مینڈک کو سانس لینے کے لیے صرف پھیپھڑوں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی جلد میں پانی جذب کرنے اور سانس لینے میں مدد دینے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے؟
مینڈک کی جلد بہت باریک اور نم ہوتی ہے جس پر غدود موجود ہوتے ہیں جو نمی کو برقرار رکھنے اور آکسیجن کو جسم کے اندر داخل ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
اس حوالے سے نیویارک میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے کیوریٹر اور ہرپٹولوجسٹ کرسٹوفر ریکس ورتھی نے بتایا کہ مینڈک کی جلد اس انداز سے ڈیزائن کی گئی ہے کہ آکسیجن اس کے اندر داخل ہو سکے اور پانی اس میں جذب ہو سکے۔
ان کے علاوہ، مینڈکوں اور ٹیڈپولز کے سانس لینے کے طریقہ کار کا مطالعہ کرنے والے کنیکٹی کٹ یونیورسٹی کے ایک ارتقائی ماہر حیاتیات کرٹ شوینک نے بتایا کہ مینڈک کی جلد کے نیچے خون کی باریک شریانوں کا جال ہوتا ہے جو آکسیجن کی منتقلی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا ذریعہ ہے اور اس طرح سانس لینے کے عمل کو ’کیوٹینئس ریسپائریشن‘ کہتے ہیں جو تقریباً پھیپھڑوں جیسا ہی مؤثر گیس ایکسچینج میکانزم مہیا کرتا ہے۔
مینڈک میں سانس لینے کے متعدد نظام
کرٹ شوینک نے مزید بتایا کہ مینڈک ناصرف اپنی جلد بلکہ پھیپھڑوں اور منہ کی ’بکل لائننگ‘ یعنی منہ کی اندرونی جھلی کے ذریعے بھی سانس لیتے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ پانی کے اندر رہتے وقت مینڈک کے لیے جلد کے ذریعے آکسیجن لینا زیادہ مؤثر ہوتا ہے جبکہ خشکی پر منہ اور پھیپھڑوں کا تعاون زیادہ فعال رہتا ہے۔
مینڈک میں جلد کے ذریعے پانی جذب کرنے کی صلاحیت
کرٹ شوینک نے یہ بھی بتایا کہ مینڈک اپنی غدود والی جلد میں پانی بھی جذب کر سکتے ہیں اور بہت سے مینڈکوں کی جلد پر ایک انتہائی عروقی علاقہ ہوتا ہے جسے ’ڈرنکنگ پیچ‘ کہا جاتا ہے جس کے ذریعے وہ پانی کی ایک بڑی مقدار اپنے اندر جذب کر سکتے ہیں۔
کرسٹوفر ریکس ورتھی نے بتایا کہ بنجر علاقوں میں پائے جانے والے کچھ مینڈک جیسے ٹریلنگ مینڈک اور آسٹریلیا کے صحراؤں میں رہنے والے مینڈک خاص طور پر برسات کے موسم میں پانی جذب کرنے میں ماہر ہوتے ہیں، وہ پانی کو جذب کرکے ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر وہ زمین میں چلے جاتے ہیں اور بعض اوقات وہ اپنے ارد گرد بلغم کی ایک اضافی تہہ بھی بنا لیتے ہیں اور پھر وہ اگلی بارش ہونے تک اسی پانی پر زندہ رہ سکتے ہیں۔