• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوںنارویجین سیکورٹی پولیس (PST) کے ہیڈکوارٹر میں مختلف وقفوں سے 30 مسلمان انتہا پسندوں کو انٹرویو کیلئے طلب کیا گیاجو پولیس کے خیال میں یہ تمام کسی نہ کسی سطح پر انتہا پسندی میں ملوث یا اسے فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ مقصد انہیں ایک دفعہ متنبہ کرنا اور یہ جانناتھا کہ ان کےپاس اس بارے میں کیا کیا معلومات ہیں۔ یہ طریقہ کار 90ء کی دہائی میں نازی انتہا پسندوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا ۔اسلام کے حوالے سے کوئی نہ کوئی خبر نارویجین میڈیا میں ہر وقت میڈیا میں ہر وقت گرم رہتی ہے۔ مضحکہ خیز کارٹون، حجاب پر پابندی زیر موضوع رہنے کے بعد آج کل موضوع نو مسلم نارویجین اور دیگر مسلمانوںکی شام کےجنگی محاذوں میں شمولیت ہے۔ان مسائل کا براہ راست تعلق پاکستان سے نہ ہونے کے باوجود پولیس کی نگاہ پروفیٹس امہ کے مرکزی کردار پاکستانی نژاد نارویجین پر ہے جسے مقامی عدالت سے ایک صحافی کو خوفزدہ کرنے کے الزام میں سزا سنائی جاچکی ہے۔ ناروے میں انٹیلی جنس اداروں اور حکومت کے لئے سب سے بڑی پریشانی مسلمانوں کی شام کے محاذوں پر روانگی وہاں فوجی تربیت اور تجربہ۔ وہاں سے واپسی پر مضر اثرات کے ساتھ ناروے کے پرامن معاشرے میں سمانا ہے۔
ستمبر 2012سےتقریباً 40نارویجین مسلمانوں کے شام کی خانہ جنگی میں حصہ لینے کے ثبوت ہیں۔ جن میں سےکچھ وہاں ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔ یہ مسئلہ سارے یورپ اور امریکہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ انٹرنیشنل سنٹر برائے مطالعات انتہا پسندی ICSR اردن،اسرائیل،برطانیہ اور امریکن تحقیقی ادارے کے مطابق غیر ممالک سے 8500 شام میں موجود ہیں۔ ICSR کے مطابق پوری دنیا میں 450 مغربی اورعربی ذرائع ہیں۔ عسکریت پسندوں کا مقصد پہلے یورپ میں دہشت گردی سے نقصان پہنچانا تھا مگر اب وہ شام میں جمع ہوگئے ہیں۔جینوا کی امن کانفرنس میں شام میںان جہادیوں کی وجہ سے پروپیگنڈے کیلئے ایک مثبت پوائنٹ تھا کہ شام میں دہشت گردی کا محرک یہی مغربی انتہا پسند ہیں۔ بشار الاسد کے خلاف متعدد تنظیمیں متحرک ہیں مگر 22نومبر 2013ءکو سات چھوٹی تنظیمیں اسلامک فرنٹ کے نام سے متحد ہوگئیں ہیں۔ 4500 جنگجوئوں پر مشتمل یہ فرنٹ القاعدہ سے منسلک ہے۔ ان کا نصب العین شرعی قوانین پر مشتمل اسلامی ریاست قائم کرنا ہے۔ 40سے 50ہزار کرد مرد اور عورتوں کے ساتھ YPG شمال مشرقی شام میں کردوں کے مفاد اور مدافعت کیلئے سرگرم ہے۔کرد علاقے پر تسلط کیلئے یہ دوسرے گروپوں سے محاذ آرا رہتے ہیں۔ النصرہ فرنٹ اور ISIS اسلامک ریاست بشمول عراق اور شام (7000-10000) ایک متحدہ اسلامی ریاست کیلئے محاذ آرا ہیں۔ ان کا تعلق القاعدہ کے ایمن الزواہری سے ہے۔ یہ مغربی تسلط کے سخت خلاف ہیں۔ سب سے زیادہ مغربی ممالک کے جہادی ان سے منسلک ہیں۔FSA آزاد شامی آرمی (30-50000) سیکولر اور لبرل خیالات پر مشتمل آزاد گروپ ہے یہ مغربی ذہن رکھنے والے تصورکئے جاتے ہیں۔ مغربی سرپرستی کے باوجود یہ زیادہ کامیاب ہیں۔ القاعدہ سےمنسلک جہادیوں کی تعداد میں گوناگوں اضافے کے نتیجے میں قائم ہوتی ہوئی عراق و شام پر مشتمل امارات کے تصور ہی سے مغرب فکرمند ہے۔ان باغی گروپوں کو کہاں سے مدد مل رہی ہے؟ یہ مکمل طور پر واضح نہیں، ایک مفروضہ یہ ہے کہ انہیںاسلحہ لیبیا اور مالی امدادعرب ممالک سے فراہم کی جارہی ہے جبکہ اسد حکومت کو ایران، لبنان اور روس سے سیاسی اور دوسری توانائی حاصل ہورہی ہے لیکن ایک قدر تمام باغی گروپوں میں مشترک ہے کہ مختلف پلیٹ فارموں پر جو لوگ ان جہادی جماعتوں کے نام پر مذاکرات کررہے ہیں ان کو کسی بھی فیصلہ کن گروپ کی حمایت حاصل نہیں۔ ان بے فائدہ مذاکرات اور بے لچک سیاسی روئیے کا ایک نتیجہ تو یقینی ہے کہ یہ خانہ جنگی مستقبل قریب میں بند ہوتی نظر نہیں آتی۔
