جناب آصف علی زرداری کے دور حکومت کا یہ خوش آئند اقدام ہے کہ بیگم نصرت بھٹو کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ نشان پاکستان دیا گیا۔ یہ اعزاز ان کی سیاسی‘ سماجی‘ انسانی حقوق اور جمہوریت کیلئے عظیم الشان جدوجہد کے اعتراف میں دیا گیا جس کی وہ بلاشرکت غیرے مستحق تھیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی دلیرانہ جدوجہد جنرل ایوب کے دور سے شروع ہوکر جنرل ضیاء کے انتہائی سفاکانہ اور جابرانہ دور تک محیط ہے۔ جنرل ایوب نے جب جناب ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی حکومت کے خلاف سرگرمیوں پر جیل میں ڈالا تو بیگم بھٹو اس کے خلاف میدان عمل میں آئیں اور ان کی رہائی کیلئے بھرپور مہم چلائی۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو بیگم نصرت بھٹو نے خاتون اول کی حیثیت سے عوامی بہبود کے لئے بہت سے فلاحی کام کئے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شعبہ خواتین کو منظم کرکے خواتین میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ شعبہ خواتین کی سربراہ کے طور پر انہوں نے تنظیم سازی کی اور انتخابات کروا کر جمہوریت کی اصل روح اجاگر کی۔
5جولائی 1977ء کو جب مارشل لاء کے ذریعے بھٹوصاحب کی حکومت غیرآئینی طور پر ختم کی گئی تو اس وقت وہ مارشل لاء کے خلاف سینہ سپر ہوئیں اور قید و نظربندی کی طویل تکالیف برداشت کیں۔ انہوں نے کارکنوں میں جمہوری جدوجہد کے جذبے کو زندہ و جاوید رکھا۔ جنرل ضیاء کے جبروظلم کے تاریک ایام میں وہ بھٹو صاحب کے لئے طاقت کا ستون تھیں ۔
جنرل ضیاء کے آمرانہ دور حکومت میں بیگم نصرت بھٹو نے یادگار کردار ادا کیا۔ بیگم صاحبہ نے پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں جرأت و ہمت کی لو بجھنے نہیں دی ان کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی جبر و تشدد کے باوجود مستحکم ہو کر آمریت کے خلاف سینہ سپر رہی۔ فوجی آمریت کے اس اذیت ناک عہد ستم میں بیگم نصرت بھٹو کو مہلک بیماری لاحق ہوئی۔ فوجی آمر ضیاء کی طرف سے علاج میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی تھیں۔ بیماری کی تشخیص کے باوجود علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ اس صورت حال میں بھی انہوں نے اپنے اعصاب مضبوط رکھے۔ عالمی دبائو نے بالآخر ضیاء کو مجبور کردیا اور 22نومبر 1982ء کو وہ جرمنی کے شہر میونخ پہنچ گئیں۔ ملک سے روانگی کے وقت بیگم صاحبہ نے اپنے پیغام میں واضح طور پر کہا کہ ہمیں سچائی اور صداقت کی راہ سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ عوام کی طاقت ہمارے ساتھ ہے اور عوام کی طاقت دوسری تمام طاقتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
بیگم نصرت بھٹو سے میری پانچ برس بعد 3دسمبر1982ء کو میونخ میں ملاقات ہوئی تو بیگم صاحبہ نے کہا کہ ہم 5 سال بعد مل رہے ہیں۔ ان پانچ سالوں میں ایک قیامت گزری ہے۔ قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت اور ان برسوں میں ظلم کی جو آندھی چلی تھی وہ بیگم صاحبہ کے چہرے سے عیاں تھی لیکن ان کی جرأت و عظمت کا یہ عالم تھا کہ پانچ سال کے ظلم و ستم کو ان کے عزم و استقلال سے مات کھانی پڑی تھی۔ میں نے پانچ سال قبل بیگم صاحبہ کو پاکستان میں ہشاش بشاش‘ صحت مند‘ متحرک اور فعال شخصیت کے روپ میں دیکھا تھا۔ اب ان کو بیماری کی حالت میں دیکھ کر میرے قدموں تلے سے جیسے زمین سرک گئی لیکن بیگم صاحبہ اپنے عظیم شوہر کے ناقابل برداشت صدمہ کو سینے میں چھپائے علالت کے باوجود جرأت کا پیکر تھیں۔ بیماری کے باوجود ان کی شخصیت میں وہی وقار‘ عظمت اور استقلال تھا۔ بیگم صاحبہ کا حوصلہ قابل داد تھا کہ انہوں نے جابرانہ حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے اپنے اعصاب کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے بڑی خوداعتمادی سے کہا کہ ’’پچھلے بارہ دن سے میری صحت بہتر ہوئی ہے۔ پاکستان کی نسبت میری حالت بہت اچھی ہے۔ کھانسی اگرچہ کم نہیں ہوئی لیکن خون آنا بند ہوگیا ہے‘‘۔
