’’ بَھر لو، ٹرالیاں بَھر لو، اچھی طرح بَھر لو، کوئی کسر نہ چھوڑنا۔‘‘ شاپنگ مال کے باہر ایک ساٹھ، پینسٹھ سالہ موٹر سائیکل سوار بزرگوار غصّے میں بولے جا رہے تھے اور لوگ تو تماش بین ہیں، سو، یہ موقع کہاں ہاتھ سے جانے دیتے۔ کئی افراد اُن صاحب کے آس پاس کھڑے ہوکر لقمے دینے لگے’’ہاں ہاں، بالکل بالکل، ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘ ہاتھوں میں شاپر اُٹھائے ایک شخص نے بات کاٹتے ہوئے کہا’’اب چھوڑئیے بھی، عید کا موقع ہے، لوگ خریداری تو کرتے ہیں۔اِس قدر ناراض ہونے کی بَھلا کیا ضرورت ہے۔‘‘
اُس کے بس یہ کہنے کی دیر تھی، ایسا لگا، جیسے کسی نے جلتی پر تیل چھڑک دیا ہو۔بزرگوار، اُس شخص کی طرف تیزی سے مُڑے اور شاپنگ مال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خاصی اونچی آواز میں بولے’’ یہ شاپنگ ہے…؟؟سڑک کی حالت دیکھو، پوری بلاک کردی ہے، موٹر سائیکل تک نہیں گزر سکتی۔ مَیں نے سُنا ہے کہ ولایت میں ایک دن منایا جاتا ہے، جس کے دَوران زیادہ سے زیادہ کھانے کا مقابلہ ہوتا ہے اور ہم نے بھی عیدیں اُسی تہوار کی طرح بنا دی ہیں۔
عید مناؤ، کھانوں کے ساتھ…اللہ ہی ہدایت دے، اِس چٹوری قوم کو۔‘‘لڑائی جھگڑا بے شک اچھی بات نہیں، مگر بڑے میاں کی بات میں وزن ضرور تھا۔ کیا واقعی یہ سچ نہیں کہ اب ہمارے تہوار صرف کھانوں، پکوانوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔
عید الفطر ہو یا عید الاضحیٰ، دونوں ایّام مسلمانوں کی مسرّت و شادمانی کے دن ہیں اور وہ انہیں ایک خاص اہتمام سے مناتے بھی ہیں۔اِن ایّام کی کئی دن قبل تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، نئے کپڑوں، جوتوں اور دیگر اشیاء کی خُوب خریداری ہوتی ہے۔
پھر عید سے چند دن پہلے ہی سے خصوصی پکوانوں کی فہرست تیار ہونے لگتی ہے، جس میں سب کی پسند، ناپسند کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔ عید کی صبح نہا دھو کر، صاف ستھرے کپڑے پہن کر، نمازِ عید کے لیے جاتے ہیں۔ عیدگاہ میں لوگوں سے مصافحہ و معانقہ کرتے ہیں اور گھر آکر بھی سب کو عید کی مبارک باد دی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے ہاں کھانے بھجوائے جاتے ہیں۔
کئی علاقوں میں فاتحہ خوانی کے لیے قبرستان جانے کا بھی رواج ہے، جب کہ عزیز و اقارب سے ملاقات کے لیے جانا بھی عید کی شان دار روایات میں شامل ہے۔ مگر، عام خیال یہی ہے کہ کچھ برسوں سے یہ عیدیں، بہت بدلی بدلی سے نظر آنے لگی ہے۔ اِن تہواروں میں اب سادگی اور اپنائیت کی بجائے ایک دکھاوا سا جَھلکنے لگا ہے۔
عید کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ اِس موقعے پر سب کو اپنی خوشیوں میں شریک کیا جائے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص بس’’ اپنی اپنی عید‘‘ منانے کو ترجیح دیتا ہے۔ پہلے عید کے روز مبارک، سلامت کی آوازیں گونج رہی ہوتیں، رشتے داروں کے ہاں آنا جانا ہوتا، مگر اب یہ کام محض موبائل فون کال یا واٹس ایپ میسیج کے ذریعے نِمٹا دیا جاتا ہے۔
اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ عید پر خاندانوں میں جو اجتماعیت نظر آتی تھی، وہ اب ناپید ہوتی جا رہی ہے کہ ہر گھرانہ، اپنے گھر کی چار دیواری ہی میں عید منانے کو ترجیح دیتا ہے۔ آس پڑوس میں آنا جانا تو بہت دُور کی بات، اب تو اپنے قریبی رشتے داروں میں بھی کم کم ہی جایا جاتا ہے۔ عیدالفطر کی چاند رات میں جو دھماچوکڑی مچتی ہے، وہ کہیں سے بھی اِس تہوار کی رُوح سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اگر عیدین سے ہٹ کر باقی تہواروں کو بھی دیکھیں، تو اُن میں بھی ایک طرح کی بناوٹ اور مصنوعی پن نمایاں ہونے لگا ہے۔12 ربیع الاوّل کی رات جس طرح نوجوان لڑکے موٹر سائیکلز پر اودھم مچاتے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔ اِس صُورتِ حال کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سی موٹر سائیکلز پر خواتین، خاص طور پر نوجوان بچیاں بھی بیٹھی ہوتی ہیں، جو ہراسانی تک کا شکار ہوتی ہیں۔
یہ تو عیدین یا دیگر تہواروں کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا رُخ بھی کم اہم نہیں اور وہ یہ کہ اب عیدین’’ یومِ خوراک‘‘ کے طور پر منائی جانے لگی ہیں۔ اِس میں کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن نعتموں سے نوازا ہے، اُن پر اُس کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے اُنھیں استعمال کیا جائے۔
آج عیدین کا تصوّر ہی تبدیل ہوگیا ہے، تہواروں میں سادگی، اپنائیت کی بجائے نمود و نمائش نمایاں ہے
اچھا کھانا کھانا بھی کوئی عیب کی بات نہیں، مگر اِس معاملے میں اسراف اور سارے معاملات صرف کھانے پینے ہی کے گرد گھومتے رہنا، یہ رویّہ کسی طور عید کی رُوح سے میل نہیں کھاتا۔ بقر عید سے قبل معروف ریسٹورنٹس ہی نہیں، گلی محلّے کے چھوٹے چھوٹے ڈھابے یا کھانے پینے کے ٹھیّے والے بھی طرح طرح کے پکوانوں کے لیے خصوصی پیکیجز کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کا دَور ہے، تو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز’’ عید پکوانوں‘‘ سے متعلق اشتہارات اور اعلانات سے بَھر جاتے ہیں۔
اِن ریسٹورینٹس کی جانب عوامی رجحان کا یہ عالم ہے کہ عید سے کئی روز پہلے بُکنگ کروانی پڑتی ہے۔ ماہِ رمضان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ہماری گفتگو کا بیش تر حصّہ اِسی پر مشتمل ہوتا ہے کہ’’ سحری میں کیا ہوگا‘‘ اور’’افطار میں کس کس چیز کا اہتمام کرنا ہے۔‘‘ بہرکیف، ہم نے اِس ضمن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد سے کچھ بات چیت کی، آئیے، دیکھتے ہیں کہ وہ تہواروں کے بدلتے طور طریقوں سے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔
مولانا طاہر عقیل، پاکستان علماء کاؤنسل، پنجاب کے صدر ہیں۔ اُن کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’ سب سے پہلے تو ہمیں اسلامی تہواروں کا فلسفہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لیے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی صُورت دو عیدوں کا انتخاب کیا گیا اور یہی مسلمانوں کے تہوار ہیں۔ اِن دِنوں کے تعیّن سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خوشی کے دن، دیگر اقوام کے دنوں سے مختلف ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا، تو سابقہ اقوام کے کسی دن کو مسلمانوں کے لیے عید کے طور پر منتخب کیا جاسکتا تھا۔
