• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امر جلیل سندھ اور ملک کے نڈر و قلندر لکھاری ہیں جن کی تحریریں نہ فقط ہر دور کے حاکم کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی ہیں لیکن وہ پیر،میر ، وڈیروں، کٹھ ملائوں کے حلق اور دلوں میں بھی کھٹکتی رہی ہیں پھر وہ کالم ہو کہ تحریریں یا تقریریں وہ پاکستان جیسے سنسر شدہ معاشرے میں جہاں لوگ دیواروں سے باتیں کرتے ہوئے بھی خوف کرتے ہیں کہ وہاں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، ایسے ملک و معاشرے میں امر جلیل تحریر و تقریر کی آزادی کے چند انسانی مجسموں میں ایک دیو قامت مجسمہ ہیں۔ وہ ہیں بھی دیو قامت رائٹر کہ جن کو ایک نسل نے اپنی تحریروں کی وجہ سے دیوتا مانا ہے۔ بقول شخصے وہ دنیائے ادب و صحافت میں ایک ایسے قلندر ہیں کہ وہ اس گلی میں دھمال ڈالتے ہیں جہاں بڑوں بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ وہ بلا کسی پروا، لالچ و خوف سے لکھتے ہیں۔ وہ سچ اور جھوٹ کی سرحد پر اکیلے کھڑے سپاہی ہیں قلم سے مسلح۔ میرے سمیت کئی نسلیں ان کی تحریریں پڑھ کر بڑی، جوان اور بوڑھی ہوئی ہیں۔
وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور ان کی پہلی سندھی کہانی’’اندرا‘‘ تھی جو انیس سو پچاس کے عشرے میں نوابشاہ سے ایک رسالے ’’ادا‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے پس منظر میں ایک مسلمان نوجوان کی کہانی جو ایک ہندو لڑکی سے عشق کرتا ہے جسے اپنی دھرتی چھوڑ کر جانا تھا۔روہڑی میں پیدا ہونے والے عبدالجلیل قاضی ادب اور میڈیا کی دنیا میں امر جلیل کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ روہڑی جو کہ صرف اپنے اسٹیشن اور محرموں کے ساتھ ساتھ بیدل اور بیکس جیسے صوفیوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ امر جلیل کا خمیر و ضمیر ان صوفیوں کی مٹی سے اٹھا ہے، بیدل بیکس اور سچل سرمست ’’کوئی کافر کہے کوئی مومن کہے میں جوئی ہوں سو وہی ہوں‘‘۔ میں نے بچپن میں امر جلیل کی کہانی ’’تاریخ کا کفن‘‘ پڑھی تھی جس میں عیدگاہ میں عید کی نماز کے موقع پر ایک شخص پروٹوکول اور سیکورٹی کے حصار کو پھلانگ کر اگلی صف میں کھڑے ہوئے وی وی آئی پی کی طرف بڑھتا جاتا ہے ۔سیکورٹی والے اسے روک لیتے ہیں۔ وہ سیکورٹی والوں سے کہتا ہے مجھے کیوں روکا ہے مجھے جانے دو، میں اگلی صف میں کھڑے ہوکر وی وی وی آئی پی صاحب کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں ۔ میرا نام ایازہے" وہ ایوب خان کی آمریت کے آخری سال تھے۔ منہنجو پٹ مہدی (میر پٹ مہدی)، اروڑ جو مست (اروڑ کا مست) ، سچل سر مست ان ٹربل، اور سرد لاش کا سفر امر جلیل کے کئی شاہکار افسانوں میں سے ہیں۔ جب انہوں نے سرد لاش کا سفر افسانہ لکھا تھا تو شائع ہونے سے پہلے انہوں نے وہ افسانہ اپنے دوست ادیب قاضی خادم کو پڑھنے کو بھیجا تھا۔ قاضی خادم نے امر جلیل سے کہا تھا کہ سرد لاش کا سفر ایسا افسانہ ہے جس سے نہ صرف افسانہ نگار جیل جائے گا بلکہ اس افسانے کو پڑھنے والے کو بھی جیل ہو سکتی ہے۔ افسانہ سرد لاش کا سفر سندھ کے شہر کندھ کوٹ میں ہندوئوں کی املاک اور عبادت گاہوں پر حملوں کے واقعے کے پس منظر میں تھا۔ سندھ کے ہندو کے سندھ اور پاک وطن کے شب و روز آج بھی وہی ہیں اور امر جلیل ہر دور کے ماتم کے مصنف بھی ہیں تو عزادار بھی۔ان کا افسانہ سردلاش جو سفر جریدے سوہنی میں شائع ہونے کے بعد جریدے پر پابندی لگی۔ جریدے کے مدیر طارق اشرف کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ امر جلیل کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ وہ سندھ سے تا عمر اسلام آباد بدر کردیئے گئے تھے۔ یہ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا امر جلیل تب ان کی پارٹی کے روزنامے ہلال پاکستان میں کالم لکھتے تھے لیکن وہ سب سے خطرناک ترین کالم نگار تھے۔امر جلیل اگر لکھاری نہ ہوتے تو وہ اگر سندھیوں اور بلوچوں کو پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں اٹھایا ہوا ہوتا تو وہ اپنے دور کے قومی کرکٹ ہیرو ہوتے۔ وہ اپنے کراچی یونیورسٹی کے زمانے میں یونیورسٹی الیون کے مشاق کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ اپنے افسانے اروڑ جو مست میں امر جلیل لکھتے ہیں کہ سندھ میں آدمی ڈاکو بنے یا کرامات و بددعائوں کا صاحب پیر دونوں کاموں میں ایک ہی طرح کے فائدے ہیں لیکن ڈاکو کے کام میں پھر بھی پولیس کا خوف مانع آتا ہے لیکن پیر بننے میں تو بغیر کسی پولیس کے خوف و خطر کے سادہ لوح لوگوں کو لوٹا جا سکتا ہے۔
وہ کراچی میں قاسو ادھاری سے لیکر ٹپی گپی تک ولن کو ولن لکھتے رہے ہیں۔ ولن کو ہیرو نہیں لکھا۔ وہ دیو مالائی کہانیاں بنتے نہیں پہلے سے موجود دیومالائی قصوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں کیونکہ تاریخ کرامات و دیومالا کا نام نہیں۔ اب سندھ کے طاقتور پیروں کے مرید ان کی دیومالائوں کے ایسے پوسٹ مارٹم پر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ صحرائی بھیڑیئے ان کے خون کے پیاسے ہیں۔ جلسے جلوس ان کے خلاف نکالے جا رہے ہیں۔ سندھ کی ایک مخصوص جماعت کے پٹی والی شہروں میں ہڑتالیں نہیں ہٹ تاڑ ہے یعنی زبردستی کاروبار بند کرایا جانا۔ امر جلیل کے پتلے جلائے جار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کن جلوسوں میں ان کا سر قلم کرنے اور زبان کاٹنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ کون کہتا ہے کہ سندھی طالبان نہیں ہوتے؟ ان پیروں کے مرید پیر کے نام پر کسی کا بھی سر قلم کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ پیر کی طرف سے لڑکیوں کو تعلیم دینے یا پڑوسیوں سے اچھا چلنے کی تلقین ان کو اچھی نہیں لگتی جتنی وہ ان کو پیر کی طرف سے کسی کا سر قلم کردینے کے حکم کی توقع کرتے ہیں۔امر جلیل نے کہیں بس اتنا کہا کہ انگریزوں کے زمانے میں چلنے والی طاقتور پیروں کے مریدوں کی کوئی سیاسی تحریک نہیں تھی بلکہ مبینہ دہشت گرد تحریک تھی۔ امر جلیل نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ مسافروں سے بھری ریلیں گرانا، پلیں اڑانا، سرکاری و غیرسرکاری عمارات کو اڑانا۔ غیر مسلح سویلین غیر مرید آبادی کو دہشت زدہ رکھنا دشت گردی نہیں تو کیا تھا۔ گاندھی باچا خان اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا راستہ تو نہیں تھا پیر صاحب کے مریدوں کا! کوئی آزادی کی جنگ بھی نہیں تھی۔ اگرچہ بھائی لوگ اسے گوریلا جنگ کہتے ہیں۔ ان پیروں کے مرید اسے چاہے گوریلا جنگ کہیں بھی تو کیا آج کی مہذب دنیا اسے غیردہشت گرد یا عدم تشدد کا طریقہ مانے گی؟ یہ اور بات ہے کہ پیروں کے مریدگان میں جرائم پیشہ گروہوں کے جرائم کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ لوگوں اور حروں کو ایک ایسی ریاستی دہشت گردی سے گزرنا پڑا کہ برطانیہ نے جلیانوالا باغ پر معافی مانگی لیکن معصوم حروں سے نہیں۔ پیروں کی تو سات پشتوں نے مزے لوٹے۔
انگریز برصغیر سے بستر گول کر گئے۔ آزاد ملک قائم ہوا لیکن پائوں ننگے ہیں اب بھی مریدوں کے۔ تھر میں کئی درجن بچے مرگئے لیکن کیا سندھ اور سرائیکی بیلٹ سے تھر کے لوگوں کے تینوں مرشدوں اور ملتان کے مخدوموں میں سے کسی ایک نے بھی تھر میں ان کی خبر گیری کرنے کو رخ کیا؟ جبکہ تھر کے سادح لوح خوش عقیدہ و توہم پرست لوگوں کی فروخت کی ہوئی بھیڑوں بکریوں اور ان کی مائوں بہنوں کے گہنوں کی فروخت سے نذرانوں کے پیسے پیر صاحبان گھوڑوں کے ریس کورس اور دبئی میں مجروں میں اڑاتے ہیں پھر یہ بھی کہ پیر صاحبان سیاست میں بھی ہوں بھٹو کی پھانسی سے لیکر بھٹو کے نام پر حکومتوں کے مزے لوٹنے تک شریک ہوں۔ وزرائے اعظم لیز پر بھی دیتے ہوں اور وزرائے اعظم کی پھانسی میں بھی شریک ہوں اور ان پر آزاد میڈیا کے زمانے میں مکھی بھی نہ بیٹھے، یہ کیسے ممکن ہے تم ہی کہو!
سانگھڑ کے فقیر محمد الرحیم مہر۔ ایک مقامی ہفت روزہ کے مدیر تھے۔ انہوں نے ایک پیر کے خلاف کئی اداریئے اور مضمون لکھےوہ پیر جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خاص نمائندے رہے اور پھر محمد رحیم مہر قتل کردیئے گئے۔ میں نے پچھلے دن پیر کے مرید سے پوچھا کہ فقیر محمد رحیم مہر کو کس نے قتل کیا "پیر صاحب کے مریدوں نے" اس نے کہا " جی ہاں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اسے پر لگ گئے تھے۔ اس نے سمجھا تھا کہ بس ابھی عوامی انقلاب آیا ہی چاہتا ہے۔ پیر میر وڈیرے ختم ہونے والے ہیں۔جب بھٹو سانگھڑ آیا تو اس نے انہیں اپنا اخبارالفقراء پیش کیا " پڑھے لکھے مرید نے کہا۔ اے پیروں ، میروں، فقیروں وڈیروں کے سندھ میں ایسے انقلاب نہیں آ سکتا۔ یہ تو خیر مرید ہیں۔ حجروں درگاہوں اور درباروں کو باپ دادا سے دان کئے ہوئے شاہ دولا کے چوہے تاریخ کے حوالے کہاں سنتے ہیں۔ یہاں تو سیاسی کارکنان تک شاہ دولا کے چوہے ہوتے ہیں۔ پیروں میروں وڈیروں کے سسٹم کو خیرآباد کہے بنا سندھ، سرائیکی وسیب و ملک کا آباد ہونا نا ممکن ہے۔
تازہ ترین