• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پاکستان کے قیام کے وقت قائداعظم محمد علی جناح نے جس طرح کی ریاست کے قیام کے بارے میں سوچا تھا اس پر تو گفتگو کی جا رہی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن ایک بات جو پاکستان کو اسلامی ریاست کہنے اور پاکستان کو سیکولر ریاست کہنے والوں کے درمیان مشترک ہے اور ہونی چاہئے وہ پاکستان کے اندر آئین اور قانون کے مطابق شخصی اور مذہبی آزادی ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ 1985ء کے بعد پاکستان جن مسائل سے دو چار ہوا اس میں فرقہ وارانہ تشدد اور عدم برداشت کے رویوں نے پروان چڑھنا شروع کیا اور آج یہ سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے۔ آج مذہب کے نام کے ساتھ ہی خوف اور دہشت کا تصور اجاگر ہونے لگتا ہے حالانکہ کسی بھی مذہب کی بنیاد خوف اور دہشت پر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مذہب اور مسلک خوف اور دہشت کی بنیاد پر پذیرائی حاصل کر سکتا ہے اور دین اسلام تو اپنے نام کی وجہ سے ہی اس تصور کے خلاف ہے کہ کسی کو طاقت کی بنیاد پر دین اسلام میں شامل ہونے کا کہا جائے۔
دین اسلام کا جہاد کا تصور انسانیت کو شخصی غلامی سے نکال کر اللہ رب العزت کی ابدیت میں دینے کا نام ہے اور اگر ہم شریعت اسلامیہ کے مطابق جہاد کی شرائط کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہاد ظالم کے ظلم کے خلاف مظلوم کو حق دلوانے کا نام ہے نہ کہ ظلم کرنے اور حق تلفی کرنے کااور اس بات کو قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ نے بار بار واضح کیا ہے کہ مشترکات پر بات چیت کی جائے۔ قرآن کریم تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین کا واضح اعلان کر کے یہ بتا رہا ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک معاشرے میں اپنے اپنے دین اور اپنے اپنے مسلک پر رہتے ہوئے زندہ رہ سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کے اندر متشددانہ رویوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کا ایک سبب جہاں قانون کی بالادستی نہ ہونا ہے وہاں پر دینی اور دنیاوی علوم سے ناواقف لوگوں کے ہاتھوں دین کا یرغمال بنایا جانا ہے۔اگر ہم ماضی قریب کے حالات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد اور مختلف مذاہب کے درمیان عدم برداشت کی ایک وجہ مذہب کے نام پر اپنی رائے اور سوچ کو دوسروں پر مسلط کرنا بھی ہے۔
پاکستان علماء کونسل نے عدم برداشت کے ان رویوں کے خلاف ایک مستقل جدوجہد شروع کر رکھی ہے اور جس کا بنیادی مقصد مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگوں کے درمیان مکالمہ کے ذریعے یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ کسی بھی مسلک اور مذہب کا ماننے والا دوسرے مسلک یا مذہب یا اس کے مقدسات کی توہین کر کے اپنے مذہب کی اور اپنے مسلک کی کوئی خدمت نہیں کر رہا بلکہ اس رویہ سے شدت پسندی اور انتہا پسندی کو مزید فروغ ملتا ہے جس سے مکالمہ کی فضا مجادلہ میں بدل جاتی ہے۔ پاکستان علماء کونسل کی مرکزی قیادت نے مکالمہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مختلف مذاہب اور مختلف مسالک کے لوگوں کے درمیان طے پا جانے والے مختلف معاہدوں کو ایک ضابطہ اخلاق کی شکل دی اور اس میں تمام نکات کو شامل کیا جو ملی یکجہتی کونسل میں پاکستان کی مرکزی مذہبی قیادت نے متفقہ طور پر طے کئے تھے اور الحمدللہ آج یہ ضابطہ اخلاق محکمہ اوقاف صوبہ پنجاب نے عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے کوششیں شروع کر رکھی ہیں اور اس ضابطہ اخلاق کو قانون سازی کے لئے راقم الحروف نے اسلامی نظریاتی کونسل میں پیش کیا ہے جس پر انشاء اللہ پھر کسی آئندہ مضمون میں بات ہو گی۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران اندرون سندھ کے مختلف علاقوں اور کراچی کے اندر جو بین المذاہب اور بین المسالک کشیدگی کو ایک بار پھر ہوا دی گئی اور جس سے بے گناہ انسانیت کا مالی اور جانی نقصان بھی سامنے آیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے 16 اپریل کو کراچی میں علماء مشائخ کنونشن اور قومی امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام مذاہب اور تمام مسالک اور ملک کی مقتدر مذہبی و سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر نہ صرف ان واقعات کی مذمت کی بلکہ مستقبل کے لئے ایک قومی مصالحتی کونسل بنانے کا بھی فیصلہ کیا کہ جو آئندہ پیدا ہونے والے مسائل کا فوری حل کرنے کی کوشش کیا کرے اور ماضی میں پیدا ہونے والے مسائل پر بھی غور و فکر کرے۔ پاکستان علماء کونسل نے ماضی کی طرح ایک بار پھر بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے اور امید ہے کہ حکومت اور ملک کی مقتدر قوتیں کراچی میں ہونے والی کانفرنس میں ضابطہ اخلاق اور لائحہ عمل کو عملی شکل دینے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کریں گی۔یہ امید اس لئے کی جا سکتی ہے کہ چند ہفتے قبل پاکستان علماء کونسل کے وفد سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم پاکستان نے بین المسالک اور بین المذاہب مکالمہ کے لئے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا اور اس قسم کی یقین دہانی عمران خان اور محترم آصف علی زرداری بھی کروا چکے ہیں اور پاکستان کے اندر مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی سوچ بھی اسی صورت پروان چڑھ سکتی ہے جب سب قومی یکجہتی کے پیج پر ہوں اور کوئی کسی کو مذہب، مسلک، قومیت، صوبائیت، لسانیت کی بنیاد پر مطعون نہ ٹھہرائے۔
تازہ ترین