پھر یہ کہ عید منانا یا خوشی کا اظہار کرنا، دراصل اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں پر شُکریے کا اظہار ہے۔ تاہم، اسلام نے تہواروں پر ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی، جو اخلاقی قدروں کو بہا لے جائے۔ اِن ایّام میں بھی عبادات ہی کو مقدّم رکھا گیا ہے، جیسے ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد عید اور حج کے موقعے پر عید الاضحیٰ۔ نمازِ عید کے اجتماعات، صدقۂ فطر اور قربانی کی ادائی اِن ایّام کی اہم عبادات ہیں۔ دراصل، بندۂ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا۔
نیز، اسلامی تہوار ایک طرف اتحاد ویگانگت کا پیغام دیتے ہیں، تو دوسری طرف، ایثار و قربانی جیسے اعلیٰ انسانی اوصاف کی ترویج کا بھی ذریعہ ہیں۔ اسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ عید کے خوشیوں میں دیگر افراد کو بھی شریک کیا جائے، تاہم بدقسمتی سے اب یہ عظیم الشّان تہوار بھی رسمی بنتے جا رہے ہیں۔
گویا؎حقیقت، خرافات میں کھو گئی…یہ اُمّت روایات میں کھو گئی۔ میٹھی عید ہو یا بقر عید، ہر طرف صرف کھانوں ہی کی بات ہو رہی ہوتی ہے، یہ پکا لیا، یہ کھا لیا۔ اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ کھانا پینا بھی صرف خود ہی تک محدود ہے۔ ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ ہم اپنے پکوانوں میں دیگر افراد کو بھی شریک کرتے ہوں۔
اسلام، عیدین پر خوشی منانے سے ہرگز نہیں روکتا، بلکہ وہ تو خوشی منانے کی تلقین کرتا ہے۔ ایسے کھیل کُود کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس سے کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی کیے بغیر تفریح حاصل کی جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے رزق میں وسعت دی ہے، تو اُس کے مطابق کھانے پینے یا کپڑوں، جوتوں پر خرچ کی کوئی ممانعت نہیں۔ البتہ، بنیادی بات یہ ہے کہ اِس ضمن میں اسراف، دکھاوے اور رزق کے زیاں وغیرہ سے ہر صُورت بچا جائے۔‘‘
رضیہ سلطانہ ایک خاتونِ خانہ اور شاعرہ ہیں۔ وہ مذہبی، ملّی اور تہذیبی روایات بُھلائے جانے پر افسردہ ہیں۔ تہواروں کے بدلتے انداز سے متعلق اُن کی رائے ہے کہ’’ یہ بات بالکل درست ہے کہ اب تہوار محض’’رسم‘‘ بن کے رہ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے، جیسے اپنی دولت کی نمائش کا کوئی مقابلہ ہو رہا ہے۔ ہم جب چھوٹے تھے، تو ہمارے گھر والے چاند رات پر بھی ہم سے عبادت کرواتے تھے۔جب وہ عید کی نماز کے لیے جاتے، تو ہمیں بھی کہتے جاتے کہ’’ تم بھی دو رکعت نماز پڑھ لینا۔‘‘
اب عبادات کا ماحول کم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ شاپنگ نے لے لی ہے۔ بقر عید پر جانوروں کی خریداری کا مقابلہ ہوتا ہے اور لوگ اِس ضمن میں جھوٹ بولنے سے بھی نہیں شرماتے، بلکہ اپنے جانور کی قیمت خُوب بڑھا چڑھا کربتاتے ہیں تاکہ دوسروں پر اُن کی امارت کا رُعب پڑے۔ عام طور پر خواتین سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ عیدین پر بہت زیادہ خریداری کرتی ہیں، یہ بات غلط بھی نہیں ہے، مگر یہ بھی دیکھیں کہ اُن کے عید ایّام تو کچن ہی کی نذر ہو جاتے ہیں۔
