• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نسبتاً پُرامن صدارتی الیکشن اور رائے دہندگان کی غیرمتوقع بلند شرح کئی منتقلیوں کا ایک پُرامید آغاز ہے جن سے افغانستان کو رواں برس گزرنا ہوگا۔ انتخابی عمل میں آئندہ کیا ہوگا اور کیسے دیگر منتقلیاں آگے چل کر ملک کے مستقبل کے لئے مزید نتیجہ خیز ہوں گی۔ پولنگ کا معقول حد تک پُرسکون دن ایک بتدریج واضح ہوتی سیاسی تبدیلی کا پہلا اقدام تھا جس نے خود کو مکمل طور پر عیاں کرنا ہے۔ الیکشن پر حتمی فیصلے کا پورے عمل کی تکمیل تک انتظار کرنا ہو گا۔ مزید برآں ایک کامیاب سیاسی انتقال اقتدار میں صدارتی الیکشن سے بڑھ کر کچھ شامل ہوتا ہے اگرچہ تعمیر کے لئے وہ ایک اچھی بنیاد ہے۔پانچ اپریل کے انتخابات کے شفاف رواں انعقاد اور 2009ء کے غیر شفاف صدارتی الیکشن کے آلودہ نتیجے کا بڑے پیمانے پر تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ زیادہ تر مبصرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حالیہ الیکشن توقع سے زیادہ بہتر رہے ہیں لیکن احتیاط کا دامن پھر بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹا ہے کیونکہ اس عمل کو ایک بالکل صاف ستھری مشق قرار دینے تک کئی رکاوٹیں عبور ہونا باقی ہیں۔ تازہ اشارے اس بات کے ہیں کہ الیکشن کے دوسرے دور کا انعقاد قریباً یقینی اور 28 مئی کو متوقع ہے۔ مکمل پارلیمانی نتائج کا اعلان 24 اپریل کو ہوگا۔ گنتی مکمل ہونے کے بعد پولنگ اسٹاف کو بیلٹ فراڈ کے الزامات کا جائزہ لینے میں کئی ہفتے لگیں گے جو تینوں سرکردہ صدارتی امیدواروں کی جانب سے لگائے گئے ہیں۔ جب ان شکایات کی اطمینان بخش تحقیقات ہو جائے گی تو ممکنہ طور پر 14 مئی کو باضابطہ نتائج کا اعلان ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی بھی امیدوار 50 فیصد سے زائد ووٹ نہ حاصل کرسکا تو رائے شماری کا دوسرا مرحلہ منعقد ہوگا۔
ابتدائی پارلیمانی نتائج کے مطابق ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پہلے اور اشرف غنی دوسرے نمبر پر ہیں۔ جب کہ زلمے رسول جو کہ صدر حامد کرزئی کا ترجیحی انتخاب ہونے کے حوالے سے مشہور ہیں، دونوں امیدواروں سے کافی پیچھے ہیں لیکن جیسے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جان کیوبس نے درست نشاندہی کی ہے کہ جب تک آزاد الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی نتائج کا اعلان نہیں کیا جاتا، فریقین کو قبل از وقت نتائج نکالنے میں محتاط رہنا چاہئے اور نہ ہی غلط توقعات وابستہ کرنی چاہئیں۔
لیکن کم از کم ابتدائی اشاروں سے ایک عارضی نتیجے پر تو پہنچا جاسکتا ہے کہ کرزئی کے پسندیدہ امیدوار کی الیکشن میں کارکردگی بری رہی۔ اگرچہ کرزئی نے دونوں صف اول کے امیدواروں سے بھی بنا کر رکھی ہے لیکن یہ بات بالکل واضح تھی کہ سابق وزیر خارجہ زلمے رسول ان کے ترجیحی امیدوار تھے۔ اس حوالے سے الیکشن کو کرزئی اور ان کی پالیسیوں کے رد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس سے رائے دہندگان کی ان کے متلون مزاج اور ناخوشگوار دور کو پیچھے چھوڑنے کی خواہش کا پتہ چلتا ہے۔
