• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان حکومت مذاکرات اب حتمی اور آخری مرحلے کی طرف جا رہے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ اگلے تین سے چار دنوں میں کوئی ایسی صورت سامنے آ سکتی ہے جس سے واضح طور پر یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ مذاکراتی عمل کہاں پر کھڑا ہے؟ یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو تمام ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مذاکرات کا جو مینڈیٹ دیا تھا اسکے بعد وزیر اعظم کی طرف سے مذاکرات کیلئے جس سنجیدگی کا اظہار کیا گیا وہ کوئی مخفی بات نہیں ہے ۔ وزیر اعظم کی طرف سے عرفان صدیقی اور مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولا اور اس کے نتیجے میں جو جنگ بندی ہوئی اس سے مذاکراتی عمل کو تقویت ملی۔ اگرچہ اس دوران بعض واقعات کی وجہ سے اس مذاکراتی عمل کو بعض حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیالیکن وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کی حکومت نے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے میں ہی بہتری سمجھی۔ طالبان رہنمائوں اور حکومتی کمیٹی کے اراکین کی ملاقات کے بعد پہلا مرحلہ ان غیر جنگی قیدیوں کی رہائی اور پیس زون قائم کرنے کا ہے جس کی وجہ سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہوتا چلا جا رہاہے اگرچہ 19 لوگوں کو رہا کیا گیا ہے لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ ان کی فہرست سے ان رہا ہونے والوں کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ طالبان کے اس اعلان کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے فہرست میں شامل 12 سے 13 لوگوں کو رہا کرنے کا کہا گیا ہے اور طالبانی کمیٹی کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ جب وہ مذاکرات کیلئے دوبارہ بیٹھیں گے تو اس سے پہلے ان رہا کیے جانیوالے لوگوں کی فہرست دے دی جائے گی۔ طالبانی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق اگرچہ مذاکراتی عمل کی مکمل کامیابی کیلئے پر امید ہیں لیکن اب کچھ ایسے سوالات اٹھتے رہے ہیں کہ جن کے بعد اس مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے میں کافی دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیںاور ان دشواریوں میں سب سے پہلے قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ہے ۔کیونکہ اگر حکومت 12 سے 13 قیدی رہا کرتی ہے تو ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کو بھی طالبان رہا کریں۔ جہاں تک پروفیسر ڈاکٹر اجمل ملک کا تعلق ہے تو ان کی رہائی کے معاملے میں کافی پیش رفت نظر آتی ہے لیکن یہ بات ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ قبول کرتا ہوا نظر نہیں آتا کہ طالبان کے قیدی تو رہا کیے جائیں اور طالبان کے پاس موجود مغوی رہا نہ ہوں۔معتبر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے سلمان تاثیرکے بیٹے شہباز تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے حیدر گیلانی کی رہائی کے معاملے میں اگر اصرار کیا گیا تو ایک بار پھر مذاکراتی عمل متاثر ہو گا۔ موجودہ صورتحال میں بعض ذرائع تو یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ طالبان کے بعض گروپوں کیلئے مذاکرات کی اہمیت وہ نہیں رہی جو آج سے دو ماہ پہلے تھی کیونکہ طالبان افغان الیکشن کو دیکھنا چاہتے تھے اور اب افغان الیکشن کے بعد طالبان کو افغان طالبان کی افغانستان کے حوالے سے بنائی جانے والی پالیسی کو فالو کرنا ہو گااور اسی تناظر میں پاکستان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو گا۔لیکن ان تمام تفصیلات کے باوجود یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ پیس زون اور قیدیوں کی رہائی کا معاملہ مذاکرات میں تعطل پیدا کرے گا اور وزیر اعظم پاکستان اور طالبان کے بعض مرکزی قائدین کی خواہشات کے باوجود ممکن ہے مذاکراتی عمل سے سو فیصد نتائج تو حاصل نہ ہو سکیں لیکن کچھ مثبت نتائج ضرور حاصل ہو جائینگے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کی فوج اور حساس ادارے قیدیوں کی رہائی کے مسئلے میں اپنے تحفظات رکھتے ہیں تو یہ بات قبل از وقت ہے کیونکہ مذاکراتی عمل کے شروع کرنے سے قبل اور مذاکراتی عمل کے دوران پاکستان کی فوج اور حساس اداروں نے مذاکراتی عمل کی مکمل تائید کی ہے ۔ جہاں تک قیدیوں پر تحفظات کا معاملہ ہے تو ممکن ہے 670 قیدیوں کی فہرست میں سے کچھ قیدیوں کے بارے میں ان اداروں کی رائے منفی ہو لیکن ابھی مذاکرات اس مرحلے میں داخل نہیں ہوئے جہاں پر رہا نہ کرنے والوں کے ناموں کا اعلان کیا جائے گا۔اگر وزیر داخلہ نے 12سے 13قیدیوں کی رہائی کی بات کی ہے تو وہ وزیر اعظم ، حساس اداروں اور فوج کے علم میں لا کر ہی کی گئی ہے۔لیکن اب مسئلہ دوسری طرف ہے کہ وہاں سے کیا جواب ملتا ہے ۔ جنگ بندی کی توسیع کا معاملہ بھی اس وقت درپیش ہے اگرچہ طالبانی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا یہ کہنا ہے کہ ان کی آخری حد تک کوشش ہے کہ مستقل طور پر جنگ بندی ہو جائے لیکن مولانا سمیع الحق کی اس خواہش کی تکمیل فی الوقت نظر نہیں آتی کیونکہ بعض طالبان گروپ جنگ بندی میں توسیع کی مخالفت کر رہے ہیں اور اگر پیس زون قائم نہیں ہوتا اور طالبان کی طرف سے دی گئی فہرست کے مطابق قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا تو پھر جنگ بندی میں توسیع ناممکن نظر آتی ہے اور اگر طالبان جنگ بندی میں توسیع نہیں کرتے تو پھر حکومت پر دبائو بڑھے گا کہ وہ مذاکراتی عمل کو چھوڑ کر آپریشن کی طرف توجہ دے لیکن میاں نواز شریف اور ان کی حکومت آپریشن کی بجائے مذاکرات سے معاملہ حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور طالبان کو بھی مذاکراتی عمل کو تقویت دینے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
تازہ ترین