• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعرِ مشرق، ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کی فکر اپنے موضوعات اور اپنے مطالب کے لحاظ سے ان عنوانات کا احاطہ کرتی ہے، جو نہ صرف ہمارے ملّی و قومی عقائد و نظریات اور ہماری تاریخ و تہذیب سے متعلق ہیں، بلکہ اپنی قوم اور ملّت کو اپنے بنیادی عقائد اور تاریخ و تہذیب سے قریب ترکرنے کے مقاصد کے حامل بھی ہیں۔ 

اس اعتباراور اپنی فکر و پیغام کے لحاظ سے اقبال، بیسویں صدی میں دنیائے اسلام کی سب سے اہم اور مؤثر شخصیت تصور کیے جاتے ہیں، جنھیں محض عالمِ اسلام ہی نہیں، مغرب میں بھی شناخت و تسلیم کیا گیا ہے۔ اگرچہ اُن کے اوّلین مخاطب ایک حد تک جنوبی ایشیا کے مسلمان رہے اور اُن کی فکر کے اثرات یہیں کے مسلمانوں پر زیادہ واضح بھی ہیں، لیکن دنیائے اسلام کے دیگر ممالک اور وہاں کے افکار و تحریکات پر بھی اُن کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ 

چناں چہ اقبال نہ صرف گزشتہ صدی میں دنیائے اسلام کے منفرد اور ممتاز مفکّر ہیں، بلکہ اپنے عہد میں ملّتِ اسلامیہ کے معمار بھی ہیں، کیوں کہ اپنے وقت کے فکری اور جذباتی رجحان کو تبدیل کرنے، فکرِ اسلامی کو جمود سے نکالنے اور اس کی تشکیلِ جدید میں اُن کا حصّہ سب سے نمایاں ہے۔ پھر بحیثیتِ مفکّر بھی اقبال کی یہ ایک بڑی کام یابی تھی کہ انھوں نے اپنی فکر اور شاعری کے ذریعے اپنے عہد کی فکری اور جذباتی زندگی میں بے داری اوراضطراب پیدا کیا۔ 

ان کی فکر میں دنیائے اسلام کے تقریباً تمام اہم افکار و تحریکات کی بازگشت یاان پر تنقید محسوس ہوتی ہے۔ جن مسائل نے ملّتِ اسلامیہ کو انتشار اور اضطراب میں مبتلا کردیا تھا اور جو اسے اپنے اسلامی تشخص سے دُور کر رہے تھے، اقبال کی بھرپور تنقید کا نشانہ بنے اور جو افکار، تحریکیں اور شخصیات دنیائے اسلام کی فلاح، اصلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہوئیں، اقبال نے اُن کی تائید و ستائش کی۔ اس طرح اپنے مقصد اور پیغام کے لحاظ سے انھوں نے احیائے اسلام کے لیے نہ صرف ایک مربوط اور مستحکم فکر کی تشکیل کی، بلکہ ملّتِ اسلامیہ میں دنیائے اسلام کی آزادی، خودمختاری اور بہتر مستقبل کی تعمیر کا احساس بھی پیدا کیا۔

بالخصوص جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پران کا احسان یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی فِکر اور شاعری کے توسّط سے اُن میں قومی و ملّی شعور بے دار کرنے کے ساتھ آزادی کی تڑپ اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کا جذبہ بیدارکیا اورعہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ایک ایسا مربوط اور مستقل نظامِ فکر تشکیل دیا کہ اس پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنے انفرادی و اجتماعی کردار، یعنی ’’خودی‘‘ کی تعمیر کرسکیں۔ 

اس لحاظ سے فکرِ اقبال کا مطالعہ، دراصل ملّتِ اسلامیہ کے بنیادی عقائد و نظریات، اس کی تاریخ و تہذیب اور اس کے نشیب و فراز کا مطالعہ ہے، جو اگر جنوبی ایشیا کے تناظر میں کیا جائے، تو اس کے توسّط سے مسلمان اپنے جداگانہ ملّی و تہذیبی عناصر سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں، تو ہندوستان کے سیاسی و معاشرتی ماحول میں اپنے علیحدہ قومی تشخص سے واقفیت بھی ممکن ہے، اور اپنے بنیادی عقائد و ملّی مقاصد کے تحت ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام اور اس میں ایک فلاحی و رفاہی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے مراحل تک رہنمائی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

اس اعتبار سے اقبال کی فکر اور شاعری کا مطالعہ، بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کو جہاں ایک طرف اپنی تاریخ و تہذیب سے قریب تر کرتا ہے، وہیں ایک مکمل اسلامی معاشرے کی تشکیل کی بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے، لہٰذا اِسے مستقل حیثیت میں ہمارے تعلیمی نصاب کا حصّہ بننا چاہیے۔

