ارباب بست وکشاد کیلئے یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان ،جو کپاس پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتا آیا ہے،گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پیداوار میں بتدریج کمی کے باعث چوتھے سے ساتویں نمبر پرجا چکا ہے۔زرعی انقلاب کے اس دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت بہت سے ممالک فی ایکڑ پیداوار میں حیرت انگیز اضافے کی طرف مائل ہیں جبکہ وطن عزیز میں وفاقی اور صوبائی سطحوں پرمکمل وسائل ہونے کے باوجود ان سے کام نہیں لیاجارہا۔کاٹن جنرز فورم کی طرف سے جاری اعدادوشمار کے مطابق موجودہ فصل میں 15جنوری تک کپاس کی مجموعی پیداوار میں گزشتہ برس کی نسبت 34فیصدکمی آئی ہے۔نئی فصل سےروئی کی کل 54لاکھ90ہزار گانٹھیں حاصل ہوئیں ،جن کاپیداواری ہدف ایک کروڑ 11لاکھ گانٹھیں رکھا گیا تھا۔اس صورتحال میں اس سال ٹیکسٹائل ملوں کو کثیر زرمبادلہ خرچ کرکے 50لاکھ سے زیادہ گانٹھیں درآمد کرنی پڑیں گی جو، اب تک کی درآمدات کا سب سے بڑا حجم ہے۔زرعی ماہرین نےکپاس کی پیداوار میں متذکرہ بڑی کمی کے پیچھے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے،ان میںموسمی تبدیلیاں اور گزشتہ برس فصل پرکیڑے کا حملہ جس سے بڑی مقدار میںکپاس کے پھول کو نقصان پہنچااور اس کے علاوہ کسانوں کا متبادل فصلوں کو ترجیح دینا شامل ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آبادی میں ہونے والے اضافے اور نئی تعمیرات سے زرعی رقبہ سکڑرہا ہےاور درپیش صورتحال سے نمٹنے کیلئے وفاقی اور صوبائی سطحوں پرفزیکل پلاننگ پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔مقامی زرعی یونیورسٹیوں، ترقیاتی اداروںاورریسرچ کونسلوں کے توسط سے ترقیاتی ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی سعی کی جانی چاہئے،تاکہ کپاس ہی نہیں تمام اجناس کو ان کی حیثیت کے مطابق اہمیت دی جاسکے اوران کی فی ایکڑ پیداوار میں انقلاب لایا جاسکے۔