اس دُنیا میں ہر کام کا ایک متعیّن ، طے شُدہ وقت ہے۔ یعنی جو کام جس وقت ہونا ہے، اُس سے ایک لمحہ بھی پہلے یا بعد میں نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہر مسئلہ جلد یا بہ دیر حل ہو ہی جاتا ہے۔ آگ پر پانی ڈال کر اُسے ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ بڑی سے بڑی مشکلات دُور اور آزمائشیں ختم ہو کر رہتی ہیں۔
گنجایش نکل ہی آتی ہے اور تلخ لہجے، شیریں بھی ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے لیے صبر کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے، صبرو تحمّل ایک ایسا ہتھیار ہے ، جس سے طوفانوں کا رُخ موڑا اور گمبھیر سے گمبھیر مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ نیز، یہی صبر حقیقت آشکار کرتا اور انسان کی شخصیت بھی نکھارتا ہے۔
واضح رہے کہ ہماری زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور ہم نے مدّتِ حیات پوری کرنے کے بعد اسے ایک خُوب صُورت، نفیس اور پاک رُوح کی شکل میں اپنے خالق و مالک کو واپس کرنا ہے اور ایسا تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم اپنے اندر صبر و برداشت کا مادّہ پیدا کریں۔
بِلاشُبہ ہمیں بعض رویّے اور طرزِ عمل وراثت میں ملتے ہیں، لیکن اگر یہ رویّے منفی ہوں، تو باشعور ہوتے ہی انہیں اپنی زندگی سے نکال باہر کرنا چاہیے، بہ صورتِ دیگر یہ ہماری اگلی نسلوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ عادات اور رویّے معاشرے سے بھی ہماری زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ انسان کے ہر طرزِ عمل ہی سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ اُس کی تربیت کن خطوط پر کی گئی ہے۔ اگر آپ کی شخصیت میں صبر و تحمّل جیسی عظیم نعمت شامل نہیں، تو آج ہی سے اسے اپنی زندگی کا حصّہ بنائیں اور اس کے سبب اَن گنت مسائل، الجھنوں اور تنازعات سے محفوظ رہیں۔
ہم اکثرو بیش تر کوئی خلافِ مزاج بات سُن کر بھڑک اُٹھتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کا آغاز ہو جاتا ہے، جب کہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں بُردباری کا مظاہرہ کیا جائے اور مشتعل ہونے کی بہ جائے دوسروں تک اپنی بات نہایت پُرسکون، دھیمے اور مدلّل انداز میں پہنچائی جائے۔ اسی طرح اپنے ہر دن کا آغاز جذبۂ شُکر گزاری سمیت دیگر مثبت جذبات سے معمور ہو کر کریں۔ اس طرح آپ کا پورا دن خوش گوار گزرے گا۔
یاد رکھیں، صبرو توکّل میں بڑی طاقت ہے۔ اگر آپ ہر دُکھ، غم، پریشانی، مصیبت اور آزمائش میں تحمّل کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو ربِّ ذوالجلال اپنے خصوصی و فضل و کرم سے آپ کو وہ عزّت، شرف، عظمت اور کام یابی عطا کرے گا کہ جس کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا تک نہ ہو گا۔ اس کے برعکس جلد بازی شیطان کا ہتھیار ہے۔ بدقسمتی سے آج ہر انسان ہی عُجلت کا شکار دکھائی دیتا ہے۔
ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا کام پہلے ہو جائے۔ یاد رکھیں، کچھ مسائل عارضی ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اُن کا حل نکل آتا ہے، جب کہ بعض مسائل کا حل ہمیں خود تلاش کرنا پڑتا ہے اور اس ضمن میں اوروں کے تجربات سے مستفید ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ زندگی کٹھن ہے۔ یہاں قدم قدم پر آزمائشیں اور چیلنجز ہمارے استقبال کے لیے موجود رہتے ہیں اور ہمیں ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار و مستعد بھی رہنا چاہیے۔
نیز، اگر ہمیں کسی جانی و مالی نقصان کی صُورت کوئی گہرا صدمہ پہنچتا ہے، تو اس موقعے پر بھی صبروقرار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور اس ضمن میں یہ یقینِ کامل ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بڑا کارساز ہے ، وہ ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اور یقین کریں، دُنیا و آخرت میں کام یابی کا یہی کلیہ ہے۔