکیل عدنان سے ملاقات ہوئی۔اُنھوں نے نیوز روم میں ہونے کے باوجود مجھے بہت وقت دیا۔ میرے شوق کے پیشِ نظر مجھے ڈائریکشن، ایڈیٹنگ اور ڈرامے سے متعلق معلومات دیتے رہے۔ اُنہی دنوں اُن کا ڈراما’’تعبیر‘‘ ریکارڈ ہو رہا تھا، تو اُس میں مجھے ایک چھوٹا سا کردار ملا اور ساتھ ہی مَیں اسسٹنٹ کے طور پر اُن کے ساتھ کام کرتا رہا۔ 

انٹرن شپ مکمل ہونے پر مجھے ڈاکیومینٹری بنانے کی ذمّے داری دی گئی۔ مَیں نے کوئٹہ کے’’ جبلِ نور‘‘پر ڈاکیومینٹری بنائی،جہاں کی سرنگوں میں قرآنِ پاک کے ضعیف نسخے محفوظ کیے جاتے ہیں اور روزانہ سیکڑوں افراد وہاں کا وزٹ کرتے ہیں۔میری اِس ڈاکیومینٹری کو بے حد پسند کیا گیا اور اسلام آباد سینٹر نے اسے نشر بھی کیا، جس سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔

س: اومان جانے کا کیا سبب بنا؟

ج: اسلام آباد میں’’ ایف ایم-96 ‘‘ میں بطور پروگرام منیجر کام کررہا تھا، حالاں کہ مَیں نے وہاں آرجے کے لیے درخواست دی تھی، مگر اُنھوں نے میرے کوائف دیکھ کر مجھے پروگرام مینیجر کے عُہدے کے لیے چُن لیا۔وہاں مَیں نے کسانوں کے لیے مقبول پروگرام کیے۔ اِسی دوران میرے دوست، شاہد حمید بلوچ کا اومان سے پیغام آیا کہ’’ آپ یہاں آجائیں، ہم ایک بلوچی فلم بنا رہے ہیں۔‘‘ سو، مَیں وہاں چلا گیا اور اُن کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ طے پا گیا۔ وہاں ایک بلوچی فلم پر کام کا آغاز ہوا، جس کے لیے مَیں شکیل عدنان کی خدمات حاصل کرنا چاہتا تھا، میرے مشورے پر اُنہیں بھی اومان بلالیا گیا۔ 

اسکرپٹنگ، ریکارڈنگ اور ڈائریکشن میں اُن کی خدمات حاصل کی گئیں، اُنہوں نے’’ سحر‘‘ کے نام سے فلم کا اسکرپٹ مکمل کیا۔دراصل اومان میں ایک علاقہ جادو ٹونے کےحوالے سے بدنام ہے اور یہ کہانی اُسی کے پس منظر میں لکھی گئی تھی۔کہانی میں جادو ٹونے کے خلاف ایک مثبت پیغام دیا گیا تھا۔ فلم کے لیے گیت بھی ریکارڈ ہوئے، جس کے لیے مَیں نے اپنے دوست اور بلوچی گلوکار، نعیم دلیل سے مشورہ کیا۔ 

پھر مَیں کراچی آیا اور نام وَر گلوکار سہیل بلوچ اور ثمینہ کنول کی آواز میں گیت ریکارڈ کیا، جو بعدازاں عوام میں بہت مقبول ہوا۔ اِس فلم کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ مجھے پہلی مرتبہ بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کا موقع ملا اور مَیں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔

س: یہ فلم کہاں ریلیز ہوئی؟

ج: اومان کے سینمائوں میں بلوچی فلموں کا رواج نہیں ہے، تو ہم نے یہ فلم پی ٹی وی بولان سے چلائی، نیز، اس کی ڈی وی ڈیز بھی تقسیم کی گئیں۔

س: فلم کے لیے اداکاروں کا انتخاب کہاں سے کیا گیا؟

ج: اومان میں بلوچی زبان کے اچھے اداکار موجود ہیں، جو روزگار کے سلسلے میں وہاں رہائش پذیر ہیں۔ وحید البلوشی اور سعید البلوشی نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ بیرونِ مُلک بننے والی یہ بلوچی زبان کی پہلی فلم تھی، جس کی پسندیدگی سے ہمارے حوصلے بڑھے۔

