• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہل گام کا مطلب ہے گڈریوں کی بستی۔ کشمیری زبان میں گڈریوں کو ’’پہل‘‘ کہتے ہیں اور ’’گام‘‘ کے معنی گائوں یا بستی کے ہیں۔ پرانے زمانے میں پہل گام صرف ایک خوبصورت چراگاہ تھی اور یہاں گڈریوں کے کچھ گھر تھے۔ 22 اپریل 2025ء کے بعد سے بھارتی میڈیا اس خوبصورت چراگاہ کو ہندوئوں کی قتل گاہ قرار دیکر بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان پر لگارہا ہے۔ 22 اپریل کی دوپہر پہل گام میں 28 بھارتی سیاحوں کا بے دردی سے قتل انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ واقعہ ناصرف غیرانسانی بلکہ غیراسلامی ہے کیونکہ نہتے غیر مسلموں کے قتل کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس لئے اگر ہم بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے نہتے مسافروں پر حملے کی مذمت کرتے ہیں تو ہمیں پہل گام میں نہتے سیاحوں پر حملے کی بھی مذمت کرنی چاہئے۔ دہشت گردی کے اس واقعے کا سب سے قابل غور پہلو یہ ہے کہ جنگلات سے گھری اس بلند و بالا گڈریوں کی بستی میں تامل ناڈو، مہاراشٹر اور دیگر بھارتی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے مناسب حفاظتی انتظامات کیوں نہ کئے گئے تھے؟ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ اور جغرافیے پر نظر رکھنے والے ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہل گام کا علاقہ کئی دہائیوں سے بھارتی شہریوں کیلئے غیرمحفوظ ہے۔ بھارتی حکومت نے اپنے شہریوں کو اس علاقے میں ممکنہ خطرات سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟ کیا یہ بھارتی سیکورٹی اداروں کی ناکامی نہیں ہے کہ اچانک جنگل میں سے ایم فور امریکی رائفلوں اور اے کے 47 رائفلوں کے ساتھ عسکریت پسند نمودار ہوئے اور انہوں نے بہت سے ہنستے گاتے سیاحوں کو گھیرا ڈال کر صرف مردوں کو گولیاں ماریں، عورتیں اور بچے انکی گولیوں کا نشانہ نہیں بنے۔ جب ایک عورت کے سامنے اس کے خاوند کو گولی ماری گئی تو اس نے عسکریت پسند سے کہا کہ مجھے بھی گولی مار دو لیکن عسکریت پسند نے اسے گولی نہیں ماری۔ کچھ عرصہ قبل مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی کو یہ بتایا گیا تھا کہ 2024ء میں 35لاکھ سیاح ریاست کے مختلف مقامات کی سیر کرنے آئے ان میں 43ہزار غیر ملکی سیاح تھے بھارتی میڈیا نے ان اعداد و شمار کی بنیاد پر مقبوضہ ریاست میں تحریک آزادی کے خاتمےکا اعلان کر دیا۔ پہل گام میں نہتے بھارتی سیاحوں کے قتل کی ذمہ داری ایک طرف بھارتی سیکورٹی اداروں پر عائد ہوتی ہے اور دوسری طرف اس کا ذمہ دار وہ کنٹرولڈ میڈیا ہے جس نے بھارتی عوام کو یہ نہیں بتایا کہ پہل گام ان کیلئے بہت غیر محفوظ علاقہ ہے۔ پہل گام ہمیشہ سے غیر محفوظ نہیں تھا 1992ء میں انتہا پسند ہندوئوں نے بابری مسجد پر حملہ کیا تو پہلی دفعہ 1993ء میں پہل گام میں امرناتھ یاترا کیلئے آنے والے بھارتی شہریوں پر حملہ ہوا تھا۔ 1993ء سے قبل یہ علاقہ مذہبی رواداری کی ایک مثال کہلاتا تھا پہل گام کا خوبصورت علاقہ سرینگر سے 96 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہ ضلع اننت ناگ کا حصہ ہے جسے 1664ء میں یہاں کے گورنر اسلام خان نے اسلام آباد کا نام دیدیا تھا اننت ناگ کا مطلب ان گنت چشموں کا شہر ہے بعض ہندو روایات کے مطابق اس علاقے میں ویشنو دیوتا کا بھی بسیرا تھا ہندوئوں کا مشہور تیرتھ امرناتھ پہل گام سے 45 کلو میٹر کے فاصلے پر ہمالیہ کی بلندیوں میں واقع ہے۔ ہندو یاتری ہر سال ساون میں پورن ماشی کے روز امرناتھ یاترا کیلئے آتے ہیں۔ اپنے سفر کا آغاز پہل گام سے کرتے ہیں اور وادی لدر میں گنیش بل کے مقام پر اشنان کرتے ہوئے چندن واڑی پہنچتے ہیں۔ یہاں سے خطرناک چڑھائی شروع ہوتی ہے پھر جھیل شیش ناگ پر اشنان ہوتا ہے۔ آگے پنج ترنی (پانچ ندیوں کی وادی) آتی ہے۔ یہاں بھی ٹھنڈے پانیوں میں اشنان کرتے ہوئے یہ یاتری بھجن گاتے ہوئے ایک بہت بڑے غار کے سامنے پہنچتے ہیں اور جب اس غار کے اندر سے جنگلی کبوتر باہر آتے ہیں تو یاتریوں کے خیال میں امرناتھ جی کا درشن ہو جاتا ہے اور پھر وہ واپس چلے جاتے ہیں۔ اننت ناگ میں ایک چشمہ ناگہ بل ہے جہاں ہندوئوں کا مندر، مسلمانوں کی مسجد اور سکھوں کا گوردوارہ ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ مذہبی رواداری کی ایک اور مثال مسجد بابا دائود خاکی ہے جس کے صحن میں ہندوئوں کا مندر ہے ایک اور کشمیری صوفی ریشہ مول کا مقبرہ بھی اسی علاقے میں ہے جن کے عقیدت مندوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے بابری مسجد کے واقعے نے اس علاقے میں مذہبی رواداری پر منفی اثرات مرتب کئے۔ 15اگست 1993ء کو اس علاقے میں امرناتھ یاتریوں پر حملے میں آٹھ لوگ مارے گئے۔ 1994ء کے حملے میں پانچ، 1998ء کے حملے میں 20، 2000ء کے حملے میں 32، 2001ء میں 13، 2002ء میں 9، 2006ء میں 5،2012ء میں 7، 2022ء میں 4 اور 2024ء میں 10یاتری مارے گئے۔ پچھلے سال 19مئی 2024ء کو شوپیاں اور اننت ناگ میں سیاحوں پر حملہ ہوا جسکے بعد ضروری تھا کہ اس سال سیاحوں کو ممکنہ حملے سے خبردار رکھا جاتا لیکن سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ بھارت کے کنٹرولڈ میڈیا نے اپنے عوام کو مقبوضہ ریاست میں ممکنہ خطرات سے آگاہ نہیں کیا حالانکہ پہل گام کے جنگلات میں سیکورٹی فورسز آئے روز سرچ آپریشن کرتی ہیں۔ ستمبر 2023ء میں اننت ناگ کے علاقے کُکر ناگ کے پہاڑی جنگل میں بھارتی فوج نے مقامی پولیس کے ساتھ مل کر ایک سرچ آپریشن شروع کیا جس میں بھارتی ایئرفورس کے ڈرون بھی شامل تھے۔ جنگل میں کئی دن تک شدید لڑائی ہوئی جس میں راشٹریا رائفلز کے کرنل من پریت سنگھ اور جموں و کشمیر پولیس کے ایک ایس پی ہمایوں بھٹ سمیت کئی افسران مارے گئے۔ یہ لڑائی اسی گروپ سے ہوئی جس نے پہل گام میں سیاحوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ گروپ 2019ء میں بھارتی آئین کی دفعہ 370ختم ہونے کے بعد محاذ برائے مزاحمت کے نام سے قائم ہوا تھا ۔اس گروپ کے کمانڈر شیخ سجاد گل کا تعلق سرینگر سے ہے جو دہلی کی تہاڑ جیل میں چار سال قید گزار کر 2006ء میں رہا ہوا اور 5اگست 2019ء کے دوبارہ متحرک ہوا۔یہ گروپ غیر مقامی ہندوئوں کو مقبوضہ ریاست کے ڈومیسائل جاری کرنے کی پالیسی کے خلاف سرگرم عمل ہے لیکن نہتے سیاحوں پر حملہ کسی بھی صورت میں آزادی کی جنگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس قسم کے حملے کہیں بھی ہوں حملہ آوروں کی نسل، قوم اور مذہب کیلئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ 14فروری 2019ء کو پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملے کے بعد 26فروری 2019ء کو بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کر کے اپنا ہی نقصان کیاتھا۔ 22اپریل کے پہل گام حملے کے بعد پاکستان کے خلاف پھر کسی ایڈونچر کا خطرہ موجود ہے واضح رہے مسئلہ کشمیر کسی ایڈونچر سے نہیں آخر کار بات چیت سے طے ہو گا۔

تازہ ترین