• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے بہت ہی من پسند لکھاری کرنل اشفاق حسین (شاید بعد میں بریگیڈیئر ریٹائر ہوئے) اپنی کتاب ’’جنٹلمین الحمدللہ‘‘میں لکھتے ہیں کہ جب فوج میں تھے توان کا تبادلہ سطح سمندرسے بہت اونچائی پرایک وادی میں ہوا اور اسی سال ان کے یونٹ کے لئے راشن پہنچنے سے پہلے ہی برف پڑی اور راستے بند ہوگئے اورساتھ ہی رمضان بھی شروع ہوگیا توانہوں نے میس منیجر کو طلب کرکے ان کے ساتھ میٹنگ شروع کی اورکہا کہ سب سے پہلے اسٹورمیں موجود سبزیوں اوردیگر سامان کی فہرست بنائی جائے تاکہ ایک ہی بار پورے مہینے کا مینو بنایا جاسکے ۔کہتے ہیں کہ میس منیجر جو ایک سیدھا سادا صوبیدار میجر تھا نے ان کوبتایا کہ اسٹاک میں صرف آلو، پیاز اوربیسن ہی ہے اللہ کا نام لیکر اشفاق صاحب نے کاغذ سنبھالا اور پہلے دن کا مینو بناناشروع کیا تواس بات پراتفاق ہوا کہ پہلی سحری کے لئے دستیاب سامان سے سالن بنایا جائے گااس کے بعد افطاری کی باری آئی تومیس منیجر نے کہا کہ افطاری کے لئے پکوڑے بنائے جائیں، اسی طرح دوسرے دن بھی افطاری کے لئے پکوڑوں ہی پر صاد کیا گیا لیکن تیسرے دن کا مینو بھی جب پکوڑوں پرہی آکر اڑا توکرنل صاحب نے کہا کہ پکوڑے کھاتے کھاتے توسپاہی بور ہو جائیں گے اس لئے چوتھے دن کچھ اور پکایا جائے جس پر میس منیجر نے بڑی معصومیت سے کہا کہ سرآپ کی بات بجا لیکن جب آلو، پیاز اوربیسن ہو تو اس سے صرف پکوڑے بن سکتے ہیں اور یہی وہ لمحہ تھا جب کرنل صاحب کو سمجھ آگئی کہ خواہشات تو بہت ساری ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ آپشنز بہت کم ہیں اور انہوں نے اگرکچھ بھی بنانا ہوتوان کے پاس ان تین چیزوں سے سوائے پکوڑوں کے اورکچھ بھی بنانے کا موقع نہیں۔ باقی مہینے کا مینو جوبھی بنااس کا جواب توکرنل اشفاق ہی دے سکتے ہیں لیکن ان کی اس کیفیت سے آج کل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان دوچار ہیں جو چاہتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بہتر حکومت چلائیں اور اگر ان کی حکومتی ٹیم ڈیلیورنہ کرسکے تو ہرتین یاچھ ماہ کی بنیاد پر ناکام وزیروں اورمشیروں کوبدل دیں لیکن اس فوجی یونٹ کے پکوڑوں والے کرنل اشفاق حسین اورعمران خان کے اسٹورمیں بھی لوازمات ایک جیسے ہیں کہ ان کے ہاں بھی برف پڑچکی ہے راستے بند ہوچکے ہیں یعنی جوبھی کرنا ہے انہی دستیاب منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے کرنا ہے جنہیں عوام نے تحریک انصاف کے نام پرووٹ دے کراسمبلیوں میں بھیج دیا ہے عمران خان اوران کے خاص معتمدین کی ٹیم حیران ،پریشان اور کسی حد تک مضطرب ہے کہ ڈیلیورنہ کرسکے توعوام کوکیا جواب دیں گے جوجواب مانگیں گے کہ ان کے مینڈیٹ کا کیا ہوا اوراگر کچھ کرنہیں سکتے تھے توحکومت کیوں سنبھالی اور دوسری صورت میں اگراپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے ٹیم بدلتے ہیں توکس کے بدلے کس کولائیں یعنی پیازکے بدلے کیا کچھ اوردستیاب بھی ہے یا نہیں جسے پکا کر منہ کا ذائقہ ٹھیک کیا جاسکے لیکن اب توشاید وہ دوسرے آپشن پرکم ہی عمل کریں گے کیونکہ صرف ایک بارہی ڈیلیورنہ کرنے پرحال ہی میں انہوں نے کابینہ میں جوتبدیلی کی اوراس پرخیبرپختونخوا کی اسمبلی میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اندر جو طوفان بپا ہوا اورجیسے مبینہ طور پربیس کے قریب ناراض ارکان نے اپنا گروپ بنایا اس سے ایک بات تو عمران خان اوران کے ساتھیوں کو سمجھ آگئی ہوگی کہ وہ پھرکبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے جس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ لوگ ان سے ناراض ہوجائیں گے بلکہ وجہ شاید یہ ہو کہ اب تو ان کے پاس ایسا کوئی نہیں بچا ہوگا جسے وہ آزما نہ چکے ہوں گے۔ ہمیں یاد ہے کہ صوبے میں حکومت بناتے وقت تحریک انصاف کی حکومت میں تمام منتخب ارکان کوجس طرح سے وزارتوں، مشاورتوں اور معاونتوں سے نوازا گیا اور جو بچ گئے ان کو پارلیمانی سیکرٹری بنایا گیا اس نے تو بلوچستان کی اس اسمبلی کی یاد تازہ کردی جس کے تمام کے تمام اراکین کوراضی رکھنے کے لئے وزیربنایاگیا تھااوراس پوری اسمبلی میں جمہوریت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اپوزیشن کرنے کوایک ایم پی اے بھی نہیں مل رہا تھا۔
