• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مردم شماری پاکستان میں ایک انتہائی چیلنجنگ اور متازع امر رہا ہے۔ آخری مرتبہ مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی، اس وقت سے کئی مواقع پر ملک میں چھٹی مرتبہ مردم شماری کی کوششیں ہوئیں لیکن یہ تیاریاں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔ جب ایک قوم درست طور پر اپنے نفوس کی تعداد گننے سے قاصر ہوتی ہے تو سیاسی، معاشی، عمرانی اور ترقیاتی اعتبار سے اس کے اہم نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ تین طرح کے سوالات سے قومی اہمیت کے حامل اس انتہائی اہم معاملے پر روشنی ڈالنے میں مدد ملے گی۔ مردم شماری کا انعقاد اتنا مشکل کیوں رہاہے؟ اور اس کے عدم انعقاد کی کیا سیاسی قیمت چکانی پڑی ہے؟ اور ترقیاتی منصوبوں کی منصبوبہ بندی اور وسائل مختص کرنے کے حوالے سے اس کا کیا کردار ہے؟ اول، مردم شماری کے انعقاد کی راہ میں چیلنج اور اس بابت ہونے والی سیاست ہے، مردم شماری کے انعقاد کی توقع ہر دس برس میں ایک مرتبہ تھی جوکہ 1951،1961،1972 اور 1982 میں ہوئی۔ واضح رہے کہ 1971 کی جنگ کی وجہ سے اُس سال ہونے والی مردم شماری میں ایک برس کی تاخیر ہوئی، پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد چار دہائیوں تک باقاعدگی کے ساتھ مردم شماری ہوئی۔
1991ء میں ہونے والی مردم شماری خانہ شماری کے غلط اعدادوشمار جمع کئے جانے کے باعث التواء کا شکار ہوئی۔ اعدادوشمار کی درستی پر صوبوں کا عدم اتفاق اس معاملے کی متنازع سیاسی نوعیت کی عکاسی ہے۔ مردم شماری کے اعدادوشمار کی بنیاد پر صوبوں میں قومی وسائل کی تقسیم کے ذریعے ان کا حصہ طے کیا جاتا ہے اور متنازع اعدادوشمار لازمی طور پر اختلاف کی جانب لے جاتے ہیں۔ 17 برس تک یہ اختلاف مردم شماری کی راہ میں حائل رہا، بالآخر مارچ 1998ء میں ن لیگ کی حکومت نے پانچویں مرتبہ مردم شماری کرائی ، اس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے اس کام کیلئے سخت محنت کی تھی۔ 1998ء کی مردم شماری کی رپورٹوں کے مطابق اس عمل میں فوج کے شامل ہونے کی وجہ سے صوبوں کے خدشات کو تقویت ملی۔ فوجی اہلکاروں کے مردم شماری میں شامل ہونے کی وجہ تحفظ یقینی بنانا نہیں بلکہ شمار کنندگان کی معاونت اور اس عمل میں صداقت کو یقینی بنانا تھا۔ 16 سال گزرجانے کے بعد اب تک کوئی مردم شماری نہیں ہوئی،2006ء میں اس سلسلے میں کوشش کی گئی تاہم فوج کی عدم دستیابی کے باعث یہ عمل نہ ہو سکا، 2010ء میں سیلاب اس کی راہ میں حائل ہو گئے، 2011ء میں بھی اس کام کو کرنے کا فیصلہ گیا کیا تھا لیکن کچھ ایسی پیشرفتیں ہوئیں جنہوں نے1990 کی دہائی کی یادیں تازہ کر دیں ۔مارچ 2011ء میں آئندہ برس ہونے والی مردم شماری کیلئے پیشگی اقدام کے طور پر خانہ شماری کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت مردم شماری کے فیصلے کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل(سی سی آئی) سے لی جانی ہے۔ جب خانہ شماری کے نتائج سی سی آئی کے سامنے پیش کئے گئے تو بنیادی طور پر سندھ اور بلوچستان کے اعدادوشمار پر تنازع نے جنم لیا جو کہ گنتی کی صداقت کے حوالے سے تھا، جس پر سی سی آئی نے مردم شماری کا فیصلہ ملتوی کردیا۔ بعدازاں پریس میں یہ بات افشا ہوئی کہ ان اعدادوشمار میں کچھ غلطیاں اختلافات کا باعث بنیں، خانہ شماری کے مطابق آبادی کا تخمینہ 19کروڑ 20 لاکھ تھا جبکہ غیرجانبدار تنظیموں کی جانب سے اس حوالے سے پیش کیا جانے والا تخمینہ 17کروڑ50 لاکھ تھا۔ بنیادی طور پر سندھ اور بلوچستان کے اعدادوشمار میں تضادات پائے گئے تھے۔
