گزشتہ دنوں پشاور میں رحمت اللعالمینﷺ کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں افغان قونصل جنرل اور اُن کے نائب کے کھڑے نہ ہونے کے واقعہ نے ہر پاکستانی کو حیرت زدہ اور دکھی کردیا۔ اس تقریب ،جس کے مہمان خصوصی وزیراعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈاپور تھے، کے آغاز پر جب قومی ترانہ شروع ہوا تو تمام شرکاء کھڑے ہوگئے لیکن افغان قونصل جنرل محب اللہ شاکر اور ان کے نائب احتراماً کھڑے نہ ہوئے اور اپنی نشست پر براجمان رہے۔ دفتر خارجہ نے قومی ترانے کی توہین پر افغان ناظم الامور کو طلب کرکے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا جس کے بعد افغان قونصلیٹ کی جانب سے یہ جواز پیش کیا گیا کہ مذہب اسلام میں میوزک حرام ہے، پاکستان کے ترانے میں میوزک کی وجہ سے افغان قونصل جنرل احتراماً کھڑے نہیں ہوئے تاہم دفتر خارجہ نے افغان قونصل خانے کے ترجمان کی وضاحت کو یکسر مسترد کردیا۔ قومی ترانے کی توہین اور بے توقیری کی یہ ویڈیو جیسے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، ہر پاکستانی کو غم و غصے سے دوچار کر گئی اور مشتعل سوشل میڈیا صارفین نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ تقریب میں شریک ہونے کے باوجود تماشائی بن کر سب کچھ دیکھتے رہے اور افغان قونصل جنرل سے ترانے کے احترام میں کھڑے ہونے یا ہال سے باہر چلے جانے کا کہنے کی جرات تک نہ کر سکے۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ امین گنڈاپور نے افغان قونصل جنرل کے اس اقدام کی مذمت کرنے کے بجائے وضاحت پیش کی کہ افغان قونصل جنرل میوزک کی وجہ سے ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہوئے۔ قومی ترانے کی توہین پر سب سے سخت ردعمل گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی جانب سے سامنے آیا جنہوں نے افغانستان سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرے کسی پروگرام میں یہ واقعہ پیش آتا تو میں سفارتکار کو قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہونے کا کہتا اور بصورت دیگر تقریب سے نکل جانے کی ہدایت کرتا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ملک کا سفارتکار پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑا نہیں ہوا حالانکہ دشمن ملک بھارت کے سفارتکار نے بھی کبھی اس طرح کی جرات نہیں کی۔ افغان قونصل جنرل کا پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑا نہ ہونا سراسر سفارتی آداب کی خلاف ورزی اور ان کے دل میں چھپی پاکستان سے نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ افغان قونصلیٹ کا یہ موقف کہ ترانے میں میوزک کی وجہ سے افغان قونصل جنرل کھڑے نہیں ہوئے، غیر منطقی اور بلاجواز ہے کیونکہ دنیا کے ہر ملک کے قومی ترانے میں میوزک شامل ہوتا ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کے دو مقدس ترین مقامات کے ملک سعودی عرب جس کے پرچم پر کلمہ طیبہ تحریر ہے، کے قومی ترانے میں بھی میوزک شامل ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان میں پاکستان مخالف نفرت کے بیج جو بھارت نے ماضی میں بوئے تھے، آج تناور درخت بن چکے ہیں۔ میرے ایک دوست، جو افغانستان میں کئی سال تک سفارتی خدمات انجام دے چکے ہیں، نے ایک بار مجھے بتایا کہ میں نے افغانیوں میں جو نفرت پاکستان کے خلاف دیکھی ہے، وہ بھارت میں بھی نہیں دیکھی۔ یاد رہے کہ رواں سال جولائی میں درجنوں افغانیوں نے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے پر دھاوا بول کر پاکستانی پرچم اتار کر نذر آتش کرنے کی کوشش کی تھی تاہم جرمن پولیس کی بروقت آمد پر شرپسند افغانی، پاکستانی پرچم نذر آتش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی طرح 2022 میں ایشیاکپ کے سپر فور مرحلے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں افغان ٹیم کی بدترین شکست پر گرائونڈ میں موجود افغان شائقین نے پاکستانی شائقین کے خلاف نعرے بازی کی، ان پر بوتلیں پھینکیں اور اس پر بھی جب ان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو اسی رات کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں، جہاں افغانیوں کی بڑی تعداد مقیم ہے، سینکڑوں افغانیوں نے اپنے گھروں سے نکل کر پاکستان مخالف نعرے لگائے اور قومی پرچم کی بے حرمتی کی۔
افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی امید کی جارہی تھی اور یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہوگئی ہے مگر یہ خوش فہمی بہت جلد غلط فہمیوں میں بدل گئی۔ آج نہ صرف مغربی سرحد سب سے زیادہ غیر محفوظ سمجھی جارہی ہے بلکہ سرحد پار سے حملے بھی کئے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امریکہ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف عمل ہے جس میں انہیں طالبان حکومت کی اشیرباد حاصل ہے۔ افغان سفارتکار کا پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑا نہ ہونا سفارتی آداب سے انحراف ہے جس کے تحت کسی بھی ملک کا سفارتی عملہ اس ملک میں اپنی تعیناتی کے دوران میزبان ملک کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرتا ہے اور اس ملک کے قومی ترانے کا احترام بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ روایت ہے۔ کسی ملک کی خواہش پر قومی ترانے کو نہ تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی موسیقی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ افغان سفارتکاروں کو آئندہ کسی سرکاری تقریب میں مدعو نہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات پیش نہ آسکیں اور وہ سفارتکار جس نے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونے کی جسارت کی ہے، اسے واپس افغانستان بھیجا جائے تاکہ آئندہ کوئی سفارتکار،پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونے کی گستاخی نہ کر سکے۔