• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حامدمیر کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی حق اور باطل کی محاذ آرائی ۔ سچ اور جھوٹ کی مخاصمت ، ظالم اور مظلوم کے درمیان کشمکش۔ جس میں ظالم بیک وقت مدّعی بھی ہوتے ہیں اور منصف بھی۔ فتوے بھی تھوک کے حساب سے دستیاب ہوتے ہیں اور پھندے بھی ۔ جس کے گلے میں جو بھی فٹ آئے... مقصد حق کی آواز کو دبانا ہوتا ہے ۔ لیکن کیا کبھی جسموں کے مٹ جانے یا زبانوں کے خاموش ہوجانے سے صداقت دم توڑ دیتی ہے؟ اسی خطے کا یک مردِ قلندر بلّھے شاہ اس پر فتوے لگائے گئے اور اسے قصور شہر میں دفنانے کی اجازت بھی نہ ملی ۔ لیکن وہ آج تک زندہ ہے اور اس پر فتوے لگانے والے تاریخ کے کوڑا دان میں پڑے ہیں۔ بلّھے شاہ کو اپنے اوپر حقیقت جانتا تھا۔ اسی لئے تو اس نے کہا تھا
عاشق ہو یا ایں تو رب دا، ہوئی ملامت لاکھ تینوں کافر کافر آکھدے ، توں آہو آہو آکھ
ہماری تاریخ میں فتوئوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس سے ایک بات یقیناً ثابت ہوتی ہے کہ جن پر فتوے لگتے رہے ہیں۔ وہ سارے لوگ سچے محّب ِ وطن اور خلقِ خدا سے پیار کرنے والے تھے ۔ ابھی کل کی بات ہے علم کے دشمنوں نے سر سید احمد خان پر کفر کے فتوے لگائے کہ وہ جدید تعلیم سے گمراہی پھیلا رہا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم پر فتوے لگانے والے آج اس کے ملک کے خود ساختہ محافظ بنے بیٹھے ہیں۔ فیض احمد فیض ، حبیب جالب ، ذوالفقار علی بھٹو اور کل کی بچّی ملالہ یوسف زئی کون ہے جو ان سنگدلوں کے ہاتھوں سے بچا ہے؟
جس شاعر نے اپنے ہم وطنوں پر یہ کہہ کر ظلم روکنا چاہا کہ’’ محبت گولیوں سے بورہے ہو ‘‘اسے ساری زندگی’’ را ‘‘کا ایجنٹ قرار دیا جاتا رہا اور گولیوں سے محبت بونے والوں نے ہمارے دامن کو رسوائیوں سے بھر دیا۔ یہ جہاں منتخب وزیر اعظموں کے لئے پھانسی کا پھندہ ہے یا کال کو ٹھری یا جلاوطنی ۔۔ لیکن آئین شکن سینہ زوری کےساتھ سینہ تان کر ملک میں دندناتا پھرے تو حکم ہے کہ آنکھیں بند کرلی جائیں کیونکہ فتوے بانٹنے والے قانون سے بالا تر ہوتے ہیں کیونکہ قانون ان کے اشاروں سے عبارت ہوتا ہے حامد میر اسی پرانی کہانی کا نیا کردار ہے۔ اس کے ساتھ کچھ ہوا ہے وہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ وہ جمہوریت کا حامی اور آمریت کا مخالف ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ سوچ کی طاقت بندوق کی طاقت سے زیادہ ہوتی وہ طاقت کو سچائی نہیں ، سچائی کو طاقت مانتا ہے۔ اس لئے وہ قانون کی بالا دستی کا حامی ہے ... وہ پاکستان کے کسی پسماندہ صوبے کے غریب نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں غائب کردینے اور اذّیتیں دے کر مار دینے کے خلاف ہے... اس کا یہ موقف بذاتِ خود ایک جرم ہے۔ جس کی سزا غدّاری کے فتوئوں کے ساتھ ساتھ... ایک ایسی دہشت ہے جس سے دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ وہ پھر جرمِ محبت کا وہی گناہ کر بیٹھا ہے جس پر خداوندان ِ دلیر اسے معاف کرنے کو تیار نہیں۔ لیکن کیا کریں اگر اس کائنات کو باقی رہنا ہے تو یہ گناہ ہوتا رہے گا اور لوگ ایسے دیوانوں پر ہنستے رہیں گے
لوگ کہتے ہیں کہ ہم ہیں تہی دامانِ شعور
ہم کہ متروک روایات ِ وفا کے داعی
پھر وہی جرمِ محبت کا گناہ کر بیٹھے
پھر وہی اس کی کڑی ہم سزا پائی
حامد میر پر حملے نے نہ صرف ظالموں کے چہروں سے پردے اٹھا دئیے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اس ملک پر ابھی تک حکومت کس کا راج ہے، کس نے جیو اور جنگ پر عدالتی حکم سے پہلے ہی پابندیاں لگانی شروع کر دی ہیں۔ وہ جو اداروں کو ’’ طبقے ‘‘ بنا رہے ہیں کاش اس طرح کی کاوشیں کرنے والوں کے انجام سے سبق حاصل کریں۔ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود حامد میر کو ختم نہیں کر سکیں گے کیونکہ 19اپریل کی شام کو جنم لینے والے حامد میر کو موت نہیں آسکتی ۔ اس نے موت کو شکست دے کر ایک نیا جنم لیا ہے ۔ اب وہ ہماری صحافت کا مستقبل ہے جس کی آئندہ نسلیں مثالیں دیا کریں گی ۔ اسی بہادر ، نڈر اور عظیم محب وطن کی نذر یہ نظم…
جرأ ت و ہمّت کا پیکر ، عزم کا کوہ ِ گراں
وہ ہے میر ِ سرفروشاں، اہل ِ حق کا ترجماں
جبر کے مدّ ِمقابل ، سرکیا جس نے نہ خم
تیر سے بڑھ کر کماں میں اس کا تیکھا ہے قلم
آمریت کے اندھیروں میں بھی مثل ِ نور تھا
ظلم کے سائے میں جینا کب اسے منظور تھا
اس سے بڑھ کر اور کیا وہ اس طرح سے ہے جیا
پرچم ِ جان کو صلیب و دار کی زینت کیا
جرم اس کا یہ کہ وہ مظلوم کا غم خوار ہے
ظالموں کے سامنے اِک آہنی دیوار ہے
کیوں جھکے وہ ظلم کے ہتھکنڈوں کے آگے یہاں
وہ ہے وارث میر کی حق گوئی کا وارث میاں
سچ پہ غدّاری کے فتوے آج تک لگتے رہے
وقت نے ثابت کیا غدّار فتوے باز تھے
کلمہء حق کا وہ داعی، بے کسوں کی وہ زباں
وہ کبھی مرتا نہیں جس پر خدا ہو مہرباں
تازہ ترین