اس وقت ہمارے یہاں رائج تعلیمی نصاب میں جہاں جہاں اقبال کی شخصیت، اُن کے پیغام اور فکر کو، خواہ کسی پیرائے (شاعری، خطبات، مقالات، مکاتیب) میں بھی پیش کرنے کی طرف توجّہ دی گئی ہے، وہ پورے طور پر قابلِ اطمینان نہیں اور ایسی کوششیں ہمارے نصابوں میں فکرِ اقبال کی شمولیت کے تقاضوں کو کماحقّہُ پورا نہیں کرتیں۔ 

اس حوالے سے اس ضمن میں جو جائزے لیے گئے یا مطالعات کیے گئے ہیں، اُن سے بھی بے اطمینانی کی یہی صورت ظاہر ہوتی ہے اور یہ صرف اقبال کے افکار و خیالات کی حد ہی تک نہیں، ہمارا نصابِ تعلیم اپنی مجموعی حیثیت اور بہت واضح صُورت میں نظریۂ پاکستان کے بنیادی عناصر، جن میں حصولِ پاکستان و قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد، مسلمانوں کی ملّی و تہذیبی فکر و تاریخ اور عقائد و افکار شامل ہیں، اپنے قومی و ملّی تقاضوں کے مطابق جدید دنیا کا حصّہ رہتے ہوئے ایک نظریاتی و فلاحی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی طرف نہ تو اپنے طلبہ کی مناسب رہنمائی کرتا ہے اور نہ ہی انھیں بہ حیثیت پاکستانی، مؤثر صُورت میں ملّتِ اسلامیہ کے اجتماعی وجود کا ایک حصہ قرار دیتا ہے۔

ابتدائی و ثانوی درجات کے نصاب کی چند کتب میں، بعض اسلاف کے تذکروں کے ساتھ، اقبال کی کچھ نظموں یا اُن کی شخصیت و سوانح کے سرسری تعارف کو شامل کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ نصاب، پاکستانی قوم اور معاشرے کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگیا، لیکن ایسی تمام ’’مخلصانہ‘‘ و ’’مصلحت آمیز‘‘ کوششوں کے باوجود ہمارا نصاب اپنے مذکورہ حقیقی مقاصد و مزاج اور اپنے مفید اثرات سے بڑی حد تک عاری ہے۔ ہر صوبے اور علاقے کے نصابات میں اس متعلقہ صوبے کے اکابر اور جغرافیائی و علاقائی موضوعات زیادہ حاوی نظر آتے ہیں۔ 

ایسے وفاقی نصابات یا خود ایسے صوبائی نصابات سے بھی، جنھیں وفاقی حکومت تجویز یا مرتّب کرتی رہی ہے یا کرتی ہے، زیادہ تر صوبائی یا علاقائی ہونے کا تاثر ابھرتا ہے، اور قومی و ملّی نقطۂ نظر سے یہی ہمارے نصاب کی بدقسمتی، محرومی یا کم زوری ہے۔ بعض تعلیمی سفارشات کے تجویز کردہ مناسب رہنما خطوط کے باوجود ذمّے دار وفاقی اور صوبائی نصابی مجالس اور ادارے ذہن کو بہرحال ان خطوط سے ہم آہنگ موزوں و معیاری نصاب کی عدم موجودگی اور اس کی ترتیب میں مسلسل ناکامی اور ان اداروں سے منسلک افراد کی ایک حد تک بے نیازی، عدم آمادگی اور نااہلی کی طرف منتقل کرتے ہیں، جب کہ دوسری جانب ایسے اداروں سے منسلک بیش تر افراد کا خلوص، کسی بھی شک و شبے سے بالاتر ہے۔ 

بہرکیف، فکراقبال کے ساتھ یہی المیہ رہا ہے کہ اگر اسے نصاب کا حصّہ بنانے کی طرف توجّہ دی بھی گئی ہے، تومحض ٹالنے کے لیے۔ سو، اس کا حق کسی طورادا نہ ہوسکا۔ یوں لگتا ہے کہ جہاں جہاں اور جس درجے میں اقبال کو نصاب میں شامل بھی کیا گیا، تو محض اُن کی معروف و دل چسپ نظموں یا اُن کی شخصیت و سوانح کے سرسری تعارف کو شامل کرکے یہ سمجھ لیا گیا کہ نصاب یا موضوع کا حق ادا ہوگیا، جب کہ اس طرح بات خانہ پُری سے آگے نہ بڑھی۔ 

ملّتِ اسلامیہ اور بالخصوص، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو درپیش قومی و سیاسی اور معاشرتی مسائل میں فکرِ اقبال سے جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے یا ایک نظریاتی و فلاحی معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں جس طرح اسے استعمال کیا جاسکتا ہے، ہمارا نصاب اس قسم کی مثال شاذ ہی پیش کرسکتا ہے۔ اور ایسی جو اِکّا دُکّا مثالیں نظر بھی آتی ہیں، وہ بعض اعلیٰ سطحی درجات یا استثنائی طور پر’’علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی‘‘ کی چند نصابی کُتب میں ملتی ہیں۔ حالاں کہ ابتدائی، بالخصوص ثانوی درجات کے نصابات، جہاں طلبہ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اور اُن کا ذہن قدرے سادہ و ناپختہ اور جذب و قبول کا اہل ہوتا ہے، فکرِ اقبال کی شمولیت بہت زیادہ توجّہ چاہتی ہے۔ 

