• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشتی حادثات اور انسانی اسمگلنگ۔۔۔

تحریر: ہارون نعیم مرزا…مانچسٹر
انسانی اسمگلنگ ایک ایسا بین الاقوامی ایشو ہے جس سے نہ صرف ایشیا اور یورپی ممالک بلکہ برطانیہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی نبرد آزماہے۔ انسانی اسمگلنگ کے مضبوط نیٹ ورک میں شامل گروہ لوگوں کو سنہرے خواب دیکھا کر ان کی جمع پونجی سے محروم کرتے اور پھر انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں جس کے باعث غیرقانونی تارکین وطن کی کشتیوں کو حادثہ پیش آنے کے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کا شکار ایسا ہی ایک ملک یونان ہے جو یورپی یونین میں سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کشتی حادثات میں کئی قیمتیں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ یورپی یونین کا غیر قانونی طریقے سے رخ کرنے والوں میں افغانستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان سرفہرست ہے۔ پاکستان سے نوجوانوں کی اکثریت محض اس لیے ملک کو خیرآباد کہنے پر مجبور ہے کہ یہاں معاشی دبائو، مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح آسمان چھو رہی ہے۔ سفید پوش اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان اپنا گھر بار حتیٰ کہ مائوں، بہنوں اور بیویوں کے زیورات تک بیچنے کر انسانی اسمگلرز کے ہاتھوں بیرون ملک منتقل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان سے ایران اور پھر ایران سے لیبیا اور یونان جیسے ممالک کا مختلف ذرائع استعمال کر کے انتخاب کیا جاتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں ایسے ایسے ہولناک حادثات ماضی کا حصہ ہیں جنہیں سوچ کر روح کانپ جاتی ہے ایسا ہی ایک حادثہ گزشتہ دنوں یونان میں ایک بار پھر پیش آیا جہاں ایک کشتی الٹنے سے متعدد پاکستانی جاں بحق ہوئے جبکہ ریسکیو ٹیموں نے درجنوں افراد کو امدادی کاروائیوں میں زندہ بچا لیا۔ اس کشتی میں ایک سو کے قریب افراد سوار تھے جن میں اکثریت میں پاکستانی تھے جن کا تعلق گجرات اور سیالکوٹ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان سے لیبیا جانے کے لیے براہ راست پروازیں نہیں جاتیں تاہم یورپ جانے کے خواہشمند افراد ائر روٹس کے ذریعے باقاعدہ ویزوں پر دبئی و دیگر ممالک جانے کے بعد وہاں سے بھی انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں شکار ہو کرسمندر کی بے رحم لہروں کا سامنا کرتے ہیں۔ حالیہ حادثے میں تین کشتیوں میں غیرقانونی تارکین وطن کو سوار کرا کے سفر کرایا جا رہا تھا جن میں سے ایک کشتی حادثے کا شکار اس وجہ سے ہوئی کہ اس پر ضرورت سے زیادہ لوگوں کو سوارکر لیا گیا تھا۔ غیر قانونی تارکین وطن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ گجرات طویل عرصہ سے انسانی اسمگلروں کی محفوظ ترین پناہ گاہ تصور کیا جاتا ہے۔ ماضی میں گجرات سے تعلق رکھنے والے لاتعداد مائوں کے بیٹے غیر ملکی سرحدیں عبورکرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ایف آئی اے گجرات سرکل کی مسلسل ناکامی اور روایتی غفلت کے باعث انسانی اسمگلرز کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ انہیں اب کوئی خوف نہیں رہا۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ انسانی اسمگلرز اپنے منافع کو بڑھانے کیلئے ضرورت سے زیادہ لوگوں کو بٹھا کر سفر کرا رہے تھے۔ ایک کشتی میں 6پاکستانیوں سمیت 45افراد، دوسری میں 47افراد اور تیسری کشتی میں 83افراد سوار تھے جن میں 76کا تعلق پاکستان سے 3بنگلہ دیشی، 2مصری اور2 سوڈانی ڈرائیور شامل تھے۔ ایک کشتی میں سوار 5افراد کی لاشیں ملیں جو پاکستانی ہیں جن کی شناخت سفیان، رحمٰن علی، حاجی احمد، عابد اور عبد اللہ کے نام سے ہوئی۔ مذکورہ افراد کا تعلق سیالکوٹ، منڈی بہائوالدین اور گجرات سے ہے۔ یونان میں پاکستانی سفیر عامر آفتاب قریشی نے کشتی میں 84افراد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نامعلوم جگہ پر ہزاروں فٹ گہرے سمندر میں مذکورہ لوگ ڈوبے ہیں۔ نعشیں حکومتی اخراجات پر پاکستان روانہ کی جائیں گی۔ یونانی حکام کیساتھ مسلسل رابطے میں ہیں زندہ بچ جانے والوں کو سہولیات فراہم کررہے ہیں یونان کشتی حادثہ میں زندہ بچ جانے والے گجرات کے نوجوانوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اپنی درد بھری کہانی سناتے ہوئے بتایاکہ کارگو بحری جہاز سے ہماری کشتی کی ٹکر ہوئی جس کے باعث کشتی الٹ گئی ڈیڑھ سے دو ماہ ہمیں ایجنٹوں نے لیبیا میں رکھا اور پھر 11 دسمبر کو لیبیا سے ہماری کشتی روانہ ہوئی تھی سمندری لہریں بہت تیز تھیں جس کی وجہ سے ہمیں 3 سے 4 دن سمندر میں گزارنے پڑے۔ حادثے کے بعد ہمیں سمندر سے ریسکیو کر کے یونان کیمپ بھیج دیا گیا انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یونان میں مقیم پاکستانیوں نے کپڑے اور جوتے مہیا کیے لیکن پاکستانی سفارتحانہ کوئی بھی مدد نہیں کررہا۔ پاکستان میں مشکل حالات کے باعث ملک چھوڑا اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کیلئے ہی باہر جانے کا فیصلہ کیا مگر یہاں بھی مشکلات سے دوچار ہوگئے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے یونان کشتی حادثے کا پہلا مقدمہ درج کر لیا۔ مقدمہ کشتی حادثے میں جاں بحق محمد سفیان کے والد کے بیان پر درج ہوا ہے جس میں انہوں نے موقع اختیار کیا ہے کہ کشتی میں دیگر لوگوں کیساتھ میرا بیٹا سفیان بھی سوار تھا بیٹے کو فیصل آباد ایئرپورٹ سے مصر پھر لیبیا پہنچایا گیا جبکہ سیف ہاؤس میں ان پر تشدد کیا جاتا رہا۔ ایف آئی آر میں جاں بحق بیٹے کے والد نے بتایا کہ ہم نے سفیان کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے ایجنٹوں کو24 لاکھ روپے دیئے۔ انسانی اسمگلروں کے خلاف ماضی میں کئی بڑے مقدمات درج کئے گئے جن میں گجرات سرفہرست ہے مگر ایف آئی اے حکام انسانی اسمگلنگ روکنے یا انسانیت کے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مکمل طو رپر ناکام رہے ہیں۔ ایف آئی اے کی ناقص کارکردگی نے انسانی اسمگلرز کے نیٹ ورکس کو مزید متحرک اورمضبوط ہونے کا موقع فراہم کیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے بڑا کریک ڈائون کیا جائے۔
یورپ سے سے مزید