• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیادہ دن نہیں گزرے راقم کو چین پاکستان اکنامک کاریڈور پر ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ مقررین خاصے باخبر اور پڑھے لکھے دکھائی دیتے تھے مگر ایک تاریخی مغالطے کا ذکر تسلسل کے ساتھ ہو رہا تھا۔ ہر ایک سلطنت اومان سے گوادر کی خریداری کا کریڈٹ ایوب خان کو دے رہا تھا اور اسے ان کے ایک بڑے کارنامے کے طور پر یاد کیا جا رہا تھا۔ یہ بیانیہ میں کوئی پہلی بار نہیں سن رہا تھا، بہت سی کتابوں اور اخباری مضامین میں اس کا ذکر ہوتا آیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گوادر کی خرید اری اور پاکستان میں شمولیت کا ایوب خان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کارنامہ متحدہ پاکستان کے آخری وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے انجام دیا تھا اور جس کا اعلان موصوف نے بہ نفس نفیس ایوب خان کے مارشل لاء سے مہینہ بھر قبل 7؍ستمبر 1958کو ریڈیو پاکستان پر اپنے خصوصی خطاب میں کیا تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے گوادر کا پس منظر جان لیجئے۔ تاریخی طور پر گوادر، بلوچستان کی ریاست قلات کا حصّہ رہا ہے۔ 1784میں اومان کے امیر سعید بن احمد کی اپنے بھائی سلطان بن احمد سے ان بن ہو گئی اور موخرالذکر جان بچانے کیلئے قلات کی جانب آ نکلا۔ جہاں والیٔ قلات میر محمد نصیر خان اوّل نے غریب الوطن شہزادے کی خوب آئو بھگت کی اور گزارے کیلئے مکران کے ساحل پر 2400مربع میل پر مشتمل گوادر کا علاقہ سونپ دیا۔ سلطان بن احمد تیرہ برس تک گوادر میں پناہ گزین رہا پھر 1797میں وطن لوٹا اور بھائی کو اقتدار سے الگ کر کے ریاست اومان کی قیادت سنبھال لی، تاہم گوادر کا علاقہ والیٔ قلات کو واپس کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھا جہاں کا نظام چلانے کیلئے گورنر اومان سے آتا تھا۔ پاکستان بنا تو اس وقت بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔ آزادی کے بعد بلوچستان کی ریاستیں خاران، مکران، لسبیلہ اور قلات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا تو گوادر کے لوگوں کو احساس ہوا کہ وہ تو آزاد ہونے سے رہ گئے، ان کے حکمراں تو ابھی تک سمندر پار سے آ رہے ہیں۔
پنجاب کے معروف زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے ملک فیروز خان نون برطانیہ کے پڑھے ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل وائسرائے کی کونسل کے رکن رہے اور 1945میں لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر مقرر ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ گوادر سے متعلق کاغذات اتفاقیہ طور پر ان کے نوٹس میں اسی زمانہ میں آئے تھے۔ آزادی کے بعد 1956میں پاکستان کے وزیر خارجہ مقرر ہوئے تو گوادر فائل کا عمیق مطالعہ کیا۔ اگلے ہی برس وزیراعظم بن گئے تو بقول کسے ’’ابھی یا کبھی نہیں‘‘ Now or Neverوالا معاملہ تھا۔ اعلیٰ برطانوی قیادت کے ساتھ ذاتی مراسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موصوف نے معاملے کو فاسٹ ٹریک پر ڈال دیا۔ پاکستان کامن ویلتھ کا رکن تھا اور وزیراعظم نون برطانوی ہم منصب میکملن کے ساتھ ہائی کمشنری کے زمانے سے ہی خاصے بے تکلف تھے۔ چنانچہ انہیں اعتماد میں لے کر معاملے کو آگے بڑھایا۔ اومان کے سلطان سعید بن تیمور نے حامی تو بھر لی مگر 2400مربع میل کا علاقہ طشتری میں رکھ کر پاکستان کو دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ سودے بازی کا عندیہ دیا جا رہا تھا۔ پاکستان نے لاکھ اصرار کیا کہ جب گوادر خریدا ہی نہیں گیا تو واپسی کیلئے رقم کا مطالبہ چہ معنی دارد؟ الغرض چھ ماہ کے طوفانی مذاکرات کے بعد تین ملین ڈالر پر سودا ہو گیا۔ تکنیکی طور پر اس ڈیل کو تحفہ کا نام دیا گیا یعنی اومان نے گوادر ’’تحفتاً‘‘ پاکستان کے سپرد کر دیا۔ مذکورہ رقم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سر آغا خان نے ادا کی تھی۔
گوادر کے حوالے سے سیاسی قیادت کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ ابتدائی مذاکرات کے ساتھ ہی علاقےکے سروے کیلئے امریکی جیالوجیکل سروے کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کیا اور اس کام کیلئے معروف زمانہ سرویئر ورتھ کانڈرک کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے مہینوں کی محنت شاقہ کے بعد رپورٹ دی کہ ہتھوڑے سے مشابہ خاکنائے ایک جدید اور گہرے پانی کی بندرگاہ کیلئے آئیڈیل لوکیشن ہے۔ امریکی سروے ٹیم کی اس رپورٹ کا جائزہ جرمنی اور اٹلی کے ماہرین نے بھی لیا اور ایک صبر آزما اسٹڈی کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ گوادر کا پوٹینشل کراچی سمیت خطّے کی تمام بندرگاہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ گوادر کی واپسی کے حوالے سے ریڈیو پاکستان پر اپنی تقریر میں وزیراعظم فیروز خان نون نے کہا تھا: ’’گوادر پاکستان کی خیرخواہی Goodwill اور تعاون کی پالیسی کا پہلا ثمر ہے۔ مجھے پختہ امید ہے اور اس کیلئے دعاگو بھی ہوں کہ ہم اپنے دیگر بین الاقوامی تنازعات بھی امن اور معقولیت کے ساتھ طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘ بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ گوادر آبرو مندانہ طریقے سے طے پانے والا شاید ابھی تک واحد کیس ہے جس سے پاکستان کے رقبے میں 2400مربع میل کا اضافہ ہوا۔ کشمیر سمیت دیگر معاملات میں بدقسمتی سے پیش رفت نہیں ہو پائی اور کشمیر لیتے لیتے مشرقی پاکستان بھی گنوا بیٹھے۔
آج پاکستان بھر میں اکنامک کاریڈور کا شہرہ ہے۔ چین سے نکلنے والی جدید شاہراہیں مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی گوادر تک جائیں گی۔ تیز رفتار ریلوے لنک اس کے علاوہ ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ 46بلین ڈالرز کے خرچ سے تعمیر ہونے والا یہ پروجیکٹ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے جس سے پاکستانیوں کے دلدّر دور ہو جائیں گے اور ان کی زندگیوں میں انقلاب آجائے گا۔ علاقہ معجزانہ طور پر ترقی کرے گا۔ سستی زمین اور ارزاں لیبر کی وجہ سے ہم خطّے کی دیگر بندرگاہوں کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ گوادر پورٹ سے اربوں ڈالر سالانہ کی آمدنی ہی نہیں ہو گی بیس لاکھ کے لگ بھگ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ہم توقع کرتے ہیں اوردعا بھی کہ اللہ کرے سب کچھ ہماری خواہشات کے مطابق ہو البتہ سرکاری حلقوں، میڈیا اور وطن عزیز کے دانش وروں سے یہ درخواست ضرور کروں گا کہ جوش و جشن کی اس کیفیت سے کچھ وقت نکال کر منصوبے کے حقیقی بانیوں اور محسنوں کو بھی کبھی یاد کر لیا کریں جن میں اہم ترین نام شاید متحدہ پاکستان کے آخری وزیراعظم ملک فیروز خان نون کا ہے۔
تازہ ترین