پھر اس کی شمولیت کا انداز و نہج اور معیار تمام متعلقہ نصابات میں، صوبائی و علاقائی حوالے سے قطع نظر، یک ساں اہمیت کے ساتھ ہونا چاہیے اور یہ لحاظ بھی رہنا چاہیے کہ اگراقبال کی ایک نظم کسی نصاب میں ثانوی درجے میں شامل ہے، تو وہ اُسی جگہ یا کسی اور جگہ کسی اعلیٰ یا کم تر درجے میں شامل نہ ہو۔ جب کہ موجودہ نصابات میں یہ تعجب خیز صُورت رابطے کی کمی کے باعث موجود ہے کہ کسی جگہ اقبال کی ایک نظم ثانوی درجے میں شامل ہے، تووہی نظم خُود اُسی جگہ یا کسی اعلیٰ ثانوی نصاب میں بلکہ ایک اور جگہ ڈگری سطح کے نصاب میں بھی نظر آتی ہے۔ ان کی نثر بھی کم و بیش اسی صُورتِ حال سے دوچار ہوئی ہے (یاد رہے کہ یہ صرف اقبال کے ساتھ ہی نہیں، دیگر قدیم و جدید مصنّفین کے ساتھ بھی ہوا ہے)۔

ان تمام مسائل اور اس صورتِ حال کا مداوا یا تلافی ان صُورتوں میں ممکن ہے کہ بالخصوص وہ نصاب، جس کی نظریاتی و قومی اور معاشرتی اہمیت ہے، یا جن میں متعلقہ موضوعات کو بہ آسانی پیش کیا جاسکتا ہے، صرف وفاقی سطح پر ترتیب دیا جائے اور پھر اُسی کو تمام صوبوں میں رائج کیا جائے۔ محض مخصوص صُورتوں میں جزوی موضوعات اور عنوانات، ہر صوبے یا علاقے کی حد تک اضافی ہوں اور اس تمام نصاب کی ترتیب میں تمام صوبوں کو مناسب نمائندگی حاصل رہے۔ 

اصولی طور پرنصاب میں اقبالیات سے متعلق موضوعات اور فکرِ اقبال پر مشتمل مضامین اور نظم و نثر کو مرحلہ وار شامل کیا جانا چاہیے۔ پرائمری سطح تک اقبال کی ایسی منظومات شامل کی جائیں، جو سبق آموز ہوں اور جن سے انسانوں کے درمیان محبت و اخوت اور ہم دردی کے جذبات بیدار ہوتے ہوں۔ پھرثانوی و اعلیٰ ثانوی سطح کے نصاب میں تعمیرِ سیرت، مسلمانوں کے شان دار ماضی، بہتر اسلامی معاشرے کے قیام میں فرد کے کرداراور اسلام کے قومی و تہذیبی تصوّرات، جیسے موضوعات پر مؤثر اور دل چسپ تحریریں شامل ہوں۔

جب کہ ڈگری اور اعلیٰ سطح کے نصاب میں فکرِ اقبال کے اہم نکات اور مضامین، عالمی اور دنیائے اسلام کے تناظر میں اس طرح پیش کیے جائیں کہ یہ مسلمانوں کے لیے عصری تقاضوں کی موجودگی میں ایک فلاحی معاشرے اور اسلامی مملکت کے قیام میں رہنما ثابت ہوسکیں۔ اگر نصاب ،محض وفاقی سطح پر مرتّب کرکے نافذ کرنا قرینِ مصلحت نہ ہو، تو اسے کم از کم مذکورہ بالاتجاویز کے مطابق مرتّب کرکے یک سانیت سے بچا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ معروضات صرف اسکولزاور کالجز کی سطح پر رائج نصابات کے تعلق سے پیش کی گئی ہیں، جب کہ اگر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے مطالعات و تحقیقات موضوع بنے، تو اُن کے لیے ظاہر ہے، ایسے نصابی تکلفات کے بجائے اُس سطح کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق موضوعات اور منصوبوں کی بابت سوچا جانا چاہیے اور ان سطحوں کے موضوعات کوفکرِ اقبال کے تناظر میں قوم و معاشرے کی اصلاح و بہتری اورتعمیر و ترقی کے مقاصد کے تحت طے کیاجانا چاہیے۔ 

مذکورہ سطح پر محض احوال و آثار اور سرسری و سطحی جائزوں کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ان سطحوں کے مطالعات میں اگرمقررہ نصابی تربیت اور سرگرمیوں کا کسی طرح کا التزام رکھا جاتا ہے اور مطالعات و تحقیقات کسی طرح سے اور کسی بھی حوالے سے فکرِ اقبال سے منسلک ہوں، تو ان کا نصاب اور لائحہ عمل اقبال کی فکر اور مقاصد کو مجروح کرنے کا سبب نہ بنیں، بلکہ مطالعات ِ اقبال کے لیے معاون اوراُن کے فروغ کا سبب بنیں۔