• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید دور میں جب بھی قومی مفاہمت کی بات ہوتی ہے تو پہلا نام نیلسن منڈیلا کا لبوں پر آتا ہے تاہم بہت کم لوگوں جانتے ہیں کہ کیا قیمت ادا کرکے انہوں نے یہ مقام حاصل کیا۔ وہ 1918ء کو پیدا ہوئے اور فورٹ ہیر یونیورسٹی سے ماسٹر کی تعلیم حاصل کی۔ دور طالب علمی سے نسل پرستی کیخلاف جدوجہد کرنے والی طلبا کی تنظیم کے ممبر بنے۔ افریقن نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ہر طرح کی جدوجہد کی۔ انہیں 1962میں گرفتار کیا گیا اور 27سال قید رہے۔ طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ نسل پرستوں کو شکست ہوئی اور وہ جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔ توقع کی جارہی تھی کہ اب وہ مخالفین سے انتقام لیں گے لیکن اس کے برعکس انہوں نے معافی اور درگزر کا راستہ اپنایا تاہم جنوبی افریقہ کو صحیح ڈگر پر ڈالنے کے لئے ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن تشکیل دیا جس نے ملک بھر میں مفاہمت کرائی۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ جس دن میں جیل سے رہا ہو گیا تو میرا جسم تو رِہا ہو گیا لیکن میری روح قید ہوگئی۔ اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے میں روح کی قید کا کئی گنا زیادہ بوجھ محسوس کر رہا تھا۔ نیلسن منڈیلا کا اصل کارنامہ یہ نہیں تھا کہ انہوں نے لمبے عرصے تک قید کاٹی بلکہ ان کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نےانتقام کے جذبے پر قابو پا لیا اور کسی سے انتقام نہیں لیا۔ یہ کام مشکل ترین کام تھا اور اسے سر انجام دینے کے لئے انہیں گفتار اور کردار دونوں کی انوکھی مثالیں قائم کرنی پڑیں۔

کہا جاتا ہے کہ نیلسن منڈیلا جب صدر تھے ایک روز جیل کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ قریب پہنچے تو انہوں نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہا۔ جیل کے باہر ایک بے کار سی کینٹین تھی جس میں لوگ کھانا کھایا کرتے تھے۔ وہ اس کینٹین میں بیٹھ گئے اور پھر اپنے اسٹاف کو حکم دیا کہ اس شخص کو بلائو جو سامنے کھانا کھا رہا ہے۔ فورا ًحکم کی تعمیل ہوئی۔ اس شخص کو جب لایا جا رہا تھا تو وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ نیلسن مینڈیلا نے اسے اپنے ساتھ ٹیبل پر بٹھایا اور پھر کینٹین والے کو کھانے کا آرڈر دیا۔ پھر دونوں نے اکٹھے احترام سے کھانا کھایا اور پھر اس شخص کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ نیلسن منڈیلا نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ جانتے ہو یہ کون تھا؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ منڈیلا نے کہا کہ یہ شخص جیل میں مجھے کھانا دیا کرتا تھا اور ہر روز میرے کھانے میں گندگی ملاتا تھا۔ اس میں اپنا پیشاب بھی ڈالتا تھا۔ آج میں اس عمل کے ذریعے اپنے ملک کے شہریوں کو یہ درس دینا چاہتا ہوں کہ وہ ہر قسم کے انتقام کو بھول جائیں۔ میں انہیں عمل سے دکھانا چاہتا ہوں کہ برسوں تک میرے کھانے میں گند ڈالنے والے شخص کو بھی میں معاف کر رہا ہوں اور اپنے ساتھ برابری کی بنیاد پر بٹھارہا ہوں۔اب آتے ہیں 9 مئی کے گرفتار اور سزا یافتہ لوگوں کی طرف۔ یقینا انہوں نے بڑی اور سنگین غلطی کی لیکن اصل مجرم وہی لوگ اور کارکن نہیں جو اس وقت جذباتی ہو کر استعمال ہوئے۔ وہ بے چارے اپنے لیڈر کی محبت میں گھروں سے نکلے تھے اور انکے یہ ارادے نہیں تھے کہ فوجی تنصیبات پر حملے کرنے ہیں لیکن پھر وہاں کے ماحول اور ماسٹر مائنڈز کی ترغیب سے جذباتی ہو کر غلط کام کر بیٹھے۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ نیلسن منڈیلا کی تقلید کرتے ہوئے سب پی ٹی آئی والوں کو9 مئی کے سلسلے میں معافی دی جائے یا پھر کم از کم ان لوگوں کو معاف کرنا چاہئے جن کی راہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ہمدردانہ اپیل ہے کہ وہ ملٹری عدالتوں سے سزا پانے والے سب لوگوں کو معاف کر دیں۔ جن لوگوں کے کیسز سول عدالتوں میں چل رہے ہیں، وہاں عدالتوں سے گزارش ہے کہ وہ مزید تاخیر نہ کریں اور جتنا جلد ممکن ہے9 مئی کے ملزموں کے کیسز کا فیصلہ کریں۔ یقینا 9 مئی کے ماسٹر اب معلوم ہوچکے ہوں گے اور وہ چند ایک ہی ہوں گے۔ ان کے ساتھ قانون کے مطابق معاملہ کیا جائے لیکن جو لوگ غیر ارادی طور پر اس روز پھنس گئے یا جن کو صرف پارٹی وابستگی کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے ان کو رہا کیا جائے۔

تازہ ترین