• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
اندرون اور بیرون ملک عمران خان سے جڑے پاکستانیوں کی بڑی تعداد 2024کے اختتام پر دعا گو ہے کہ 2025عمران خان کیلئے بہتر ثابت ہو۔ گزرا ہوا سال بھی ماضی قریب کی طرح ایک ڈرائونا خواب بن کر خان کا پیچھا کرتا رہا اور خان کو نہایت مشکل دور سے گزرنا پڑ رہا ہے جس کا ایک پہلو اس کی موجودہ قید تنہائی ہے۔ ان کی قانونی ٹیم بھرپور انداز میں ڈیل کر رہی ہے۔ خان پاکستانی عوام کے بڑے طبقہ کیلئے نہ ہی جھکنے والا اور نہ ہی بکنے والا قومی رہنما کے طور پر اپنے آپ کو متعارف کروا چکا ہے۔ 8فروری 2024 ہونے والے انتخابات کیلئے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بھی اس جماعت سے لے لیا گیا۔ الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت نے ایسے طریقہ ہائے انتخابات متعارف کرائے جن کے تحت پی ٹی آئی کو ہروا کر دوسری جماعتوں بالخصوص (ن) اور پی پی کو دھونس دھاندلی کے ذریعہ مرکز، سندھ اور پنجاب میں اقتدار حوالے کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی نے ان دھاندلی زدہ انتخابات کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ دنیا کے اہم ممالک مثلاً ای یو ، برطانیہ اور امریکہ ان انتخابات کے بارے میں یہ موقف اختیار کر چکے ہیں کہ یہ نتائج درست نہیں ہیں۔ کئی ممالک اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ خان نے ان انتخابات کے نتائج کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا مگر سیاسی جگہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی خاطر جہاں ممکن ہوا ہے پی ٹی آئی نے حالات سے مکمل طور پر ٹکرانے کے بجائے کے پی اور دوسرے صوبوں میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کیا اور کے پی میں خان کی حکومت ہے۔ پنجاب میں وہ حزب اختلاف ہیں اور دوسرے صوبوں میں بھی ایشوز پر بات کرنے کیلئے ممبران کی معقول تعداد موجود ہیں۔ عبوری حکومت جس نے یہ انتخابات کروائے کی پوری کوشش رہی کہ تحریک انصاف کو کم سے کم قومی اور صوبائی نشستیں مل پائیں۔ اگرچہ 2024میں پی ٹی آئی کے ستارے گردش میں ہی رہے تاہم جماعت نے سیاسی میدان میں اپنی پوزیشن کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ حکومت وقت کو انگیج رکھتے ہوئے کے پی کے وزیراعلیٰ کی قیادت میں تین بڑے احتجاجی جلسے جلوس بھی ترتیب دیئے جن کا مقصد عمران خان کی رہائی حاصل کرنا تھی۔ اگرچہ عمران خان کو تاحال رہائی نہیں ملی ہے مگر ان کی رہائی کیلئے فیصلہ کرنے والوں کی میز پر ایک اور مضبوط فائل رکھ دی گئی ہے۔ نئے امریکی صدر کے وزرا کی اشارے کنایوں میں عمران خان کیلئے سپورٹ کو پاکستانی حکومت قطعی طور پر نظرانداز نہیں کر سکتی اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دو مشیران پچھلے چند دنوں کے دوران عمران خان کی رہائی کیلئے بیانات بھی دے چکے ہیں۔ 2024 کے اختتام پر مغربی دنیا کے اہم حکومتی مراکز میں عمران خان کی رہائی مہم گرتی اٹھتی توجہ کا مرکز بن چکی ہے جسے نظراندازکرنا آسان نہیں۔ عمران خان نے جس بھی میدان میں قدم رکھے ہیں کامیابیاں چند قدم آگے چل کر اس کا خیرمقدم کرتے ملتی ہیں۔ آج وہ جیل میں بند ہیں بظاہر یہی محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی جلد رہائی ممکن نہیں۔ خان کے خلاف ہر ہفتہ نئے مقدمات بنانے کیلئے اقتدار میں بیٹھے لوگ ترکیبیں نکال رہے ہیں۔ مغربی دنیا کے اہم مراکزعمران خان پر بنائے گئے مقدمات کو بالعموم انتقامی کاروائیاں کہہ کر اپنا وزن خان کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں۔ نیا سال خان کی رہائی کا سال ہے اور 2025 کے آغاز پر خان ایک اہم قومی رہنما کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے اور یہ امر خان کیلئے ایک بہت بڑا پلس پوائنٹ ہے جس کو ختم کرنے کیلئے نظام کا بہت بڑا حصہ ہردم اپنی کوشش کے تعاقب میں سرگرداں ہے۔ مگر آج خان کی شخصیت کے گرد ہمارے ملک کی سیاست کا گھومنا یہ ثابت کرتا ہے کہ پی ٹی آئی اور خان کے علاوہ ہمارے ملک میں نہ ہی کسی کو قبولیت حاصل ہے اور نہ ہی عوامی پذیرائی حاصل ہے۔ بقول پی ٹی آئی رہنما اور سابق صدر مملکت عارف علوی ستارے حرکت میں آچکے ہیں اور وہ عمران کیلئے مستقبل قریب میں بہتری یکھ رہے ہیں۔ خان کی پارٹی کے لوگوں کی بھاری تعداد جیلوںمیں بند ہے جن میں سے کئی درجن قومی سطح کی لیڈرشپ ہے اور کئی درجن ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے زندگی میں شاید کوئی مکھی بھی نہ ماری ہو۔ ایسے لوگوں کا ایک بہت بڑا ’’پول‘‘ پس زندان ہے اور تکالیف کا شکار ہے۔ داد دینی پڑتی ہے ان سیاسی رہنمائوں کی اپنی جماعت کے ساتھ وابستگی کیلئے خان اپنے ان ساتھیوں کیلئے ہردم کوشاں ہیں کہ انہیں حکومت رہا کرے۔ اگرچہ حکومت نے خان کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولے ہیں تو حکومت کو چاہئے کہ وہ چھوٹے کیسز میں ملوث لوگوں کو رہا کرے۔ ایسا فیصلہ حکومت کی طرف سے خان کیلئے 2025 کے آغاز پر خیرسگالی پیغام ہوگا اور سیاسی قیدیوں کیلئے اور ان کے خاندان والوں کیلئے بھی ایک اچھا پیغام ہوگاکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے سینے میں بھی دل ہے۔ خان کی جیل سے رہائی کب ہو پا ئے گی؟ ایک ایسا سوال ہے جس کا ہر کسی کے پاس جواب نہیں ہے مگر 2025 کے آغاز پر حالات خان کے حق میں زیادہ ہیں۔ حکمران یقیناً سیاسی طور پر مستحکم پاکستان کو پھلتا پھولتا ملک دیکھنا چاہ رہے ہوں گے مگر ان تمام کارہائے نمایاں کے خزانوں کی کنجی خان کے پاس ہے۔ بات چیت کیلئے شروع کئے گئے پراسس کو چلنا چاہئے ۔ حالات کی ستم ظریفی کہہ لیجئے یا موجودہ ملکی حالات میں اٹکا ہوا یہ معاملہ کہ گزرے ہوئے سال میں ہوئے قومی انتخابات میں حق دار کو اس کا حق نہ دیا گیا کہ مرکزی کردار عمران خان جو اس وقت اور آج بھی پاکستان کا مقبول ترین سیاستدان ہے مگر اسے سسٹم نے پرائم منسٹر نہ بننے دیا بلکہ اسے ڈیڑھ سال پہلے جیل میں ڈال دیا گیا۔ خان اور اس کی جماعت 2025 کے آغاز پر مقبول ترین جماعت اس لئے ہے۔ پاکستان کے حالات میں ایک غیر مقبول سیاسی اتحاد کو اقتدار میں بٹھائے رکھنا مملکت پاکستان کے ہرگز مفاد میں نہیں۔ پاکستان اس وقت زیادہ اچھا لگتا ہے جب وہ قومی سطح پر درست فیصلے کرتا نظر آتا ہے۔
یورپ سے سے مزید