خیبرپختونخوا کے ناراض اراکان کومناتے وقت عمران خان کی یہ دھمکی کہ وہ ان ارکان اسمبلی کو راضی رکھنے کے لئے ان کووزارت دینے کے بجائے اسمبلی تحلیل کرنے کوترجیح دیں گے سے ،ایک بات توکافی حد تک عیاں ہوچکی ہے کہ وہ خود اوران کے اردگرد موجود ان کا تھنک ٹینک یہ جان گیا ہے کہ اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے ہاتھ عوام کے منتخب کردہ جو لوگ ارکان اسمبلی کی صورت چڑھے ہیں ان کی تو استعداد ہی شاید اتنی نہیں جتنی عمران خان کو اپنی ٹیم سے توقع ہے کہاں یہ مقامی سیاست میں پل کر آنے والے منتخب لوگ اورکہاں ترقی یافتہ دنیا میں پروان چڑھنے والے عمران خان جن کے دماغ میں ریاست اورحکومت کا جوخاکہ بھی بناوہ ترقی یافتہ ملکوں کے معیار کا ہے اوروہ خیبرپختونخوا سے نتائج بھی وہی چاہتے ہیں جوان کے ذہن میں ہے وہ جب منصوبہ بناتے ہیں کرپشن سے پاک صوبے کا تو یورپ اوردنیا بھرکے ترقی یافتہ ممالک کوذہن میں رکھتے ہیں لیکن جب اس منصوبے پرعمل کے لئے اپنی ٹیم کے پاس آتے ہیں توانہیں احساس ہوتا ہے کہ ان میں توبہت سارے ایسے ہیں جوان کے طویل المیعاد منصوبوں کی افادیت کے بجائے آج کی وزارت اورمشاورت کے حصول میں پارٹی کے منشور کی تکمیل دیکھتے ہیں اور جب یہ کچھ نہیں ملتاتوپارٹی کا بائیکاٹ کرکے فارورڈ بلاک بناتے ہیں۔
عمران خان کی ٹیم کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے قلیل المدت اقدامات کے بجائے مسائل کے مستقل حل کے خواہاں ہیں اور نظام میں ایسی تبدیلی لائیں گے کہ لوگوں کو کسی کے پاس نہیں جانا پڑے گابلکہ نظام خود ان کے پاس چل کے آئے گااورہرکسی کواس کا حق اس کی دہلیز پر ملے گا لیکن انہیں شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ لوگوں کواب بڑی جلدی ہے گرمی ان کے سرپرآگئی ہے جس میں وہ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں، مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ لوگ اسکولوں کے مسلسل مہنگے ترہوتے یونیفارم اورکتابیں خریدنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے اس بات پرمجبورہیں کہ پڑھنے کے قابل بچوں میں سے کچھ کو پڑھالیں اورکچھ کوگھربٹھالیں۔مذاکرات کے دوران جنگ بندی کے باعث کسی حد تک پرامن ماحول کو وہ دوام پاتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ صوبے کے وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ لوگ ان سے مسائل کے فوری حل کی توقع نہ رکھیں، اب انہیں کون بتائے کہ عوام تو شاید صبرکرلیں لیکن جب وزیراعلیٰ کے اپنےارکان اسمبلی ہی ان کی کسی یقین دہانی پرمطمئن ہونے کو تیارنہیں اور گھر کی ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوڑ رہے ہوں تولوگوں سے کیا گلہ۔
قصہ مختصراس وقت تحریک انصاف کواپنی بوئی جوفصل کاٹنی پڑرہی ہے وہ ان کے عام انتخابات سے قبل ٹکٹوں کی تقسیم کے نتیجے میں تیارہوئی ہے جس کے دوران کسی حد تک قابل اعتراض اورجلدبازی میں ٹکٹ جاری کئے گئے۔ کس کوپتہ نہیں کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ کیسے بانٹے گئے اورراتوں رات امیدوار بدلے گئے، کیسے جاری کئے گئے اپنے ہی ٹکٹوں سے لوگوں کواچانک محروم کیا گیااورپارٹی کے معروف چہروں کے بجائے کیسے غیرشناسا لوگوں کوآگے لایا گیااب جب وہ یہ سب کچھ کررہے ہیں اورگھرکی ہانڈی کومیڈیا کے کیمروں اورمائیکوں کے سامنے پھوڑرہے ہیں توعمران خان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ٹکٹوں کے اجرا کے ذمہ داروں کو ڈھونڈیں اور نہ صرف مستقبل کے لئے ابھی سے ایسے ماہرین اور ڈسپلن کے پابند لوگوں کو شارٹ لسٹ کریں جو فیصلوں کے خلاف گروپ بندیاں نہ کریں اور ساتھ ہی صوبے میں معاونین کی نشستوں پر غیرسرکاری لوگوں میں سے ماہرین کی خدمات حاصل کریں ۔ ساتھ ہی ان کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ خیبرپختونخوا میں بہت کم ہی کسی پارٹی کودوبارہ ووٹ ملتا ہے، اس لئے عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جوبھی کرنا ہے اسی باری میں کرنا ہوگا۔
تازہ ترین