• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’زینو فوبیا‘‘ یعنی کسی خوف کے تحت مردم بیزاری کے جذبہ کو برطانیہ میں فی الحال فتح حاصل ہوگئی اوریورپی یونین سے علیحدگی کے مخالفین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہ سب کیونکر ہوا اس کیلئے ماضی پرنظر دوڑانا ہوگی۔ 1993ء میں یورپی یونین کے قیام سے پہلے برطانیہ میںتارکین وطن کا قیام کوئی سنجیدہ اور بڑا مسئلہ نہیں گردانا جاتا تھا۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اس وقت برطانیہ منتقل اور برطانیہ چھوڑ جانیوالے افراد کی سالانہ تعداد ایک لاکھ سے کم ہوا کرتھی لیکن بعد ازاں حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ معاملات نیا رخ اختیار کرتے چلے گئے۔ 2014ء تک 21سالوں میں برطانیہ میں غیر ملکی تارکین وطن کی تعداد 3.8ملین سے بڑھ کر 8.3ملین کی تعداد تک جا پہنچی۔ اس عرصہ میں غیر ملکی مہاجرین کی تعداد 2ملین سے بڑھ کر5ملین سے زائد ہوگئی۔ اس کی بڑی وجہ یورپی یونین قوانین ہیںجو ممبر ممالک کے افراد کی ہجرت پر پابندی عائد کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ 2004ء میں جب یورپی یونین کی تعداد 28ہوگئی تو مرکزی اور مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک کے غریب شہریوں نے یورپی یونین ممالک میں رہائش اور کام کرنے کی آزادی کے حق کاا ستعمال کرتے ہوئے روزی کمانے کیلئے برطانیہ سمیت امیر ممالک کا رخ کر لیا۔
2008ء کے یورپی بحران کے نتیجہ میںسپین، اٹلی اور پرتگال میں بیروزگاری بڑھ گئی اور وہاں کے باشندوں کیلئے بھی پہلی پسندیدہ چوائس برطانیہ ہی تھا۔ ان دس سالوں میں یورپ سے برطانیہ ہجرت کرنے والوں کی شرح 25سے بڑھ کر 50فیصد ہوگئی۔ برطانیہ میں تارکین وطن کی آبادی کے اس بڑے حصہ نے مقامی آبادی کے وسائل کو کھانا شروع کر دیا۔ اسی تناظر میں کنزرویٹو پارٹی اور یوکے انڈی پینڈنس پارٹی نے برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ کرنے کی تحریک کومؤثر شکل دی اور مختلف عوامی پلیٹ فارمز پر اپنے مطالبے کو حقیقی قرار دیا۔ انھوں نے عوام کو اس امر پر غو روخوض کرنے پر مجبور کر دیا کہ مشرقی یورپ کے مہاجرجرائم پیشہ افراد بالخصوص اورمسلمان بالعموم برطانیہ کی معیشت پر بوجھ بن کر اسے تباہ وبرباد اور برطانیہ کے باشندوں کی ملازمتیں چھین رہے ہیں۔ 2014ء میں یوکے انڈی پینڈنس پارٹی کے رہنما نگل فراگ نے برطانیہ میں رومانوی باشندوں کی پیداکردہ جرائم کی لہر کے رد عمل میں نیا قانون بنانے کی تجویز دی تھی جس کے مطابق برطانوی ملازمتیں صرف برطانوی عوام کیلئے ہوں۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ایسے افراد کے گروہ بس چکے ہیں جو ہم سے نفرت کرتے ہیں اور ہمیں موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہیں۔ علیحدگی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے قیام کے دن سے ہی ہم یہ کہہ رہے تھے کہ یورپی یونین میںشمولیت برطانیہ کیلئے ہرگز سود مند ثابت نہ ہوگی۔ علیحدگی پسندوں کی تحریک کے بعد77فیصد برطانوی یہ سوچتے ہیں کہ امیگریشن کیلئے دی جانے والی رعایتوںکو کم کیاجانا انتہائی ضروری ہے تاکہ وسائل کو مقامی افراد کیلئے بچایا جاسکے۔ یہ تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ریفرنڈم کروانے کا وعدہ پورا کرنا پڑا۔ نگل فراگ کا کہنا تھا کہ اس سے معمولی نوعیت کا مالیاتی بحران پیدا ہوگا لیکن علیحدگی کا اعلان دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میںخوفناک زلزلہ برپا کرنے کا باعث بنا۔ برطانوی پارلیمنٹ اور تاج برطانیہ کی منظوری کے بعد 18 ماہ کے عرصے میں برطانیہ یورپی یونین سے مکمل طور پر خارج ہوجائے گا تاہم اس کے منفی اثرات تو ابھی سے ہی نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے برطانیہ کی ریٹنگ کو مستحکم سے منفی قرار دینے کے بعد بے یقینی کی فضا نے یورپ اور ایشیا سمیت دنیا بھرمیں خوف کی فضا پیدا کردی ہے۔ ٹوکیو سے نیویارک تک کی مارکیٹوں میں 2 ٹریلین ڈالر کی کمی ہو گئی۔ ایک ہی دن میں ارب پتی افراد کے 127ارب ڈالر ڈوب گئے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے مکمل اخراج تک غیر یقینی صورتحال ہی رہے گی اور ڈیڑھ سال کا یہ عرصہ سرمایہ کاروں کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوگا اور اگر یہی صورتحال رہی تو بہت سی سٹاک مارکیٹیں کریش کر جائیںگی۔ جس تیزی سے عالمی مارکیٹیںمتاثر ہورہی ہیںان سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس بار 2008ء سے بڑا اقتصادی بحران پیدا ہو گا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ا س کا اثر ایشیا خصوصی طور پر بھارت، پاکستان اورچین پر کیا پڑے گا؟ اعداد وشمار کے مطابق برطانیہ میں تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد بھارتیوں کی ہے جو 14لاکھ ہیںجبکہ تیسرے نمبر پر پاکستانی ہیں جن کی تعداد11لاکھ ستر ہزار کے قریب ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تواس علیحدگی سے پچاس لاکھ لوگ براہ راست متاثر ہوں گے۔ ان میں 33 لاکھ کے لگ بھگ و ہ یورپی افراد متاثر ہوں گے جو برطانیہ میں رہائش پذیر ہیںجبکہ 12 لاکھ وہ برطانوی ہوں گے جو یورپ کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ علیحدگی کے اعلان کے بعد پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں 14سو پوئنٹس کی ریکارڈ کمی ہوئی۔ برطانیہ میںپاکستان کی برآمدات صرف 7 فیصد ہیں اس لئے اس پر کوئی خاص اثر پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے مقابلہ میں اگر سیاسی صورتحال غیر یقینی کا شکار رہی تو یورپ میں پاکستانی برآمدات مہنگی ہوجائیں گی۔
برطانیہ میںسٹیل، چائے اور گاڑیوں سے متعلق 8سو کے لگ بھگ بھارتی ملکیتی کمپنیاںکاروبار کررہی ہیں جن میں 1لاکھ 10ہزار ملازمین کام کررہے ہیں۔ بھارت یورپ سے ہر سال 30ارب ڈالر کماتا ہے۔ پائونڈ کمزور ہونے سے بہت سے بھارتی کمپنیوں کو بھاری نقصان اور چند ایک کو فائدہ ہونے کی توقع ہے۔ برطانوی پائونڈ کی قیمت میں کمی سے چینی سیاحوں کیلئے بہت کشش پیدا ہوجائی گی کیونکہ گزشتہ سال 2لاکھ 70ہزار چینی سیاح برطانیہ گئے جو 2014ء کی نسبت 46فیصد زیادہ ہیں۔ چین کا یورپی یونین میں شامل ممالک کے ساتھ ٹریڈ کا حجم 565ار ڈالر جبکہ برطانیہ سے 79ارب ڈالر ہے۔ موجودہ صورتحال میں51فیصد چینی سرمایہ کاروں نے برطانیہ میں جائیداد میں سرمایہ کاری کے سودے معطل کردئیے ہیں۔ ایک چینی کمپنی مالک کا کہنا ہے45فیصد کاروبار یورپی ممالک سے کرتا ہوں اگر برطانیہ واقعی یورپی یونین سے علیحدہ ہوگیا تومیرا اور متعدد افراد کا کاروبار تباہ ہوجائے گا۔
تازہ ترین