تاہم جب انتخابی عمل مکمل ہوجائے گا تو کلیدی امیدواروں اور رائے دہندگان کی جانب سے نتائج کو جائز تسلیم کئے جانے کا فوری چیلنج درپیش ہوگا۔ نمایاں انتخابی دھاندلیوں کے ثبوت یقیناً الیکشن کی ساکھ کو متاثر کریں گے۔ اگر دھاندلیوں کا تناسب کامیابی کے تناسب سے بڑھ گیا تو سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر نتائج کو صاف شفاف تسلیم کرلیا جاتا ہے تو یہ منظر نامے کا سب سے بہترین پہلو ہوگا جس میں ایک اہم سب سے پہلی رکاوٹ دور ہو جائے گی لیکن ایک غیر متنازع صدارتی الیکشن کا نتیجہ لازماً ایک کامیاب سیاسی انتقال اقتدار ہونا چاہئے۔ سیاسی انتقال اقتدار کے لئے ایک سنجیدہ بین الافغان مکالمہ بھی ضروری ہے۔ جو مختلف فریقوں اور مسلح حزب مخالف طالبان کے درمیان سیاسی گنجائش پیدا کرے اور دسمبر 2014ء سے پہلے لڑائی کا خاتمہ کرنے میں مدد کرے۔ اب چونکہ نئے صدر کے جولائی تک منصب پر فائز ہونے کا امکان نہیں تو اس نے نیٹو کے فوجی انخلاء کی حتمی مدت سے قبل سیاسی تصفیے اور مصالحت کی جانب مذاکرات میں پیشرفت کی معمولی گنجائش چھوڑی ہے۔ بہرحال ایک معتبر الیکشن کے بعد آنے والی نئی حکومت بلاشبہ امن عمل کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا نیا موقع فراہم کرے گی جسے ہاتھوں ہاتھ لینا ہو گا۔ طالبان نے کرزئی انتظامیہ سے بات کرنے سے ہمیشہ انکار کیا ہے لیکن کرزئی کی سبکدوشی اور الیکشن میں خلل ڈالنے میں ناکامی کے بعد طالبان کے تخمینوں میں ہوتی ممکنہ تبدیلی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کابل میں نئی حکومت کے تحت امن مذاکرات شروع ہونے کے امکانات بہتر رہیں گے۔ امریکہ کے لئے امن عمل ایک فوری ترجیح نہیں ہے۔ اس نے نئی حکومت کے ساتھ دوطرفہ سیکورٹی معاہدہ(بی ایس اے) کرنے پر نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ دونوں سرکردہ امیدواروں نے معاہدے پر دستخط کرنے کا عزم کیا ہے۔ یہ معاہدہ 2014ء کے بعد ملک میں امریکہ کو محدود اور بچی کھچی فوجی موجودگی رکھنے کی اجازت دے گا لیکن امریکہ کو بی ایس اے پر توجہ سے امن مذاکرات کی حوصلہ افزائی اور اسے سہولت دینے سے نہیں رکنا چاہئے کیونکہ یہ سیاسی حرکیات ہیں جو دسمبر 2014ء میں ایک باترتیب سیکورٹی منتقلی کے لئے معاون ماحول بنائیں گی جب تمام نیٹو لڑاکا دستوں کو افغانستان سے نکلنا ہوگا۔ اس حوالے سے مزید تاخیر 2014ء کے بعد افغانستان کے امن و استحکام کے مفاد میں نہیں ہو گی۔
افغانستان کے استحکام کو خطرے میں ڈالنے والے پرتشدد تعطل کو روکنے کی کوششیں ملک کے مستقبل کے لئے نہایت اہم ہوں گی۔ ایک ہنگامہ خیز تعطل اس صورت حال سے پیدا ہوسکتا ہے جس میں حکومتی فورسز چاہے وہ نئی سیاسی انتظامیہ کے تحت ہی کیوں نہ ہوں پورے ملک پر عملداری قائم کرنے میں ناکام رہیں اور طالبان بھی اپنے موجودہ زیر کنٹرول علاقوں میں توسیع نہ کر سکیں۔ ایسے منظرنامے میں تشدد جاری رہے گا جس سے ملک کے حاصل کردہ فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے مستقبل کا استحکام اور خطے کی سلامتی بھی خطرے میں پڑجائے گی۔
