• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کوئی بہت دور کی بات نہیں ہے کہ روسی افواج یوکرائن کے علاقے کریمیا میں داخل ہوئیں اور اس پر قبضہ کرلیا اور اس کو روس کا حصّہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک دیکھتے ہی رہ گئے، انہوں نے تھوڑا شور شرابہ کیا لیکن روسی اقدامات کو روک نہیں سکے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کریمیا کے لوگوں، وہاں کی آبادی نے روسی افواج کو خوش آمدید کہا۔ کریمیا میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ روسی قیادت کے عزائم سے یہ اندازہ ہورہا تھا کہ وہ اس کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں، دوسری طرف جنوب مشرقی یوکرائن میں روسی جماعت میں وہاں سرکاری عمارات پر قبضہ کر لیا گیا لیکن حیرت انگیز طور پر روس، امریکہ اور یورپی ممالک نے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں تنازع کو نہ بڑھانے کا معاہدہ کر لیا۔
کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق باقی رہے گا، امریکہ اور یورپی ممالک کے مؤقف میں بے بسی کا عنصر زیادہ شامل ہے۔ یوکرائن روس کی سابقہ جمہوری ریاست ہے، روس کے اس بڑے اقدام نے دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی علاقے میں امریکہ اور اس کے حلیفوں کی بالادستی کو چیلنج کرسکتا ہے۔ اس سے پہلے جب شام میں تنازعہ شروع ہوا تھا جو اب تک چل رہا ہے، روس نے واضح اور سخت الفاظ میں وہاں امریکہ کو مداخلت سے منع کیا تھا۔ روس اور چین دونوں بشار الاسد کی حمایت میں سخت رویّہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چین اور روس نے سلامتی کونسل میں اس سلسلے میں آنے والی قرارداد کو بھی ویٹو کردیا تھا۔ وہاں اب تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور عرب ممالک جن کی تعداد شام کو چھوڑ کر 20؍ہیں بے بسی سے صورتحال کو دیکھ رہے ہیں جبکہ ایران اور حزب اللہ بشارالاسد کی حکومت کو اپنی حمایت سے قائم رکھے ہوئے ہیں۔
پوٹن کو روس کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اس لئے کہ وہ روس کی عظمت و وقار اور سپر پاور بننے کی صلاحیت تیزی سے بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ آپ حیران تو ہوں گے اگر میں آپ کی توجّہ اپنے 30؍مارچ 2000ء کے اس کالم کی طرف دلائوں جس کا عنوان تھا ’’نئے روس کا ابھرتا سورج‘‘ اس میں صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا: ’’اگر روس یورپ سے متعلق یلسن دور کے سلامتی کے نظریات میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتا ہے جس کے بغیر روس کا وقار بحال ہونا محال ہے تو یورپ میں بھی کشیدگی میں اضافہ لازمی ہے، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دنیا ایک نئی کروٹ لینے والی ہے۔ چین کے صدر نے روس کے قائم مقام صدر کی الیکشن میں کامیابی پر پیغام میں دونوں ملکوں کے درمیان Multi-Polar ورلڈ کے وجود میں لانے کیلئے اسٹرٹیجک تعاون پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت کی کوتاہ اندیشی اور بالادستی کے قیام کے تصوّرات سے اس کے دوست اور دشمن سب نالاں ہیں۔ پاکستان، امریکہ کی غلط پالیسیوں اور کوتاہ اندیش خارجہ حکمت عملی سے بار بار متّاثر ہوا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں سوچی سمجھی تبدیلی لانے کی کوشش کرے جس سے اس کے مفادات کو محفوظ بنایا جا سکے۔‘‘
میں نے دنیا میں تبدیلی کی جو بات کی تھی وہ تبدیلی آچکی ہے اور روس کی یوکرائن میں مداخلت نے پورے یورپ میں ہلچل مچادی ہے۔ اب روس برزنیف ڈاکٹر این کی طرف واپس لوٹ رہا ہے اور روس اور چین کے اقدامات کی وجہ سے ایک دفعہ دنیا پھر Multi-Polar ہوگئی ہے۔ اب امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر ختم ہوچکا ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم نے شام میں دیکھا اور اب یوکرائن میں دیکھ رہے ہیں۔ روس نے اسی دوران بین البراعظمی بلاسٹک میزائل کا تجربہ بھی کردیا ہے جو امریکہ کیلئے سخت اور اہم پیغام ہے۔
امریکہ اپنی کمزور قیادت کی بہ دولت پسپائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بارک حسین اوباما کا دور صدارت ایک ناکام دور ثابت ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ تیزی سے سیاسی اعتبار سے عدم استحکام کا شکار ہوا ہے۔ عرب ممالک جو اپنی سیکورٹی کیلئے امریکہ پر انحصار کیے ہوئے تھے مایوسی میں مبتلا ہوئے ہیں۔ اب وہ پریشان ہیں ایک نیا مشرق وسطیٰ ابھر رہا ہے۔
ایران اس علاقے کا پہلے بھی اہم ترین ملک تھا، اب وہ اسٹرٹیجک لحاظ سے طاقتور بن کر سامنے آ گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان نے کہ ایران دو ماہ میں ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے، پوری عرب دنیا میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں توازن کی کنجی اب ایران کے ہاتھ میں ہے۔ ملٹری توازن کی یہ کنجی پہلے پاکستان کے پاس تھی اور امریکہ ہر معاملے میں پاکستان پر تکیہ کیے ہوئے تھا۔ پاکستان کے پاس اب کوئی ایسا ٹرمپ کارڈ نہیں ہے جس کو وہ عالمی سطح پر اہمیت حاصل کرنے کیلئے چلا سکے۔ ہمارے حکمران پھر وہی غلطیاں کر رہے ہیں جو پہلے کر چکے ہیں۔ انہوں نے اکثریت کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف جو قانون پاس کرایا ہے وہ ان کی بڑی غلطی ہے۔ جو ملک کے عدم استحکام کا سبب بنے گی۔ سعودی تحفہ سنگین صورتحال میں عالمی سطح پر اس کے لئے بڑی پیچیدگی پیدا کر دے گا۔ حکومت کے پاس اس سلسلے میں کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہے۔
تازہ ترین