گھر کے مَردوں کو تو عید پر تینوں وقت بہترین پکوان ملنے چاہئیں اور بس۔ پھر عصر کی چائے کے ساتھ بھی کباب وغیرہ ضرور ہوں۔ ہمارے گھروں میں بہو، بیٹیاں عید پر کچن ہی کی ہوکر رہ جاتی ہیں اور اُن کا زیادہ وقت یہی سوچتے گزرتا ہے کہ اگلے وقت کے کھانے میں کیا بنائیں، جب کہ وہ خود بہت معمولی کھانا کھاتی ہیں،کیوں کہ بیش تر خواتین گوشت کم ہی کھاتی ہیں۔
اگر گھر میں خانسا ماں وغیرہ ہو، تب بھی گھر کی خواتین کے کام کم نہیں ہوتے۔ مَیں تو یہی کہوں گی کہ عیدین کو’’ فوڈ فیسٹیول‘‘ بنانے میں مَردوں کا زیادہ ہاتھ ہے اور اگر وہ اپنے زبان کے چٹخارے کو کچھ کم کرلیں، تو یہ خواتین پر احسان ہوگا کہ وہ بھی ڈھنگ سے عید مناسکیں گی۔‘‘
ڈاکٹر عامر طاسین صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنّف، ماہرِ تعلیم اور مجلسِ علمی فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔ اسلامی تہواروں کی حقیقی رُوح اور اُن کی مصلحت سے متعلق اُن کا کہنا ہے کہ’’ عیدین کے تہوار بلاشبہ دینی عقیدت کا ایک خُوب صُورت مظہر ہیں۔ خوشیوں کے اِن تہواروں میں عزیز و اقارب، دوست احباب اور پڑوسیوں کو شامل کرنا، گویا خاندانی رشتوں اور سماجی روابط کو مضبوط کرنا ہے، لیکن آج بد قسمتی سے محض دِکھاوے اور مقابلوں کا مزاج اُبھرتا جارہا ہے۔
عید الاضحیٰ کے موقعے ہی پر دیکھ لیجیے، جانوروں کی خریداری سے لے کر مختلف اقسام کی دعوتوں کے اہتمام میں نام و نمود نمایاں ہے، حالاں کہ عید الاضحیٰ میں قربانی کا عظیم مقصد، وہ جذبۂ ایثار پیدا کرنا ہے، جس کے سبب پورے سال مستحق رشتے داروں اور غربا کے ساتھ زندگی کے دیگر امور میں بے لوث مالی تعاون اور خیر خواہی انجام دی جاسکے۔دِکھاوا اور اسراف، یہ دو ایسے روحانی اور سماجی امراض ہیں، جنہوں نے اسلامی تہواروں کا اصل پیغام دُھندلا دیا ہے۔
پھر یہ کہ جذبۂ ایثار جو اِن تہواروں کی بنیاد ہے، وہ بھی مفقود ہوتا جار ہا ہے۔ عیدین پر ہوٹلز، ریسٹورینٹس بَھرے ہوتے ہیں اور گھروں میں بھی دستر خوانوں کا دامن پکوانوں کی کثرت سے تنگ پڑ جاتا ہے، مگر ہم میں سے کتنے ہیں، جو اِن کھانوں میں ناداروں، ضرورت مندوں کو بھی شامل کرتے ہیں۔ شاید یہ بات قدرے تلخ ہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم عید پر گھر کی ماسیوں تک کو اِن اچھے کھانوں میں شریک نہیں کرتے۔‘‘
عبدالغفور کھتری’’ کراچی کی کہانی، تاریخ کی زبانی‘‘ جیسی ضخیم کتاب کے مصنّف ہیں اور اُنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بہت سی اقدار و روایات بدلتی دیکھی ہیں۔’’ کیا ہمارے تہوار صرف پکوانوں، کھانے پینے ہی تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں؟‘‘ اِس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا ہے کہ’’ بالکل ایسا ہی ہے۔ عید کے موقعے پر گھروں میں صرف یہی بات ہو رہی ہوتی ہے کہ’’ کھانے میں کیا کیا ہوگا؟‘‘ اور یہ کہ’’ فلاں فلاں مسالے آگئے یا نہیں۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ پہلے عیدین پر کھایا پیا نہیں جاتا تھا، پہلے بھی دستر خوان سجتے تھے، مگر سارا سارا دن دسترخوان ہی نہیں بِچھے رہتے تھے اور نہ خواتین’’باورچنیں‘‘ بنی رہتی تھیں۔ ماضی کی عیدوں میں زیادہ توجّہ میل ملاقاتوں پر ہوتی تھی اور کثرت سے ایک دوسرے کے ہاں جایا جاتا تھا، جس کا رواج اب کم ہوگیا ہے، کیوں کہ عورتوں کو تو گھر کے کام کاج ہی سے فرصت نہیں ملتی اور مرد عید کے دنوں میں گھروں میں پڑے کھاتے، پیتے رہتے ہیں’’ اب یہ لے آو، اب یہ بنا دو۔‘‘