90 کی دہائی میں برطانوی حزب التحریر نے ناروے میں قدم جمانے کیلئے نہایت اعلٰی تعلیم یافتہ مسلم دانشوروں کو یہاں پلانٹ کیا تھا مگر وہ صرف پانچ یا دس افراد کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوسکے لیکن 2014 میں حالات بہت بدل گئے ہیں اور اس کا محرک 2012ء کا عرب بہار ہے۔نارویجین سیکورٹی پولیس نہایت محتاط اور معتدل رویہ رکھتے ہوئے صرف ان مسلمانوں پر نظر رکھتی ہے تو ممکنہ طور پر تشدد کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اکثریتی مسلمانوں نے اپنے رویہ اور کردار سے ان انتہا پسندوں سے فاصلہ اختیار کیا ہوا ہے۔ آئمہ مساجد اس تمام معاملے میں اپنا کردار نہایت عقلمندی اور فکرمندی سے ادا کررہے ہیں جوانتہا پسندوں کی نظر میںمفاد پرست اور بزدل ہیں۔ مفاد پرست اس لئے کہ ان حکومت کی طرف سے مذہبی اداروں کو کئی ملین کی رقم سالانہ بطور گرانٹ ملتی ہے۔ائمہ مساجد اور والدین کی بالکل خواہش نہیں کہ مسلمان نوجوان شام کی خانہ جنگی کی طرف راغب ہوں ان کی نظر میں یہ جہاد نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی جنگ ہے۔ مگر وہ مساجد کے دروازے ان کیلئے بند نہیں کرسکتے۔ البتہ ان کو تقاریر اور چندہ جمع کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ شام روانہ ہونے والے ان جوانوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ جوان دہشت گردی میں ملوث ہیں تو معاملہ سنگین ہوجاتا ہے۔میڈیا کی نظر میں انتہا پسندی یہ نہیں کہ صرف شام کی خانہ جنگی میں شامل ہوا جائے بلکہ پچھلے عرصے میں حجاب، داڑھی اور ریلیف میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ حجاب اور داڑھی بھی بہت زیادہ عام ہے یہاں تک کہ تعلیم اور نوکری سے بھی زیادہ ماہرین کی نظر میں انتہا پسندی کی وجوہات میں عالمی سطح پر ناانصافی خاص طور پر جب معاملہ اسلام کا ہو۔ نوجوانوں کا آئیڈیل ازم اور اپنی شناخت کی تلاش۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی شناخت سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔ رفاعی تنظیموں پر بھی پولیس کی بہت گہری نظر ہے۔ چند تنظیموں کے ذریعے جہادیوں کی بھرتی اور اسلحہ کی خریداری کیلئے فنڈ کی فراہمی کے ثبوت ملنے پر پولیس بہت الرٹ ہوگئی ہے۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے انتہا پسندوں کے آپس میں روابط ہیں القاعدہ کے انتہائی پڑھے لکھے اور زیرک ایجنٹ یورپی ممالک میں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کرلیتے ہیں کہ وہ جہاد میں اپنا حصہ ڈالیں۔یورپ کے ممالک نے سفارتی سطح پر معلومات کا تبادلہ کرنے کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے سدباب کیلئے فنڈز بھی مختص کردئیے ہیں۔جنوری 2014ء میں نارویجین اور برطانوی وزیر اعظم آرناسولبرگ اور ڈیوڈ کمرون کی ملاقات میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اس کے سدباب میں تعاون باہمی گفتگو کے ایجنڈے میں سرفہرست تھی۔
تازہ ترین