س: اومان اِتنی بڑی فلم انڈسٹری تو نہیں تھی کہ محض ایک فلم کے لیے آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں چلے گئے؟

ج: مَیں نے وہاں’’ سنگت‘‘ کے نام سے ایک بلوچی فلم کی کہانی لکھی۔ ارادہ تو شارٹ فلم بنانے کا تھا، لیکن وہ بھی ایک گھنٹے کی فلم بن گئی، جس کا پریمیئر شو کوئٹہ میں ہوا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔ اومان میں ایک فلم مقابلے کا اعلان ہوا، جس میں صرف وہیں کے شہری شرکت کرسکتے تھے، تو مَیں نے پسِ پردہ رہ کر ایک چرواہے کی زندگی پر’’ سراج‘‘ کے عنوان سے کہانی لکھی۔ 

سات منٹ کی یہ شارٹ فلم، ایک سو سے زائد فلمز میں دوسرے نمبر پر آئی۔اِس سلسلے میں منعقدہ تقریب میں مجھے معاون کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ چوں کہ اصل کام تو میرا ہی تھا، اِس لیے اِس پذیرائی کو خُوب انجوائے کیا۔ اِسی دَوران کچھ عرصے کے لیے ماڈلنگ بھی کی۔ زیادہ کام نہیں رہا، تو ایک روز دوستوں سے کہا کہ’’ اب یہاں کام نہیں ہے، اِس لیے مجھے مفت کی تن خواہ لینا اچھا نہیں لگ رہا۔‘‘

س: پھر اومان چھوڑ کر آگئے؟

ج: جی، مَیں واپس آگیا۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ ہے اگر کوئی شخص بیرونِ مُلک سے اپنے علاقے میں واپس آجائے، تو اُسے ناکام سمجھا جاتا ہے اور واپسی کے طعنے سُنننے پڑتے ہیں۔ یہی خیال مجھے بھی پریشان کررہا تھا۔ اِس موقعے پر کچھ دوست مدد کے لیے آگے بڑھے۔

اُنہوں نے کہا’’ کوئی ایسا کاروبار بتاؤ، جو تم کرنا چاہتے ہو؟‘‘مَیں نے رینٹ اے کار کا کاروبار پلان کرکے اُنہیں دیا، جس پر گاڑیاں آگئیں اور مَیں اس نئی مزدوری میں جُت گیا، لیکن میرے اندر کا فن کار مجھے ہر روز کوستا رہا۔ اِس دَوران امریکا جانے کا بھی خیال آیا کہ وہاں جاکر تربیت حاصل کروں، لیکن آخری موقعے پر نہیں جاسکا۔

س: ساؤتھ انڈین فلم’’ راستہ‘‘ کی کاسٹ میں کیسے شامل کیے گئے؟

ج: ’’ راستہ‘‘ سے قبل ایک اور فلم کی ٹیم پاکستان آئی تھی، جس کے ساتھ مجھے کام کا موقع ملا۔ اُنہوں نے مجھے فلم میں ایک چھوٹا سا کردار دیا تھا۔بہرحال، کچھ عرصے بعد’’ راستہ‘‘ فلم کی ٹیم نے یہاں آنا تھا، تو اُنھوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے فلم میں ایک سپاہی کے کردار کے لیے منتخب کرلیا گیا۔

مگر پھر شوٹنگ کے دوران فلم کے ڈائریکٹر نے محسوس کیا کہ مَیں شاید اس سے بڑے کردار کے لیے بھی فِٹ ہوں، تو اُنہوں نے مجھے تھری اسٹار سپاہی سے فائیو اسٹار کمانڈر کے کردار کے لیے چُن لیا۔ بس، پھر کیا تھا، کام پسند آنے پر میرے سینز اور ڈائیلاگز میں اضافہ ہوتا رہا۔

س: یہ فلم کب ریلیز ہوئی؟

ج: فلم’’ راستہ‘‘ 2017ء میں ملیالم زبان میں بنی۔ یہ متحدہ عرب امارات سمیت کئی خلیجی ممالک، بھارت اور برطانیہ وغیرہ میں بیک وقت ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے پروڈیوسر، کونوسری نواس اور ہدایت کار انیش انور تھے، جب کہ اداکاروں میں سرجانو خالد، انا گانارائن، سندھیش، ارشاد علی، عمانی اداکار خمیس الراوی، فخریہ خمیس، العجمی، سعید ابرکی وغیرہ شامل تھے۔

