• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
19 اپریل کی سہ پہر میرے لئے اور دنیائے عالم کے لئے ایک افسوسناک خبر لے کر آئی۔ مجھے کسی نے اطلاع دی کہ پاکستان کے ممتاز صحافی اور اینکر پرسن حامد میر پر کراچی میں حملہ کیا گیا ہے اور اس میں وہ شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اس خبر کو سنتے ہی بے اختیار اللہ کریم سے حامد میر کی زندگی و سلامتی کی دعا نکلی اور مجھے وہ دن اور منظر یاد آنے لگے جب حامد میر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کر رہے تھے اور میں بھی جمعیت طلبائے اسلام کے ذمہ دار کی حیثیت سے طالب علمی کی سیاست میں سرگرم تھا اور جاوید جمال ڈسکوی مرحوم کا کمرہ ہمارا شام کا مسکن ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حامد میر کو بہت کم وقت میں بہت سارے امور طے کرنے اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے کا موقع دیا ہے۔ کئی مواقع ایسے ہیں جہاں پر میرے اور حامد میر کے درمیان فکری اور نظریاتی اختلاف بھی ہوا لیکن جاوید جمال ڈسکوی مرحوم کے کمرے سے بننے والا تعلق آج بھی قائم ہے اور قائم رہے گا۔ حامد میر پر حملے کی شام ان کے برادر عامر میر نے جو بیان دیا اور اس کے بعد جیو نیوز نے اس کو جس طرح چلایا اس پر بہت ساری باتیں ہو چکی ہیں۔ جنگ اور جیو گروپ کے کئی ذمہ داران بھی اس شام کے حادثے کو نامناسب قرار دے چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حامد میر پر ہونے والا حملہ اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کا احساس کرنے کے بجائے ایک ایسی فضا پیدا کی جا رہی ہے جو ہر پاکستانی کے لئے کرب ناک اور افسوسناک ہے۔ذرائع ابلاغ واضح طور پر تقسیم ہو چکے ہیں۔ غداری، ملک دشمنی، اسلام دشمنی اور ہندوستان کے وفادار ہونے کے فتوے ایک طرف اور قومی سلامتی کے اداروں پر تبریٰ دوسری طرف جاری ہے ۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بعض بونے 19 اپریل کی سہ پہر اور شام کو ہونے والے سانحوں پر اپنا قد کاٹھ بڑھانے کے لئے آگ کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی دنیا ہمارے اوپر قہقہے لگا رہی ہے کہ ہم خود ہی تماشائی اور خود ہی تماشا بنے ہوئے ہیں۔جیو نیوز کے نائب صدر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور دیگر کئی ذمہ داران پاک فوج اور آئی ایس آئی کے ادارے کو ملک و ملت کی سلامتی کا ضامن قرار دے رہے ہیں جبکہ حالات میں بہتری جس انداز سے نظر آنی چاہئے وہ نظر نہیں آ رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر خبر کے ساتھ لگانے سے اور اسے کئی گھنٹے چلانے سے آئی ایس آئی، پاک فوج اور خود جنرل ظہیر الاسلام کے اہل و عیال، دوست احباب کی دل آزاری ہوئی ہے۔ ہمیشہ فوج اور آئی ایس آئی کے معاملے میں سخت مؤقف رکھنے والی عاصمہ جہانگیر بھی اس بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ اس ماحول میں حکومت اور فوج کے ٹکرائو کی باتیں بھی شروع کر دی گئی ہیں اگرچہ جن کو جنرل راحیل شریف نے یوم شہداء کے موقع پر اپنی تقریر میں یکسر مسترد کر دیا ہے اور نہ صرف جمہوریت اور جمہوری عمل کی تائید و حمایت کا اعلان کیا ہے بلکہ آزاد میڈیا کے کردار کو بھی سراہا ہے جو بہرصورت اہل پاکستان کے لئے ایک خوش آئند اور حوصلہ افزاء بات ہے ۔ وزارت دفاع نے آئی ایس آئی کی شکایت پر پیمرا کو ایک درخواست ارسال کر دی ہے جس پر پیمرا کو کارروائی کرنی ہے لیکن پیمرا کس حد تک طاقتور ہے اور کس حد تک فیصلہ کرنے میں آزاد ہے یہ تو پوری قوم جانتی ہے۔ حامد میر پر حملے کے بعد وزیراعظم نے ایک عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور اگر اس کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تو حامد میر پر حملہ کرنے والے مجرمین کا تو معلوم نہیں کہ وہ پکڑے جائیں یا نہ جائیں لیکن آئی ایس آئی اور جنرل ظہیر الاسلام پر لگائے گئے الزامات کی حقیقت قوم کے سامنے آ جائے گی اور اب جبکہ جنگ اور جیو گروپ بھی یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ان کا معاملہ پیمرا کے بجائے عدالتی کمیشن کے سپرد کیا جائے تو پھر ان کی اس بات کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے کہ جنگ اور جیو پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں بھی قوم جان لے کہ کتنے درست اور کتنے غلط ہیں۔ ایک طرف جہاں ان اقدامات کی ضرورت ہے وہاں پر 19 اپریل کی شام جنرل ظہیر الاسلام کے حوالے سے چلنے والی نشریات کی وجہ سے جو فوج،آئی ایس آئی اور خود جنرل ظہیر الاسلام کی فیملی اور ان کے دوستوں کی دل آزاری ہوئی ہے اس پر دو بول ،بول دینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ آج جو پوری دنیا کے اندر پاکستان کے حوالے سے منفی تصویر کشی ہو رہی ہے اس کا ازالہ ہو سکے اور پاکستان کے اندر ان بونوں کو جو مختلف ٹوپیاں پہن کر آگ لگانے کے لئے کوشاں ہیں یہ موقع نہ مل سکے کہ وہ جیو اور جنگ کی نفرت میں وطن عزیز پاکستان کے امیج کو برباد کر سکیں۔ حامد میر پر حملہ اور جنرل ظہیر الاسلام کے حوالے سے چلائی جانے والی نشریات کے بعد اہل حکومت اور اہل صحافت پر یہ ذمہ داری بہت شدت کے ساتھ عائد ہوتی ہے کہ اب وہ مل بیٹھیں اور ایک ایسا ضابطہ طے کر لیں کہ جس سے کسی کو بھی یہ موقع نہ ملے کہ وہ اہل صحافت یا ملک کی سلامتی کے اداروں یا سیاست دانوں اور مذہبی رہنمائوں پر اپنے ذاتی ایجنڈا کے تحت سنگ باری کر سکے۔ اہل صحافت کو اس بات کا احساس ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ مسلسل میڈیا گروپ پر حملے ان کو اس طرف دعوت دیتے ہیں کہ وہ نجی چینل اور مقامی اخبار اور قومی اخبار کی اصطلاحوں سے نکل کر ایک دوسرے کے غم میں شریک ہونا سیکھیں۔ حامد میر سے قبل دوسرے میڈیا گروپ کے کارکنان پر جو حملے ہوئے وہ بھی اہل صحافت کی توجہ چاہتے ہیں کیونکہ اگر تقسیم رہ کر اپنے اپنے زخموں کو دیکھ کر چیخیں گے اور دوسرے کے زخموں کو دیکھ کر خوش ہوں گے تو اس سے آزاد صحافت پروان نہیں چڑھے گی بلکہ صحافت انتقام کا رنگ اختیار کر لے گی جس کی چند جھلکیاں ابھی ہمیں نظر آتی ہیں۔ اس انتقامی صحافت کو آزادانہ صحافت میں بدلنے کے لئے ماضی کی غلطیوں سے بھی سبق سیکھنا چاہئے اگر قومی وحدت کے بجائے ذرائع ابلاغ کے درمیان اور قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہو جائے تو اس کے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس لئے اس نقصان سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جس سے جہاں پر کوئی زیادتی اور کوتاہی ہوئی ہے وہ اس کا احساس اور ادراک کرے اور اشتعال کے بجائے احساس اور اعتدال کو اجاگر کیا جائے۔
تازہ ترین