خانہ شماری کے مطابق سندھ کی آبادی کا تخمینہ 5کروڑ50لاکھ تھا جبکہ اس کے مطابق نقل مکانی جیسے تغیر پذیری کے حامل محرک کے تحت سالانہ اضافے کو مدنظر رکھ کر آبادی کا تخمینہ تقریباً4کروڑ20 لاکھ لگایا گیا۔ اس تخمینے میں 1.3 کروڑ نفوس کے فرق نے ان اعدادوشمار کو ناقابل یقین بنادیا۔ بلوچستان کے اعدادوشمار میں بھی اسی قسم کے تضادات کا انکشاف ہوا۔ جو کچھ ہورہا تھا وہ واضح تھا، جس میں کراچی و کوئٹہ کے مخالف نسلی گروہ وسائل کے زائد حصول کی مسابقت میں دست و گریباں تھے، وسائل کے حصے کو بڑھوانے میں ایک بہتر طور پر منظم گروہ نے اپنی برادری کو اپنے اہل خانہ کی تعداد زیادہ ظاہر کرنے کے حوالے سےحوصلہ افزائی کی۔ جس کے نتیجے میں صوبائی سطح پر آبادی کے اعدادوشمار میں اضافہ ہوا، زمینی حقائق کے برعکس بڑھتی ہوئی آبادی کے تخمینے نے ان اعدادوشمار کو مشتبہ بنادیا۔ 2011ء میں ہونے والی خانہ شماری میں لسانی گروہوں کے مابین طاقت اور وسائل کی مسابقت بن گئی اور اتنی شدت اختیار کر گئی کہ کراچی میں 2 سرکاری شمار کنندگان کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ 2 زخمی ہوئے، جس کے بعد مردم شماری کے عملے کی سیکورٹی ایک اور مسئلے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ایک ایسے وقت میں جبکہ قومی سطح پر پولیو کی مہم پرتشدد کارروائیوں کی نذر ہوکر باربار ملتوی ہوئی، مردم شماری کے انعقاد کی راہ میں حائل مشکلات کئی چند ہوگئیں۔ دریں اثناء مردم شماری کے عدم انعقاد کے نقصانات عیاں ہیں، جن میں پہلا سیاسی ہے، نئی مردم شماری کے عدم انعقاد کی صورت میں قومی اور صوبائی حلقوں کی حلقہ بندیاں 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہیں، جس میں نئے ضلعوں اور تحصیلوں کو شامل کرنے کیلئے حلقوں کی حدود میں معمولی ردوبدل کیا گیا ہے۔ اس لئے انتخابی حلقہ بندیاں آج کے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتیں، دیہی علاقوں کو زیادہ جبکہ شہری علاقوں کو کم نمائندگی حاصل ہے کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک میں شہری آبادی میں زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ دیہی علاقوں سے عوام کی شہروں کی جانب ہجرت ہے۔ ہمارے ملک کی شہری آبادی جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے، شماریات کے اعلیٰ افسر نے مجھے بتایاکہ محض ’شہری آبادی‘ کی تعریف میں ردوبدل پاکستان کو شہری آبادی کی اکثریت والا ملک دکھائے گا۔ 2002ء میں پارلیمانی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا لیکن انتخابی حلقہ بندیاں 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر مرتب کردہ ہیں۔ متروکہ آبادیاتی اعدادوشمار سیاسی جمود کے تسلسل کا موجب ہے اور ساتھ ہی مختلف سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچاکر کچھ سیاسی جماعتوں کو فائدہ ملنے کی بھی وجہ بنتا ہے۔ یہ امر جمہوریت کی بنیادی نمائندگی کو زک پہنچاتا ہے، انتخابی حلقوں کی حلقہ بندیوں میں آج کی صورتحال کی عکاسی ہونی چاہئے، نہ کہ ماضی کی۔ اس وجہ سے الیکشن کمیشن حکومت پاکستان پر مردم شماری کا حکم دینے کیلئے زور دینے میں سب سے آگے رہا ہے، جیسا کہ حال ہی میں پریس میں ایک رپورٹ سامنے آئی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے وزیراعظم کو ایک سمری ارسال کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت نئی حلقہ بندیوں کیلئے نئی مردم شماری ضروری ہے جوکہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ہونی چاہئے۔ یہی درخواست سابق چیف الیکشن کمشنر نے مئی 2013ء کے انتخابات سے قبل کی تھی، جس پر کان نہیں دھرے گئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دیا جانے والا یہ پیغام اور اس کے ساتھ 2011ء میں بین الصوبائی رابطہ ڈویژن سے مردم شماری کیلئے زور دیا گیا، مردم شماری کو سی سی آئی کے ایجنڈے میں شامل کرلیا گیا جس کا اجلاس 10 فروری کو ہونا تھا لیکن بدقسمتی سے اس اہم مسئلے کو نہیں اٹھایا گیا، شاید اس کی وجہ صوبوں کے مابین اختلافات کے طول پکڑلینے کا خدشہ ہو لیکن پھر بھی مردم شماری کا مسئلہ سی سی آئی کے ایجنڈے میں شامل رہا۔پرانے آبادیاتی اعدادوشمار کے استعمال کے نقصانات سیاسی نتائج سے کم اہم نہیں ہیں۔ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا دارومدار آبادی کے درست اعدادوشمار پر ہوتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں اس وقت ردوبدل کیا جاتا ہے جبکہ اعدادوشمار تازہ نہ ہوں یا تخمینوں کی بنیاد پر ہوں جوکہ موجودہ صورتحال میں ہے۔ تعلیم اور صحت عامہ کی خدمات اس وقت تک درست طور پر عوامی ضروریات کی عکاسی نہیں کرتیں اگر منصوبہ بندی تخمینوں کی بنیاد پر ہو، جن میں مثال کے طور پر نقل مکانی کے اعدادوشمار، آبادی کی منتقلی کی معلومات، عمر اور جنس کے اعدادوشمار نہیں ہوتے۔
مردم شماری عوام کی گنتی سے زیادہ ایک اہم کام کرتی ہے، یہ اہم سماجی اور معاشی عوامل کی نشاندہی کرتی ہے جس میں آبادی میں اضافے کی شرح اور اس کا پھیلاؤ، دیہی اور شہری آبادی کی تقسیم، عمر کا ڈھانچہ، شرح خواندگی، تعلیم کا حصول، ملازمت، ہجرت اور صحت عامہ کی سہولتوں کی نشاندہی۔ یہ تمام عوامل ترقیاتی منصوبہ بندی، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور صحت اور تعلیم کیلئے وسائل مختص کرنے کیلئے اہم ہیں، آج صوبائی تعلیم کے صوبائی محکمے اہم مصرفی فیصلوں کیلئے مبہم اعدادوشمار استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور پھر قومی وسائل میں سے صوبوں کے حصوں کی تقسیم کا اہم ترین مسئلہ بھی ہے، قومی اقتصادی کمیشن (این ایف سی) کا گزشتہ ایوارڈ 1998ء کے اعدادوشمار کی بنیاد پردیا گیا حالانکہ اس کی وجہ سے وسائل کی تقسیم میں آبادی کی بنیاد کے محرک کے وزن کو کم کردیا گیا تاہم آبادی 82 فیصد کے ساتھ وسائل کی تقسیم میں سب سے بڑا محرک رہا۔ اس کی وجہ وسائل کی تقسیم کا فیصلہ آبادی کے موجودہ اعدادوشمار کی بنیاد پر کرنا بے حد ضروری ہوگیا، جوکہ صرف مردم شماری سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ وہ تنازعات جن کی وجہ سے مردم شماری متعدد مرتبہ التواء کا شکار ہوئی ان کا تعلق صوبوں کی جانب سے قومی وسائل میں سے حصے کا دعویٰ کرنے اور صوبوں میں اندرونی سطح پر لسانی جھگڑے ہیں لیکن مردم شماری کو خاص طور پر ان تنازعات کی نذر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہوتی ہے اور عوامی ضروریات کے مطابق منصوبے کیلئے وسائل مختص کئے جاتے ہیں۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ نادرا کے پاس عوام کی ذاتی معلومات اور شہریوں کی شناخت کے اعدادوشمار جمع کرنے کیلئے کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن اعدادوشمار جمع کرنے کی بنیادی مشق نہیں کی جا سکتی۔
تازہ ترین