گرچہ ریچھ اور کتّے کی لڑائی ایک صریحاً ظالمانہ اور وحشیانہ فعل ہے، لیکن صدیوں پرانا یہ خونی کھیل آج بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس وحشت ناک کھیل میں ریچھ کو انتہائی تکلیف دہ اور اذیّت ناک صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے، کیوں کہ اسے زنجیروں سے جکڑ کر ایک کھمبے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور پھر اس پر خوں خوار کتّے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ریچھ اور کتّے کی لڑائی کے اس ہول ناک تماشے کا آغاز سولہویں صدی میں بر طانیہ سے ہوا اور یہ تقریباً تین سو برس تک خاصا مقبول رہا۔
انگریز بادشاہوں اور ملکائوں کی تفریحِ طبع کے لیے خصوصی طور پر اس لڑائی کا اہتمام کیا جاتا اور اس مقصد کے لیے دیگر ممالک کے دُور دراز جنگلات سے انواع و اقسام کے ریچھ لائے جاتے ، جنہیں پھر خصوصی تربیت دے کر خونی اکھاڑوں میں اُتارا جاتا۔ 19ویں صدی کے وسط تک برطانیہ میں اس درندگی کا تماشا کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ 1835ء میں اُس وقت منقطع ہوا کہ جب برطانوی پارلیمنٹ نے انسدادِ بے رحمی ٔحیوانات کا بِل منظور کر کے ان خونی مقابلوں پر مکمل پابندی عاید کر دی اور کچھ عرصے بعد برطانوی شہنشاہ نے بھی ایک شاہی فرمان کے ذریعے اس پابندی کی توثیق کر دی۔
برطانیہ کی نو آبادی ہونے کے سبب برِصغیر میں بھی اس خونی کھیل کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے اور آج بھی پاکستان میں بالخصوص سندھ اور پنجاب کے بعض بااثروڈیرے اور جاگیرداراپنے شوق کے تسکین کی خاطر اور خانہ بدوش قبائل اپنی روٹی روزی کے لیے ریچھ اور کتے کی لڑائی کے مقابلے منعقد کرواتے ہیں۔
ہر چند کہ حکومت کی جانب سے اس وحشیانہ کھیل کی بیخ کَنی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے باعث گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ان خونی مقابلوں میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے، لیکن آج بھی گاہے گاہے ان کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
یوں تو ریچھ اور کتّے کی لڑائی ہی سراسر بے رحمانہ اور وحشیانہ عمل ہے، کیوں کہ اس دوران دونوں جانور لہو لہان ہو جاتے ہیں، تاہم اس ہول ناک کھیل کے لیے ریچھ کے بچّوں کو پکڑنے سے لے کر اُن کی تجارت، نقل و حمل اور تربیت تک کے تمام مراحل بھی انتہائی دردناک ہیں۔ ریچھ کے بچّے کو پکڑنے کے لیے شکاری پہلے اس کی ماں کی جان لیتے ہیں اور پھر بچّے کو نکیل ڈالنے کے لیے اس کی ناک میں لوہے کی گرم سلاخ سے سوراخ کرتے ہیں۔ اُس کے بعداُسے بے ضرر بنانے کے لیے اس کے ناخن اور دانت بھی نکال دیے جاتے ہیں۔
نیز، سدھانے کے لیے ساری ساری رات لوہے کی گرم پلیٹ پر کھڑا کیا جاتا ہے۔ ریچھ کی اس ’’خصوصی تربیت‘‘ کے بعد اسے کتوں سے لڑائی کے لیے اکھاڑے میں اُتارا جاتا ہے۔ لڑائی کے دوران ریچھ کو کسی کھمبے سے باندھ دیا جاتا ہے اور اس پر دو خوں خوار کتّے چھوڑ دیے جاتے ہیں، جو اپنے تیز دھار اور نو کیلے دانتوں سے ریچھ کی تھوتھنی پرپے درپے حملے کرتے ہیں۔