بیگم نصرت بھٹو نے میونخ میں مختلف یورپی ممالک سے آئے ہوئے پارٹی کارکنوں کے ایک استقبالیہ سے خطاب میں عوام سے اپیل کی کہ وہ ملک میں جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ مارشل لاء کے خاتمہ اور آئین کی بحالی کے لئے مزید جدوجہد کے لئے آگے بڑھیں اور مارشل لاء کی پابندیوں کی پروا کئے بغیر سراپا حرکت و عمل بن جائیں۔
سیاست میں خواتین کے کردار کے بارے میں بیگم نصرت بھٹو کا یہ واضح نقطہ نظر تھا کہ خواتین نے پیپلزپارٹی کے پرچم تلے پہلی بار آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں عورتوں نے لاٹھیاں کھائیں۔ پاکستانی معاشرے میں عورت سب سے مظلوم رہی ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کی سوچ کے مطابق پاکستان کی نصف آبادی کے سیاسی کردار کو بڑھانا چاہتی تھیں۔ وزیراعظم ہائوس میں ایک ملاقات میں بیگم صاحبہ نے اپنے بارے میں بتایا کہ ’’جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو سماجی کاموں میں میری کارکردگی بھٹو صاحب کی ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔ میں عملاً سماجی کارکن ہوں اور خود کو سماجی کاموں تک محدود رکھتی ہوں۔ میرے پاس ایسے لوگ اکثر آتے ہیں جن کو قطعی علم نہیں کہ اپنے کام کے لئے انہیں کس کے پاس جانا چاہئے۔ انہیں معلوم نہیں کہ ڈی سی آفس جانا ہے‘ مجسٹریٹ کے پاس جانا ہے یا کسی وزیر سے رجوع کرنا ہے۔ میرے پاس ایسے ہی لوگ آتے ہیں اور اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں چنانچہ میں ان کی رہنمائی کردیتی ہوں کہ ان کا کام کہاں ہوسکتا ہے لیکن میں قانونی حدود میں رہ کر ہی مدد کرسکتی ہوں۔ کسی ناجائز کام کے سلسلے میں ان سے تعاون نہیں کرسکتی۔ بے شک میری کوئی دوست اور سہیلی ہو میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتتی۔ دوسرا یہ کہ میں خلاف قانون کوئی بات نہیں کرتی‘ اپنے سیکرٹریوں کو اس سلسلے میں ہدایات دے رکھی ہیں‘ افسروں اور ملازموں کے تبادلوں کے سلسلے میں قطعی مداخلت کرنا پسند نہیں کرتی‘‘۔
بیگم صاحبہ کو 1975ء میں میکسیکو میں خواتین کی عالمی کانفرنس میں نائب صدر منتخب کیا گیا۔یہ پاکستان کے لئے ایک بڑا اعزاز تھا۔ اس کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے بیگم صاحبہ نے یہ واقعہ سنایا کہ ’’وہاں بھارتی وفد کی ایک رکن خاتون نے ہمارے وفد کی ایک لڑکی سے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں؟ پاکستانی‘ لڑکی کا جواب تھا۔ بھارتی رکن نے وضاحت چاہی کہ پاکستان کے کس حصے سے تعلق ہے؟ پاکستان سے‘ لڑکی نے جواب دیا۔ بھارتی رکن نے پھر سے سوال دہرایا۔ دراصل وہ یہ جاننا چاہتی تھی کہ یہ لڑکی پٹھان ہے‘بلوچ ہے کیا ہے؟ لیکن اس بارے میں بھی ہماری لڑکی نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔ ’’میں پاکستانی ہوں‘‘ اس کا جواب سن کر مجھے جو مسرت ہوئی اس کا اظہار بیان سے باہر ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ نئی نسل کی سوچ یہی ہونی چاہیے کہ وہ پاکستانی ہے اور پاکستانی ہونے پر اسے فخر ہے‘‘۔
ان کی زندگی انسانی حقوق کی پاسداری‘ سیاسی شعور کو اجاگر کرنے اور جمہوریت کا تحفظ کرتے ہوئے گزری۔ بیگم نصرت بھٹو آج دنیا میں نہیں‘ 23مارچ ان کا یوم ولادت اور یوم پاکستان بھی ہے۔ اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بیگم نصرت بھٹو واقعی نشانِ پاکستان ہیں۔