• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحت نعیمہ اختر

جس طرح کسی بھی فرد کی شخصیت سنوارنے میں اُس کی ذاتی کاوشوں کے علاوہ ارد گرد کا ماحول اور معاشرہ اہم کردار ادا کرتا ہے، اِسی طرح ایک طالبِ علم کی کام یابی میں بھی اُس کی اپنی محنت اور صلاحیتوں کے علاوہ والدین اور اساتذہ کی توجّہ اور سماج کا بھی گہرا عمل دخل ہوتا ہے۔

درحقیقت اصل طالبِ علم وہی ہوتا ہے، جو حصولِ علم کی طلب رکھتا ہے، جب کہ بدقسمتی سے ہماری نئی نسل میں ایسے طلبہ کی تعداد خاصی کم ہے کہ جو حصولِ علم کے طالب یا ’’تعلیم برائے علم‘‘ کے خواہش مند ہیں۔ 

دوسری جانب ہمارے نظامِ تعلیم میں پائی جانے والی خرابیاں اور معاشرے کی منفی اقدار بھی طلبہ کو اس امر پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ محض ڈگری یا نوکری کی خاطر تعلیم حاصل کریں۔ 

لہٰذا، سب سے پہلا عمل، جو کسی طالبِ علم کے ذہنی انتشار کا باعث بنتا ہے، وہ ایسے علم کا حصول ہےکہ جسے وہ غیر مفید سمجھتے ہوئے حاصل کرتا ہے اور پھر ہماری درس گاہوں میں عموماً طلبہ کو جو تعلیم فراہم کی جاتی ہے، وہ ہماری تہذیب، ماحول اور دین سےکم ہی مطابقت رکھتی ہے، لہٰذا اِس دو عملی کے سبب بھی نئی نسل انتشار کا شکار ہوجاتی ہے۔ گرچہ بعض باشعور افراد کی جانب سے نصابِ تعلیم کو اسلامی و قومی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن ہمارا تعلیمی نظام بالخصوص قومی نصاب ملّی روایات کا آئینہ دار نہیں۔ 

دوسری جانب اساتذۂ کرام درس گاہوں میں طلبہ کو جو کچھ پڑھاتے اور سکھاتے ہیں، عملی زندگی میں اُس کے برعکس حالات دیکھ کر اُنہیں شدید مایوسی ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر طلبہ کے اذہان پر ایسے نظریات ثبت کر دیے جاتے ہیں کہ جو یا تو محض مفروضات پر مبنی ہوتے ہیں یا پھرعملی زندگی میں کارگر ثابت نہیں ہوتے۔ یعنی عملی طور پر کسی ایسے نظام کو نہیں اپنایا جاتا کہ جو طلبہ کی کام یابی میں نمایاں کردار ادا کرے۔

مزید برآں، دورِ طالب علمی میں نوجوانوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اُنہیں اپنی عملی زندگی میں کون سی سمت یا شعبہ اختیار کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب طلبہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، تو زمانے کی بھول بھلیّوں میں کھو کر اپنا مقصدِ حیات فراموش کردیتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ آپ کا دماغ اُس وقت تک یک سُو نہیں ہوسکتا کہ جب تک آپ کو کسی کام کے بامقصد اور نتیجہ خیز ہونے کا یقین نہ ہو۔ اور آج نہ صرف طلبہ بلکہ پوری قوم اورعمومی طور پر پوری انسانیت کےانتشار کا سبب یہی ہے کہ انسان کو اپنے مقصدِ حیات کا شعورنہیں اور نوجوان نسل میں یہ کمی زیادہ شدّت سے محسوس کی جا سکتی ہے، کیوں کہ بیش تر نوجوانوں کو آج تک کسی نے یہ ہی نہیں بتایا کہ اُن کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے، خصوصاً جب ایک مسلمان نوجوان کو اس دُنیا میں اپنی آمد کا مقصد معلوم نہیں ہوگا، تو اُس کی تمام ترصلاحیتیں اور توانائیاں فضول اورلایعنی کاموں ہی پر صَرف ہوں گی۔

مثال کے طور پر اگر کوئی نوجوان پیسا کمانے کے لیے یوٹیوب اور ٹِک ٹاک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مختلف اقسام کی ویڈیوز بنا کراَپ لوڈ کرتا ہے اور یہ مواد اخلاق سوز سرگرمیوں پر مبنی ہے، تو یہ نہ صرف اُس نوجوان بلکہ دوسروں کی دُنیا و آخرت کی تباہی کا بھی سبب بنے گا۔

اگر طلبہ کو تعلیم کے ذریعے بچپن ہی سے اُن کے دنیا میں آنےکا اصل مقصد ذہن نشین کروا دیا جائے، اُنہیں خالقِ کائنات کی پہچان کروائی جائے اور اُن میں جواب دہی کا احساس پیدا کیا جائے، تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی اور دوسروں کی دُنیا وعاقبت سنوارنے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اگر نوجوانوں کو اس بات کا ادراک ہوجائے کہ اُنہیں تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اعلیٰ وارفع مقاصد کے لیے ودیعت کی گئی ہیں، تو وہ کبھی بھی اُنہیں بےمقصد اورلایعنی کاموں میں صَرف نہیں کریں گے۔

اب چُوں کہ طالبِ علم بھی یہی نوجوان ہیں، تو مقصدِ حیات سے لاعلمی اُن میں علمِ نافع کا لگاؤ کم کردیتی ہے اور وہ تعلیم سے فرار حاصل کر کے منفی سرگرمیوں میں دل چسپی لینا شروع کردیتے ہیں۔ نتیجتاً، اُن کی بہترین صلاحیتیں اور قیمتی وقت مُلک و قوم اور دین کی خدمت کی بجائے رقص و سرود کی محافل، کھیل تماشوں اور تخریب کاریوں کی نذر ہونے لگتا ہے اور یوں وہ ذہنی انتشارکے ساتھ عملی طور پر گُم راہی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔

تاہم، تمام طلبہ کو انتشار کے شکار طلبہ کی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ مذکورہ بالا تمام تر خرابیوں کے باوجود اب بھی ایسے طلبا و طالبات موجود ہیں کہ جو اپنے مقصدِ حیات کا گہرا ادراک رکھتے ہیں، مگر اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ 

یہ طلبہ اپنی راہ متعیّن کرچُکے ہیں اور اِدھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے صراطِ مستقیم پرگام زن ہیں۔ یہ نوجوان یک سُوئی کے ساتھ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں تعمیری کاموں پر کھپا رہے ہیں اور آگے چل کر مُلک و ملّت کا سرمایۂ افتخار ثابت ہوں گے۔ اِس کا سبب اُن کے والدین کی تربیت بھی ہوسکتی ہے اور اُن کا شعور بھی، جس کی بنا پر انہوں نے درست رہنمائی حاصل کی۔