تین منٹ دورانیے پر مشتمل کھیل کے پہلے راؤنڈ میں ریچھ پر چھوڑے جانے والے ان خون خوار کتوں کو اسے بھنبوڑنے اور کاٹنے کی پوری آزادی حاصل ہوتی ہے، پھر اُنہیں سستانے کے لیے چند منٹس کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ دوسرے راؤنڈ میں کتے تازہ دم ہو کر ایک مرتبہ پھر ریچھ پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس دوران ریچھ لہو لہان ہو جاتا ہے اور اس کے زخموں سے بہنے والا خون اکھاڑے کی مٹی میں جذب ہوتا رہتا ہے، جب کہ کبھی کبھار اس خوف ناک اور وحشت ناک کھیل میں کتّے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اس کھیل میں ریچھوں کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ سلوک کے خلاف جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دینے والی مقامی اور غیر مُلکی تنظیمیں اکثرو بیش تر آواز اُٹھاتی رہتی ہیں اور اس ظالمانہ تماشے کی روک تھام کے لیے محکمۂ تحفّظِ جنگلی حیات و پارکس، پنجاب پوری تن دہی سے سرگرمِ عمل ہے۔ تاہم، پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں اکثر وڈیرے اور جاگیردار یہ خونی کھیل دیکھنے کے شوقین ہیں اور انہوں نے اس مقصد کے لیے خوں خوار شکاری کتّے پال رکھے ہیں۔
یہ وڈیرے اور جاگیردار خانہ بدوشوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر خفیہ طور پر اس خونی کھیل کے مقابلے منعقد کرواتے ہیں اور ان کے سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر علاقائی و مقامی انتظامیہ انہیں رکوانے میں کام یاب نہیں ہو پاتی۔
تاہم، محکمے کی کاوشوں اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جدوجہد کے سبب قبل از وقت علم ہونے پر متعلقہ ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر کے تعاون سے اس گھنائونے تماشے کا انعقاد روک دیا جاتا ہے۔ پنجاب میں ریچھ اور کتّے کی لڑائی کے بے رحمانہ مقابلے عموماً جھنگ، لیہّ، ڈیرہ غازی خان، مظفّر گڑھ، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کمالیہ، ساہی وال، خوشاب اور سرگودھا میں منعقد کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوںریچھ اور کتّے کی لڑائی کے حوالے سے ایک خبر سوشل میڈیا کے ذریعے محکمے کے علم میں آئی، جس پر سینئر صوبائی وزیر، مریم اورنگ زیب کی جانب سے اس گھنائونے کھیل کی مکمل بیخ کَنی اور صوبے بَھر میں جنگلی حیات کے تحفّظ و فروغ کے لیے کومبنگ آپریشن شروع کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں اور سیکریٹری جنگلات، جنگلی حیات وماہی پروری پنجاب، مدثر وحید ملک کی خصوصی ہدایت اور ڈائریکٹر جنرل جنگلی حیات وپارکس، پنجاب مدثر ریاض ملک کی زیرِ نگرانی محکمے نے صوبے بَھر میں بڑے پیمانے پر کومبنگ آپر یشن شروع کیا، جس کے نتیجے میں اب تک ایک درجن کے لگ بھگ کالے ریچھ خانہ بدوشوں سے برآمد کر کے مختلف بحالی مراکز اور چڑیا گھروں میں منتقل کیے جا چُکے ہیں۔
علاوہ ازیں، درجنوں دیگر جنگلی جانوروں اور پرندوں کو بھی غیر قانونی قابضین سے برآمد کر کے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے اور ڈائریکٹر جنرل، جنگلی حیات روزانہ کی بنیاد پر جاری اس آپریشن اور ریسکیو عمل کی مانیٹرنگ بھی کر رہے ہیں۔ تاہم، ضرورت اس اَمر کی ہے کہ عوام بھی اس ظالمانہ کھیل کے مکمل تدارک کے لیے اپنے گردونواح میں ہونے والی کسی بھی ایسی سرگرمی کی صُورت میں بِلا تاخیر محکمۂ جنگلی حیات کے مقامی عملے کو مطلع کریں۔