س: کبھی اسٹیج پر بھی پرفارم کیا؟

ج: اومان میں ایک اسٹیج ڈراما’’ مہا بھارت‘‘ پیش کیا گیا، جس میں، مَیں نے پنڈت کا کردار ادا کیا اور مجھے جان دار پرفارمینس پر خُوب داد ملی۔ تب مَیں نے محسوس کیا کہ فن کاروں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، پوری دنیا اُن کے لیے ہے۔

س: آج کل کیا مصروفیات ہیں؟

ج: ایک بھارتی فلم کی آفر ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کا کاروبار کررہا ہوں، جب کہ اومان فلم سوسائٹی کے فلم فیسٹیولز کے لیے جیوری رُکن بھی ہوں۔

س: پاکستان میں کام کرنے کا ارادہ ہے؟

ج: بالکل ہے۔ میری پہلی ترجیح اپنا مُلک ہی ہے، لیکن یہاں ابھی تک کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ٹیلنٹ ہنٹ کی روایت زیادہ مستحکم نہیں ہے اور شاید اِسی لیے باصلاحیت نوجوان بیرونِ مُلک جارہے ہیں۔ ہمیں ہم سایہ ممالک کی فلم انڈسٹریز میں موجود مواقع سے فائدہ اُٹھانا چاہیے، کیوں کہ خلیجی ممالک میں بھی اس شعبے میں کام یابی کے امکانات بہت روشن ہیں۔

س: اپنے آپ کو کس حوالے سے خوش نصیب سمجھتے ہیں؟

ج: مجھے اسلام آباد میں بہت سی زبانیں بولنے اور سمجھنے کا فائدہ ہوا۔ ایف ایم-96 میں مجھے اسی بنیاد پر کام ملا۔ میری مادری زبان پشتو ہے۔ مستونگ سے تعلق کی وجہ سے براہوی اور دہواری بھی روانی سے بولتا ہوں۔ بلوچی، اردو اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل ہے، جب کہ اب کسی حد تک عربی زبان بھی بول اور سمجھ لیتا ہوں۔

س: مشکلات کب، کہاں اور کس نوعیت کی پیش آئیں؟

ج: موجودہ مقام تک پہنچنے میں مفلسی نے بڑے ہچکولے دیئے۔ شروع کے دنوں میں خواہ مخواہ حوصلہ شکنی بھی ہوتی رہی۔ مثلاً بعض مواقع پر میرے لہجے پر اعتراض ہوا۔ ظاہر ہے، مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانوں پر ہر طرح سے دسترس حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ چھوٹی موٹی خامیاں دُور بھی ہو جاتی ہیں۔ کافی تگ و دو، مسلسل مشق کے بعد بولنے اور لکھنے میں اب وہ مشکلات نہیں رہیں، جن کا پہلے کبھی سامنا تھا۔پھر یہ کہ ہمارے ہاں بے اعتباری، حسد اور تعصّب بھی بہت ہے۔تاہم، میرا ایمان ہے کہ اگر آپ اپنے کام میں مخلص ہیں، مثبت سوچ رکھتے ہیں، تو رکاوٹیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی جاتی ہیں۔

س: شادی سے متعلق بھی کچھ سوچا ہے؟

ج: یہ تو سوچنے والوں کو سوچنا چاہیے۔ ویسے اب وقت تو آگیا ہے کہ کچھ سوچنا پڑے گا۔

س: نوجوانوں کی سرپرستی نہ ہونے پر آپ کس کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں؟

ج: ریاست کو، کیوں کہ اگر ریاست بچّوں کی صحت کے لیے فکر مند ہوکر اُنھیں پوری سنجیدگی سے پولیو کے قطرے پلا سکتی ہے، تو اُن کی بے روزگاری، بے راہ روی کے تناظر میں کیوں اقدامات نہیں کرسکتی؟اِس ضمن میں کھیل اور فن سے متعلقہ شعبوں پر خصوصی توجّہ دینی چاہیے، جو روحانی اور جسمانی صحت کے لیے ناگزیر خیال کیے جاتے ہیں۔یوں بھی آج کل یہ دونوں شعبے انڈسٹری کا بھی درجہ رکھتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید