• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ درست ہے کہ ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہونے چاہئیں یا کم از کم ناخوشگوار اور کشیدہ نہیں ہونے چاہئیں۔ اس وقت پاکستان کی منتخب اور مقتدر سیاسی قیادت اسی سوچ کی حامل ہے۔ مگر کیا بھارت میں بھی یہی سوچ ہے ؟ اگر ایسا نہیں تو ان کی قیادت پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رکھتی ہے؟یہ جاننا ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کے عام لوگ تو ہمارے عوام کی طرح کسی سے جنگ نہیں چاہتے اور امن کے خواہاں ہیں۔ مگر بھارت کی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ (Mindset)مختلف ہے۔ زیادہ تر تجزیہ نگار اس خاص سوچ کی جڑیں تاریخی حقائق میں تلاش کرتے ہیں۔ اشوکہ کے بعد پورے ہندوستان پر کبھی کوئی ہندوحکمران نہیں رہا۔ افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے آنے والے مسلمان ہندوستان پر حکومت کرتے رہے اور ہندو اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی مسلمان حکمرانوں کی رعایا رہے۔ اُس وقت تو وہ کچھ نہ کرسکے مگر 1947ء کے بعد پہلی بار ہندوستان کا حکمران بننے کے بعدوہ مسلمانوں سے انتقام لینے پر تُل گئے ۔ ان کے انتقام کا نشانہ آئے دن بھارت میں بسنے والے مسلمان بنتے ہیں۔
اس کے برعکس آج پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی ظلم کرے اور قانون کی گرفت سے بچ جائے، ان کے گھر جلادے اور اس کے خلاف کارروائی نہ ہو، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چند ماہ قبل لاہور میں عیسائیوں کی جوزف کالونی میں شر پسندوں نے چند گھروں کو نقصان پہنچایا تو صوبائی حکومت ، عوام، میڈیا اور عدلیہ مسیحی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ پنجاب حکومت نے پولیس کے تمام سینئر افسرتبدیل کردئیے اور پوری کالونی کے مکینوں کو نئے مکانات بناکردئیے ۔ بدقسمتی سے آج بھی بھارت میں اقلیتیں ایسے سلوک کی حقدار نہیں سمجھی جاتیں ۔ اپنے قیام کے دوران ہی معلوم ہوا کہ چند ہفتے پہلے مظفر نگر میں مسلمانوں کی بستیاں جلادی گئیں تھیں جس کے بعد وہ کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ انتخابی تقریروں میں دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈرنریندرمودی اور راہول گاندھی مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان پر نمک چھڑک رہے تھے اور کیمپوں میں پڑے ہوئے بے سہارا مسلمانوں پر ISIسے رابطے رکھنے کے بھونڈے الزام لگارہے تھے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کی ہرعلامت اور ہر یادگار سے بغض کا اظہار بڑا نمایاں نظر آتا ہے۔ قطب مینار کے احاطے میں سلاطینِ ھند کی قبریں اتنی خستہ اور شکستہ حالت میں ہیںکہ لوگ اینٹیں تک لے جارہے ہیں۔شاہی مسجد کی دیواریں کالی اور فرش میلاہوچکا ہے، صفائی اور صاف پانی ندارد اور روشنی نہ ہونے کے برابر ہے۔شاہی مسجد سے شوکت وعظمت کی بجائے وہاں کے مسلمانوں کی سی کسمپرسی جھلکتی ہے۔
جدید دور میں اگر کسی نے غلامی کا مشاہدہ کرنا ہو تو بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو دیکھ لے۔ بھیڑوں کے قریب کوئی خونخوار جانور آجائے تو ڈر اور خوف سے جو حالت بیچاری بھیڑوں کی ہوجاتی ہے وہی حالت انڈین مسلمانوں کی ہے۔ اگر آپ ان سے ان کے حالات یا مسائل پر گفتگو کرنا چاہیں تو وہ سہمی ہوئی نظروں سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کردیں گے اور آپ کو جواب دئیے بغیر کھسک جائیں گے اور کھل کر بات نہیں کریں گے۔ ایسا طرزِ عمل صرف نچلے طبقے کا ہی نہیں کروڑ پتی کاروباری مسلمان بھی اسی طرح سہمے ہوئے اور خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ انڈیا میں معروف مسلمان فلمی اداکاروں کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ اگرچہ نام کے سوا ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں مگر پھر بھی اپنے آپ کو قابلِ قبول بنائے رکھنے اور اپنی survivalکیلئے وہ کبھی مودی جیسے انتہا پسند لیڈروں کے حق میں اور کبھی پاکستان کے خلاف بات کرکے اپنے آپ کو بھارت کا وفادار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ غلامی واقعی بہت بری لعنت ہے۔اسی لئے اقبالؒ غلاموں کی بصیرت اور رائے کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے تھے۔
ہمارا ہمسایہ ملک رقبے اور آبادی میں وسیع ہے مگر حکمرانوں کا دل تنگ اور سوچ محدود ہے پاکستان ان کے ذہنوں پر سوار ہے۔سرکاری سطح پرتنگ نظری کی بہتات ہے پاکستان سے جانے والوں پر پابندی اور انتہا پسندی وافرہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ اُردو زبان کو آہستہ آہستہ ختم کرنا اور بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدکی لکیر کو کمزور کرنا انڈین اسٹیبلشمنٹ کے بڑے اہداف ہیں ۔ فلمی تقریبات میں خصوصی ہدایات کے تحت انڈین اداکار’’لکیر‘‘ پر اعتراض کرتے ہیں اوریہاں سے گئے ہوئے اداکاروںاور اداکاراؤںپر، جو پیسے کے لالچ میں ایمان، عزّت، عصمت، آزادی سب کچھ بیچنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ لازم ہوتا ہے کہ وہ سٹیج پر آکر کہیں کہ' یہ سرحد کی لکیریں فن کو نہیں روک سکتیںاور وہ بدبخت اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔کچھ سال پہلے بھارت میں ایسی ہی ایک تقریب میں جب یہ تکرار شروع ہوئی کہ ’’فن کی کوئی حدود نہیں ہوتیں‘‘تو معروف شاعرسیّد ضمیر جعفری مرحوم ومغفور کھڑے ہوگئے اور انہوں نے یہ کہہ کر سب کو چُپ کرادیا کہ ’’بھائی !فن کی حدود نہ ہوتی ہوں مگر فنکار کی حدود ہوتی ہیں، ہرفنکار کا اپنا ملک ہوتا ہے اور وہ اپنے ملک کا وفادار ہوتا ہے اگر وہ اپنی حدود کا پابند اور اپنے ملک کا وفادار نہ ہو تو وہ دھوبی کا وہ کتا ہے جو نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا‘‘
پاکستان کے ایک سینئر سفارتکار نے عشائیے کا اہتمام کیا جس میں بڑی تعداد میں انڈین مہمان بھی آئے ۔ یہ پڑھے لکھے لوگ تھے اور ان میں سے اکثر بزنس کے سلسلے میں یا سیمینارز میں شرکت کیلئے کئی بار پاکستان آچکے تھے۔ وہ سب ایک ہی طرح کی باتیں کررہے تھے۔ سب سے پہلے وہ پاکستان کا دوست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں پھر پاکستان کے دوروں میں محسوس ہونے والی اپنائیت کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں کے کسی نہ کسی علاقے سے اپنے
آباؤاجداد کے تعلق کا بڑے جذباتی انداز میں ذکر کرتے ہیںاور پھر تیسرے مرحلے پر وہ سکھائی ہوئی ٹیپ شدہ کہانی شروع کرتے ہیں کہ’’ہمارے درمیان کیوں یہ لکیر کھینچ دی گئی ہے‘‘۔ یہ نیتاؤں (سیاسی لیڈروں)کے غلط فیصلے تھے ۔ یہ لکیر ہمیں جدا نہیں کرسکتی ہم ایک ہوتے تو کتنا بڑا ملک ہوتے‘‘۔ لکیر کی تکرار بڑھی تو مجھے مداخلت کرنا پڑی۔ میں نے انہیں دوٹوک انداز میں بتایا کہ" لکیر" ہماری آزادی کی ضامن ہے ۔ یہ لکیر ہمارے علیحدہ وجود کی علامت ہے۔ یہ لکیر ہمارے راہنماؤں اور ہمارے آباواجداد کی عظیم جدّوجہد کی منزل ہے، ایک طرف آپ دوستی کی بات کرتے ہیں مگر یہ کس قسم کی دوستی ہے جو آپ ہمارے وجود سے انکار کرکے ہم سے لگانا چاہتے ہیں؟ ہمارے علیحدہ تشخص کو تسلیم نہ کرکے آپ کیسے تعلقات چاہتے ہیں؟ کیا آپ پاکستان کے 18کروڑ آزاد، ذہین اور باوقار پاکستانیوںکی آزادی چھیننے کے خواہشمندہیں اور انہیں بھی غلام بنا کر کیمپوں میں رکھنا چاہتے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ ایسی خواہشات اب دل سے نکال دیں ۔بہتر ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں اور اچھے ہمسائیوں کی طرح رہیں‘‘۔ پھر جب وہ پیگ پر پیگ چڑھا کر بالکل آؤٹ ہوجاتے ہیں تو بانیٔ پاکستان کے بارے میں اپنے بغض کا اظہار کرنے سے باز نہیں آتے ۔ جب معاملہ قائدؒ کی ذات تک پہنچا تو مجھ سے پھر نہ رہا گیااور انہیں بتانا پڑا کہ’’پاکستان میں ہرروز کروڑوں لوگ محمد علی جناحؒ صاحب کی بصیرت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور آزادی جیسی نعمت کا تحفہ دلانے پر (اور آپ سے آزادی دلانا تو قائدؒ کا احسانِ عظیم ہے) ان کیلئے دل سے دعائیں کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے باپو مہاتما گاندھی کو قتل کردیا مگر 67سال بعد بھی پاکستان میں اگر کوئی شخصیت غیر متنازع ہے اور جس سے تمام پاکستانی دل کی گہرائیوں سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیںتو وہ محمد علی جناحؒ کی شخصیت ہے۔ جو لوگ بھارت کا چکر لگا جاتے ہیں اور یہاں کے مسلمانوں کی بے بسی اور ذلّت دیکھ کر واپس جاتے ہیں وہ قائدؒکی بصیرت کے اور زیادہ قائل ہوجاتے ہیں۔ ہم نے بڑے تحمل سے بات کرتے ہوئے انہیں کہا "Lets forget the past and accept each other"آپ حضرات کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ ہمارے ہاں بڑی تبدیلی (change of heart) آئی ہے۔ عوام بالغ نظر ہوچکے ہیں اور انڈیا کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو مذاکرات سے حل کرنے کے حامی ہیں۔ وہ یورپی ممالک کو دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف کئی برسوں تک برسرپیکار رہے انہوں نے ایک دوسرے کے کروڑوں انسان قتل کئے، ایک دوسرے کے ملک تباہ کردئیے۔ مگر ماضی کوتاریخ کے اوراق میں دفن کرکے آج وہ بہترین دوست ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کیلئے سرحدیں کھول دی ہیں اور کرنسی ایک کرلی ہے۔ کیا ہم ان سے کچھ بھی سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں؟‘‘۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ’’ کھی انڈیا کے خلاف جنگ کرنے کے نعرے پر ووٹ لئے جاتے تھے۔آج انڈیا ہماری انتخابی مہم کا موضوع نہیں رہا۔ جو سیاسی قائد خلوص اور نیک نیتی سے انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا خواہاں ہے اسے سب سے زیادہ ووٹ ملے اور آج وہ ملک کا منتخب وزیر اعظم ہے۔ مگر آپ کے ہاں یہ سوچ کیوں نہیں پنپ سکی ؟ آپ کے ہاں آج بھی انتخابی تقریروں میں پاکستان کے خلاف زہر اُگلا جارہا ہے۔انڈیا بڑا ملک ہے، ایسی سوچ آپ کے ہاں پہلے آنی چاہئے تھی۔ ماضی کو بھول کر دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا initiativeپہلے آپ کو لینا چاہئے تھا‘‘۔یہ سن کر محفل میں بیٹھے ہوئے کچھ حضرات کہنے لگے کہ" واقعی پاکستان کے لیڈروں اور پاکستانی عوام کی سوچ میں بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ انڈین لیڈرشپ کو بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اسی طرح Reciprocateکرنا چاہیے۔ اگر یہ موقع ضائع کردیا گیا تو دونوں قوموں کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا‘‘۔ ایک دو حضرات نے ممبئی حملوں اور بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا ذکر کیا جس پر ہم نے کہا کہ کسی ایک واقعے میں بھی پاکستانی حکومت یا فوج کے ملوث ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملی جبکہ ہمارے ہاں بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کی واضح شہادتیں موجود ہیں جس سے بھارتی حکومت کی ذہنیت عیاں ہوجاتی ہے۔انڈیا میں قیام کے دوران ایک دن ہمیں پیشکش ہوئی کہ ’’اگر آپ چاہیں تو آپ کی ملاقات مشہور ہیروشاہ رُخ ، سلمان خان یا امیتابھ بچن سے کرائی جاسکتی ہے‘‘۔میں نے کہا ’’بچوں کو اداکاروں سے ملنے کا شوق ہوتا ہے ہمیں تو بالکل بھی نہیں۔ یہ لوگ کوئی زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ مکالمے رَٹ کر بول دیتے ہیں اس لئے ان کی گفتگو انتہائی سطحی قسم کی ہوتی ہے۔ان کی نسبت ہم کسی دانشور، رائٹر، دیانتدار سول سرونٹ، سوشل ریفارمر ، کسی بہادر پولیس افسر یا باضمیر صحافی سے ملنے کو ترجیح دیں گے۔ ایسے لوگوں کے پاس علمیّت بھی ہوتی ہے، فلسفہ بھی اور پیغام بھی‘‘۔ فلمی اداکار انڈیا کے ہوں یاپاکستان کے وہ نقلی ہیرو بنتے ہیں قوم کے اصلی ہیرو نہیں ہوتے وہ تو صرف entertainerہوتے ہیں۔ انسان ذہنی طور پر تھکا ہواہوتو entertainment کیلئے انہیں سکرین پر دیکھ سکتا ہے، اس سے زیادہ ان کے ساتھ رابطے کی ہرگز خواہش نہیںہے۔ کئی سال پہلے جب میں لاہور میں تعینات تھا اسی طرح کے ایک" دبنگ ہیرو" کو کسی کیس کے سلسلے میں لاہورپولیس نے بلالیا تو ایس پی آفس میں آتے ہی اس نے زاروقطار روناشروع کردیا۔ ایک پولیس افسر نے کہا ’’تم تو اکیلے درجنوں پولیس والوں کو قتل کرسکتے ہو۔مگر یہاں تمہارا یہ حال ہے؟‘‘ ہاتھ باندھ کر کہنے لگا سرجی وہ سب نقلی ہوتا ہے میں تو چڑیا بھی نہیں مارسکتا۔ پورے بھارت میں پاکستان کا کوئی چینل نہیں دیکھا جاسکتا۔ کاروباری اشتہاروں میں کسی پاکستانی مرد یا خاتون کی تصویر نہیں ہے۔ مگر پاکستان کے ہر شہر میں انڈین اداکاراؤں کے اشتہاروں کی بھرمار ہے۔ اب ایک سیاستدان نے ایک ایسے متعصّب بھارتی اداکار کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے جس نے اپنے بیٹے کی شادی پر کسی مسلمان کو نہیں بلایاتھا، جو اپنی بہو کے ساتھ ناچتا ہے اور بہو بیٹی کو سٹیج پر نچوا کر تالیاں بجاتا ہے۔ کوئی باعزت شخص ایسے اداکار سے ملنا بھی گوارا نہ کرے ۔ ایسے اداکار کو دعوت دینا بدترین احساسِ کمتری نہیں تو اور کیا ہے؟واپسی پر’’شتابی‘‘ نام کی ایک تیز رفتار ٹرین کے ذریعے دہلی سے امرتسر کا سفرکیا، انڈیا کی ریلوے سروس بہت بہتر ہوگئی ہے۔ ٹرین کی اَپر کلاس اچھی تھی لیکن ہماری (اچھے وقتوں والی) ریل کار کے مقابلے میں شتابی بہت پیچھے تھی۔ مگر شتابی دیکھ کر اپنی ریلوے کی خرابی دور ہونے کی بیتابی بڑھ گئی ہے۔
تازہ ترین