اطہر اقبال بچّوں کے معروف ادیب ہیں اور اِن کی کئی کتب مختلف قومی ایوارڈز جیت چُکی ہیں۔ اُن کی نوجوان نسل کے بدلتے رجحانات پر گہری نظر ہے۔ اُنھوں نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ’’ یہ سچ ہے کہ تہوار ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جُل کر رہنے اورخوشیاں بانٹنے کا پیغام دیتے ہیں، مگر یہ کہ’’ کیا تہوار اب صرف کھانے پینے ہی کی حد تک رہ گئے ہیں‘‘، اِس پر مختلف آرا ہوسکتی ہیں۔
میرے نزدیک، تہوار پر کھانوں کی اہمیت تو ہے، مگر ثانوی، حقیقت میں تو تہوار ایک دوسرے سے ملنے جُلنے، اختلافات بُھلا کر ایک دوسرے کے قریب آنے اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا سبب ہیں۔ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تہوار، جہاں ایک جانب سماجی رشتوں کو فروغ دیتے ہیں، وہیں دولت اور وسائل کی تقسیم کا بھی باعث بنتے ہیں۔
اب چوں کہ تہواروں پر لوگ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں، تو بَھلا گھر آئے مہمانوں کو بغیر مہمان نوازی کے کون بھیجتا ہے، لہٰذا اُن کے لیے کھانے پینے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ یوں تہوار پر کھانے پینے کی حیثیت ثانوی سی رہ جاتی ہے، اصل اہمیت تو ایک دوجے سے میل ملاپ اور آپس کی نفرتوں کو مِٹانے کی ہے۔
جو لوگ کئی ماہ تک ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرپاتے، یہ تہوار ہی تو ہیں، جو اُنھیں میل جول کا موقع فراہم کرتے ہیں اور شاید اِسی لیے قمر بدایونی نے بھی کہا تھا کہ؎عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم …رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔‘‘
لائبہ اعوان، مقامی یونی ورسٹی میں بی ایس انگلش کی طالبہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ دیکھا جائے، تو اب عید کھانے، پینے کا تہوار بھی کہاں رہا، کیوں کہ منہگائی نے لوگوں سے اچھے کھانے چھین لیے ہیں۔ البتہ، صاحبانِ ثروت کے لیے یہ تہوار ضرور’’ فوڈ میلہ‘‘ ہیں۔ وہ اِتنا کچھ پکا لیتے ہیں کہ پھر بچا ہوا کھانا کچرے میں پھینکنا پڑتا ہے۔
مال دار افراد کی جانب سے دکھاوے کی روش جہاں عام افراد میں احساسِ محرومی یا احساسِ کم تری کا سبب ہے، وہیں وہ بھی اُن کی نقل میں ریسٹورینٹس کا رُخ کرتے ہیں تاکہ سوسائٹی میں عزّت بن سکے، مگر اِس عمل سے اُن کا مالی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔‘‘
طارق جمیل، بین الاقوامی تعلقات کے طالبِ علم ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ’’عید بھی گلیمرائز ہو چُکی ہے اور اِس میں سب سے بڑا ہاتھ میڈیا کا ہے۔ عید سے پہلے یا عید کے دنوں میں جتنے بھی پروگرامز نشر ہوتے ہیں، اُن میں کھانا پینا ہی دِکھایا جاتا ہے یا پھر ناچ گانا۔ گویا، ذہنوں میں یہی بِٹھا دیا گیا ہے کہ عید صرف اِنہی دو باتوں کا نام ہے۔‘‘