ایک بار جب انتخابی عمل نمٹ جائے تو اس انجام سے بچنے کی خاطر سنجیدہ بین الافغان مکالمہ شروع کرنے کے لئے ایک فیصلہ کن کوشش ضروری ہے جسے تمام فریقین بشمول امریکہ، پاکستان اور ایران کی حمایت حاصل ہو۔
پاکستان اپنی سلامتی کو لاحق عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نبردآزما ہے۔ اس کا خصوصاً بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ افغانستان میں مزید لڑائی عسکریت پسندی کو قابو کرنے کی اس کی اپنی کوششوں کو رائیگاں کرے گی۔ اسی لئے اسلام آباد نے ہمیشہ سنجیدہ افغان امن مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے جن میں طالبان کو شامل کیا جائے اور ایسے معاملات پیدا کئے جائیں جن سے جنگ کا خاتمہ ہوسکے۔ مغربی فوج کے مہیب انخلاء کو اپنی فوجی مہم میں اضافے اور لڑائی جاری رکھنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھنے والے طالبان رہنماؤں کی ترغیب کو کم یا ختم کرنے کے لئے افغانستان کے مستقبل سے متعلق بات چیت میں شامل ہونے میں ان کی حوصلہ افزائی اور انہیں بہلانا پھسلانا ہوگا۔اس طرح کا امن عمل شروع کرنے سے سیکورٹی منتقلی کا عمل پُرامن طور پر آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ چاہے نیٹو فورسز رواں سال کے اواخر میں انخلا کر لیں اور آنے والے سالوں میں افغان سیکورٹی فورسز کی صلاحیت و لچک کا حقیقتاً امتحان بھی لے لیا جائے۔
2014ء کے بعد افغانستان میں استحکام کے آثار بھی آگے آنے والی چوتھی منتقلی پر منحصر ہوں گے یعنی ملک کی حمایت میں اور خطے میں کھیل کے قواعد پر علاقائی اتفاق رائے پیدا کرنا۔ چین اگست میں قلبِ ایشیا(ہارٹ آف ایشیا) سلسلے کے اگلے اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ اس کا افغانستان اور اس سے متصل وسیع پڑوس میں ترقی اور سلامتی کی خاطر علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور تیز کرنے کے لئے تین سال قبل استنبول میں آغاز ہوا تھا۔ اس کا انعقاد ہونے تک افغانستان میں سیاسی منتقلی کی رفتار مکمل واضح ہو چکی ہوگی پھر افغانستان پر علاقائی اتفاق رائے کو مضبوط بنانے کی جانب پیشرفت کے لئے ایک موقع میسر ہوگا۔ اس کے لیے اعلانات سے آگے بڑھ کر عمل کی طرف آنے کی ضرورت ہے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ تمام فریق یکساں قوانین سے کھیلیں اور ایسی مسابقتی سیکورٹی حکمت عملیوں کو ترک کریں جن کا مقصد کسی بھی سیکورٹی خلاء سے فائدہ اٹھانا ہے جو دسمبر 2014ء کے بعد ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔اس سے قبل کہ اس پُرامید مقام تک پہنچا جاسکے، متعدد رکاوٹیں ہیں جن کو عبور کرنا ہوگا۔ اگر الیکشن کا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہو بھی ہوجائے تب بھی اس سے آگے کا رستہ کئی مشکلات اور چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے جو افغانستان کی نئی قیادت کے ساتھ ساتھ اس کے پڑوسیوں کی پالیسیوں اور اہم فریقوں کو بھی آزمائش میں مبتلا کریں گے۔
تازہ ترین