• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں برسیلز میں ہونیوالی سہ روزہ کانفرنس کا ایک حیران کن پہلو افغانستان کی اس کے ایجنڈے اور تبادلہ خیال میں عدم موجودگی تھا۔ یوکرین کے موضوع کا کانفرنس پر طاری رہنا حیران کن نہیں ہے۔ یہ کانفرنس ہر سال امریکہ کہ جرمن مارشل فنڈز کے توسط سے جبکہ کانفرنس کا مقصد بحراوقیانوس کے آر پار پالیسی سازوں کیلئے اہم معاملات پر غور و فکر کرنا ہے۔ اس کانفرنس میں امریکہ، یورپ سمیت کئی ممالک کے سربراہان، اعلیٰ افسران، کاروباری قائدین اور اسکالروںنے شرکت کی،رواں برس ہونیوالی اس کانفرنس کا موضوع’تغیر پذیر ہوتی دنیا‘ تھا۔ کانفرنس میں زیادہ تر غوروفکر کا محور نیٹو اور یورپی یونین کا مستقبل اور خاص طور پر یوکرین کا بحران تھا، اس بات کا اظہار کانفرنس میں ہونیوالے سوالات و جوابات سے ہوا، جبکہ مبالغہ آرائی کے طور پر اسے سرد جنگ کے بعد سے دنیا کی ترتیب کو لاحق خطرہ اور ’نتیجہ خیز لمحہ‘ قرار دیا گیا۔
افغانستان جہاں صدارتی انتخابات میں بہت ہی کم وقت رہ گیا ہے اور یہ ملک ایک اہم ترین تبدیلی کے دہانے پر ہے تاہم کانفرنس کے کسی دور میں یہ توجہ کا محور نہیں بنا۔ یہاں تک کے اس کا ذکر نیٹو کے سیکریٹری جنرل کے اس عسکری اتحاد کے مستقبل کے حوالے سے خطاب میں بھی نہیں کیا گیا، کانفرنس میں ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں بتایا گیاتھا کہ افغانستان میں نیٹو کا عسکری مشن ختم ہورہاہے، اور نیٹو 20 سال میں پہلی مرتبہ اپنے رکن ممالک کی سرزمین سے باہر کسی بڑے عسکری آپریشن میں مصروف عمل نہیں ہوگا۔ امریکی سینیٹ کی خارجی تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ میننڈز کا خطاب لفاظی سے بھرپور تھا، انہوں نے ولادی میر پیوٹن کی جارحیت کو آڑے ہاتھوں لیا، ایران کے جوہری عزائم کی مذمت کی اور شامی قائد پر لفاظی کے حملے کیے لیکن وہ امریکہ کی طویل ترین جنگ میں ہونیوالی ایک بھی کامیابی پر لب کشائی میں ناکام رہے۔ کانفرنس میں شریک ایک یورپی مندوب نے واضح کیا کہ اس مباحثے میں افغانستان کا تذکرہ کیوں مفقود ہے، ’اگر امریکہ کی افغانستان میں دلچسپی میں کمی واقع ہوگی تو یورپ کی بھی ہوگی کیونکہ یورپ افغانستان میں امریکہ کی وجہ سے دلچسپی رکھتا ہے۔ امریکہ کے ایک سابق افسر نے مجھے کانفرنس کے موقع پر بتایا کہ دنیا آگے بڑھ چکی ہے، امریکہ کہ افغانستان میں تنزل پذیر ہوتی ہوئی دلچسپی صدر کرزئی کے من مانے روئیے اورباہمی سیکورٹی معاہدے پر دستخط سے انکار کی وجہ سے مزید کم ہوئی، ان کی ان باتوں نے میرےاس تاثر کو تقویت بخشی کے مغربی طاقتیں افغانستان کے حوالے سے اپنا ذہن بنا چکی ہیں اور وہ رواں برس ہی اپنی افواج کو وہاں سے نکال لیںگی۔
کانفرنس کا ایک ہی ایسا دور تھا جس میں افغانستان کا تذکرہ آیا اور وہ ’بیجنگ کی مغرب کی جانب پیش قدمی‘ کے حوالے سے تھا۔ جس میں بیجنگ کی خطے میں سفارت کاری اور معاشی تعلقات کے زاوئیے سے پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا گیا۔ کانفرنس کے اس دور میں میری بھی شرکت رہی اور اس میں جو اتفاق رائے سامنے آیا وہ یہ تھا کہ چین کے مغرب کے حوالے سے بیجنگ اور واشنگٹن کے مفادات مشترک ہیں جبکہ چین کے مشرقی حصے کی بابت ایسا نہیں ہے جہاں امریکہ اپنی ایشیائی محوری پالیسی پر کاربند ہے۔ کانفرنس میں پاکستان کے چین سے تعلقات کی نوعیت میں دلچسپی عیاں تھی جس کی وضاحت کرنے کا موقع مجھے حاصل ہوا، اس تبادلہ خیال میں اینڈریو اسمال اور ماڈریٹر ڈیوڈ اگناشئس نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس میں چین کی جنوبی ایشیاء میں زیادہ متحرک سفارتکاری کو تقویت دینے والے سیکورٹی اور معاشی پہلوؤں کے حوالے سے تھوڑا بہت اختلاف رائے دیکھنے میں آیا۔
