• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے بیشتر ممالک کے سربراہان کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ امریکہ کا دورہ کریں اور وائٹ ہائوس کے اوول آفس میں امریکی صدر سے ملاقات کرکے اُن کی خوشنودی حاصل کریں۔ شاید یہی خواہش لئے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی گزشتہ جمعہ امریکہ گئے مگر وائٹ ہائوس میں انہیں جس طرح امریکی صدر اور نائب صدر کی جانب سے توہین آمیز رویئے کا سامنا کرنا پڑا، اُسے دیکھ کر پوری دنیا دنگ رہ گئی اور یوکرین کے صدر کو عشایئے پر مدعو کئے بغیر وائٹ ہائوس سے جانے کا کہا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد سے امریکہ کی جانب سے اپنے اتحادی ملک یوکرین کیلئے ایک سخت موقف اور روس کی طرف جھکائو دیکھنے میں آرہا ہے۔ گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر دنیا کو حیران کردیا کہ یوکرین کو امریکہ کی جانب سے روس یوکرین جنگ میں دیئے گئے امریکی دفاعی ساز و سامان جس کی مالیت350 ارب ڈالر بنتی ہے، واپس کرے بصورت دیگراسے اپنے معدنی ذخائر امریکہ کے حوالے کرنے ہوں گے۔ ابتدا میں یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے امریکی صدر کے بیان کو سنجیدہ نہیں لیا اور کہا کہ وہ اپنا ملک نہیں بیچ سکتے تاہم بعد ازاں امریکی دبائو پر یوکرین کے صدر معدنیات کا معاہدہ کرنے اور جنگ بندی کی صورت میں امریکی سیکورٹی کی ضمانت کیلئے وائٹ ہائوس پہنچے تو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اُن کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اپنایا گیا اور جس مقصد کیلئے وہ امریکہ گئے تھے، پورا نہ ہوسکا۔ میٹنگ کے دوران دونوں ممالک کے صدور کے درمیان اس وقت بدمزگی پیدا ہوئی جب امریکی صدر نے یوکرین کے صدر کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’یوکرین، روس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرے ورنہ امریکہ، روس یوکرین جنگ میں یوکرین کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے گا۔‘‘ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’’اگر آپ کے پاس ہمارا دیا گیا اسلحہ اور عسکری ساز و سامان نہ ہوتا تو یہ جنگ دو ہفتوں میں ختم ہوجاتی، آپ ہماری وجہ سے اس جنگ سے نکل سکتے ہیں، آپ کے پاس اب کوئی آپشن نہیں رہا، آپ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ مول لے رہے ہیں، یوکرین کو سیکورٹی ضمانت دینا امریکہ کی نہیں یورپ کی ذمہ داری ہے۔‘‘ اِن تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے پر دستخط نہ ہوسکے، دونوں صدور کی مشترکہ پریس کانفرنس بھی منسوخ کردی گئی اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کو وائٹ ہائوس سے جانے کا کہا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت منہ کی کھانا پڑی جب یوکرینی صدر کی امریکہ سے واپسی پر یوکرین کی حمایت میں 18 یورپی ممالک کے لندن میں ہونے والے اجلاس میں یورپی رہنمائوں نے یوکرینی صدر کو گلے لگایا اور یوکرین کی حمایت کیلئے عالمی اتحاد تشکیل دینے اور دفاعی اخراجات بڑھانے پر اتفاق کیا۔ یورپی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو دکھائیں گے کہ امریکہ کے بغیر بھی براعظم کا دفاع کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر برطانیہ نے یوکرین کو 2.84 ارب ڈالر قرض دینے کا بھی اعلان کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد سے عالمی منظر نامے میں تیزی سے تبدیلی ہورہی ہے اور موجودہ عالمی نظام ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ امریکی صدر گاڈ فادر مافیا جیسا انداز اپناتے ہوئے دنیا پر امریکہ کی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں، اُن کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے استحصال کا خاتمہ کریں گے اور سپر پاور ہونے کے ناطے امریکہ کا وقار بحال کریں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے دور میں امریکہ، یوکرین کا اتحادی تھا اور روس،یوکرین جنگ کی ابتدا امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے پر ہوئی تھی جو روس کیلئے قابل قبول نہیں تھا۔ امریکہ جو یوکرین کو نیٹو میں شامل کروانے میں پیش پیش تھا، اُسی نے برے وقت میں یوکرین کا ساتھ چھوڑ دیا ہے، ایسے میں امریکی حمایت اور عسکری ساز و سامان کی فراہمی بند ہونے کے بعد یوکرین کیلئے روس سے جنگ جاری رکھنا ممکن نہیں کیونکہ یورپ اس وقت شدید معاشی مشکلات اور بدحالی کا شکار ہے اور یہ پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ یورپی یونین کا اتحاد خطرے میں ہے، نیٹو کے سربراہ مارک روٹے پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ نیٹو چند ماہ کی مہمان ہے جس کے بعد یوکرین کے ساتھ ساتھ دیگر یورپی ممالک کو اپنی سلامتی سے متعلق تشویش لاحق ہوگئی ہے۔

یوکرین کے صدر کو وائٹ ہائوس بلاکر ان کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہے جس سے دنیا میں ٹرمپ مخالف اور یوکرین کے صدر کیلئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے ہیں۔ یوکرینی صدر کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بعد اب دوسرے ممالک کے رہنما بھی ٹرمپ سے ملاقات سے اجتناب کریں گے لیکن امریکی حمایت کے بغیر یوکرین کا دفاع اور زیلنسکی کا Survival مشکل نظر آتا ہے۔ سوویت یونین (روس) کے ٹکڑے ہونے کے بعد 1991 میں یوکرین، روس سے آزاد ہوا تھا اور اس وقت یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی تھے مگر یورپ اور امریکہ کی جانب سے سلامتی کی ضمانت دینے پر یوکرین نے اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کردیئے تھے لیکن آج سلامتی کی ضمانت دینے والوں نے ہی آنکھیں پھیرلی ہیں اور یوکرین اپنی اُس غلطی پر یقیناً آج پچھتا رہا ہوگا۔ یوکرین کی موجودہ صورتحال پاکستان کیلئے بھی ایک سبق ہے کہ کسی ملک کے جوہری ہتھیار اُس ملک کی سلامتی کے ضامن ہوتے ہیں، عالمی طاقتوں کی سیکورٹی ضمانت کوئی معنی نہیں رکھتی، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، کل کے دوست آج کے دشمن اور کل کے دشمن، دوست بن جاتے ہیں، یہی کچھ یوکرین کے ساتھ ہوا۔ اگر آج یوکرین ایٹمی طاقت ہوتا تو اُسے ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

تازہ ترین