فنانشل ٹائمز کےفلپ اسٹیفنز نے کانفرنس کا غورغوص سے تعلق رکھنے والا آغاز کیا، انہوں نے تغیر پذیر ہوتی دنیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ ’ہم عالمگیریت پر خوش ہوتے ہیں‘ ہم اس بات پر بھی فکرمند ہوتے ہیں کہ آیا اس نئے دور میں ہمارے پاس ضابطے اور طرزحکمرانی کے نظام اور تعاون بھی ہے یا نہیں۔ تاریخ اکثر اپنے آپ کو دہراتی ہے جیسا کہ یوکرین کے حالات و واقعات سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یوکرین کا بحران ہمیں یاددہانی کراتا کہ ’عظیم ہلچل کے دور میں خطرہ ابھرتی ہوئی نہیں بلکہ تنزلی کا شکار ہوتی ہوئی طاقت کے سامنے سے ابھر کر سامنے آتا ہے‘۔ کیا ماضی میں کوئی ایسی تبدیلیاں رونماء ہوئیں جنہوں نے ہمیں موجودہ تبدیلی سے نبردآزما ہونے کیلئے کوئی سبق دیا؟ اسٹیفنزکی جانب سے 20 صدی میں 3 تبدیلیوں کی نشاندہی کی گئی، پہلی تبدیلی کے تحت طاقت کا محور یورپ سے امریکہ منتقل ہوا، دوسری تبدیلی سلطنتوں کے زوال اور ریاست کا ابھرناتھا، تیسری تبدیلی 19 ویں صدی کے دوسرے حصے میں عالمگیریت کے باعث وقوع پذیر ہوئی جس کی وجہ سے معاشی مسابقت اور ریاست کی مداخلت سے ملکی معیشت کے تحفظ(پروٹیکشن ازم) یا انکے مطابق ’خطرناک قوم پرستی‘ کو خاصی ترقی حاصل ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ آج دنیا کو پھر 3 بڑی تبدیلیوں کا سامنا ہے، پہلی طاقت کے محور کی مغرب سے مشرق اور شمال سے جنوب کی جانب منتقلی ہے، اس بابت بحراوقیانوس کے آر پار کے ممالک طاقت کا تبادلہ سیکھیں گے، دوسری تبدیلی ریاست سے انفرادی سطح پر طاقت کی منتقلی ہے، جو کہ حکومتوں اور شہریوں کے مابین ربط کی ایک روایتی فرضیت ہے۔ اس ضمن ایک نیا توازن پیدا کرنا ہوگا کیونکہ وینزویلا سے ترکی تک کثیرالاعوامی احتجاجی مظاہرے مغربی طرز کی جمہوریت کا نہیں بلکہ انسانی وقار، قانون کی بالادستی اور جوابدہ حکومت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اسٹیفنز کے مطابق تیسری تبدیلی سب سے خطرناک ہے، جس کا محور دنیا کی قابل پیشین گوئی طرز حکمرانی سے یک قطبی نظام یا طاقت کے نظام کی جانب منتقلی ہے۔ یہ 19 ویں اور 20 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے سے قریبی مشابہت رکھتا ہے ، جبکہ انتشار کی شکار دنیا میں قیادت اور ضابطوں کے حامل نظام کی ضرورت کی گونج کانفرنس کے دوسرے ادوار میں سنائی گئی۔ کانفرنس کے کئی شرکاء نے نازک عالمی نظام کے مسئلے سے نبردآزماء ہونے کیلئے مشترکہ نظرئیے کا مطالبہ کیا۔ لیکن جیسا کہ ایک مقرر نے نشاندہی کہ کہ یوکرین سے شام، ایران اور مشرق وسطیٰ تک یورپ اور امریکہ نے کو ان مسائل کے مطابق نہیں ڈھالا۔ ایک اور مقرر نے 2008 کے اقتصادی بحران کو بحراقیانوس کے آرپار ممالک کے عالمی سطح پر موثر کردار ادا کرنے کو پراعتماد قرار دیا۔ کانفرنس میں ایشیاء کے عروج کے اثرات کو سنجیدہ قرار دیا گیا، پیوٹن کے کریمیا کو روس میں شامل کرنے کے موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے چند مقررین نے مغرب کے اقدامات کے نتائج کو تسلیم کیا جنھوں نے یورپ اور نیٹو کا اثرورسوخ مشرق کی جانب روسی سرحدوں تک بڑھادیا ہے یا یوکرین کے صدر کے خلاف مغرب کی پشت پناہی سے بغاوت، جس کی وجہ سے بالآخر روس شدید ردعمل کا اظہار کرنے پر مجبور ہوا۔ کانفرنس کے ایک دور میں یوکرین کے حوالے سے راسموسن اور روسی سفیر الیکزینڈر گرشکو کے درمیان کھل کر تبالہ خیال ہوا، راسموسن نے مغربی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ مغرب 1999 کے یورپی سیکورٹی کی میثاق پر عملدرآمد کا حامی ہے جس کے تحت ہرقوم کو اتحادی کے انتخاب کا بنیادی حق حاصل ہے۔
الیکزینڈر گرشکو اپنا موقف دہرایا کہ ایک ریاست کی سیکورٹی کودوسری ریاست کے تحفظ کو خطرے میں ڈال کر حاصل نہیں کیا گیا، انہوں نے روس کی جانب بار بار جانیوالے انتباہ کو دہراتے ہوئے کہاکہ نیٹو کے وسعت پسندی نئے ’موکلین‘ کو جنم دےگی اور انہیں روسی سرحدوں کی جانب دھکیلے گی۔ انہوں نے کہاکہ نیٹو کوئی بھی فیصلہ لینے میں آزاد ہے تاہم روس بھی اپنے تحفظ کیلئے کوئی بھی فیصلہ لینے میں آزاد ہے۔ روس کے حوالے سے مستحکم اور متفقہ ردعمل مرتب کرنے کے حوالے سے کانفرنس کی گفت شنید سے یہ عیاں تھاکہ یورپی اقوام تیل اور گیس کے شعبے میں روس پر انحصار کے باعث بڑی حد اس کے خلاف موقف وضع کرنے پر منقسم تھیں۔ کچھ مقررین نے احتیاط پر زور دیا جبکہ دیگر مقررین نے سخت شرائط اور روس کے خلاف تعزیری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ کانفرنس کے موقع پر کئی مغربی شرکاء نے تسلیم کیا کہ کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کی فضاء کو اب کی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے لئے سوال یہ ہے کہ اب کس طرح روس کو مشرقی اور جنوبی یوکرین میں داخل ہونے سے روکا جائے، چند ایک نے یہ تسلیم کیا کہ روس کا یوکرین پر کنٹرول برقرار رکھنے کی دلچسپی مغرب کی جانب سے ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے میں دلچسپی سے زیادہ ہے۔ روس اور یوکرین کے موضوع کو اس قدر مرکز نگاہ بنانے یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ رواں برس ستمبر میں ویلز میں ہونیوالی نیٹو کانفرنس میں روس اور یوکرین موضوع بحث رہے گا نہ کہ افغانستان میں مشن کا خاتمہ جوکہ ایک مرتبہ اس کانفرنس کا موضوع بحث رہا ہے۔ شام کے مقدر کے حوالے سے دوران مباحثہ مقررین اور حاضرین کی منقسم آراء کا شکار رہا، جس میں بشارالاسد کے عسکری اثاثوں پر بمباری سے لے کر محتاط رویہ اختیار کرنے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار حزب اختلاف اور اس میں انتہا پسند عناصر کی نشاندہی سے لے کر وسیع تر سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ شام کے تناظرکے حوالےسے کانفرنس کے شرکاء میں رائے شماری کی گئی، جس میں اکثریتی رائے یہ سامنے آئی شامی تنازع خطے کی عدم استحکام کے ضمن میںمتعدی کردار ادا کررہا ہے، جبکہ کافی شرکاء کی رائے میں معاملے پر تعطل جاری رہنے کی توقع ہے۔کانفرنس میں اس بات پر اتفاق دیکھنے میں آیا کہ شام کا بحران محض ایک آمر اور اسکے عوام کے مابین معرکہ نہیں ہے بلکہ خطے میں جغرافیائی و سیاسی طاقت کا کھیل ہے، جس میں دوسرے ممالک کی فرقہ ورانہ لڑائی میں خطے کی کئی ریاستیں اور بین الاقوامی کردار شامل ہیں۔ خاص طور پر جنیوا عمل کے اونٹ کے کسی کروٹ نہ بیٹھنے سےعمومی تناظر تاریک نظر آیا جبکہ دیگر اہم مسائل بین الاقوامی ایجنڈے پر ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ دیگر کانفرنسوں کی طرح اس میں بھی یہ بات دہرائی گئی کہ عالمی اور قومی سیاست میں اکثر اوقات اہم مسائل سے زیادہ فوری حل طلب مسائل توجہ کا محور بن جاتے ہیں، جس سے اہم مسائل سے اس وقت تک پہلو تہی کی جاتی ہے جب تک وہ کسی بحران کی صورت نہ اختیار کرلیں۔
تازہ ترین