پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے فروخت کے جانے والے تمام پرانے پاور پلانٹس کی تفصیلات طلب کرلیں۔
چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت ہونے والے پی اے سی اجلاس میں سیکریٹری پاور ڈاکٹر فخر عالم نے شرکاء کو بریفنگ دی۔
سیکریٹری پاور نے بتایا کہ ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت ضرورت سے زیادہ ہے، لوڈ شیڈنگ لائن لاسز والے علاقوں میں ہو رہی ہے۔
اس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ملک میں بجلی نہیں ہے اور آپ کہہ رہے ہیں اوور کیپسٹی ہے۔
ڈاکٹر فخر عالم نے کہا کہ مظفر گڑھ کے 5 پاور ہاؤس فروخت کیے جائیں گے، پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پاور پلانٹس کی نجکاری نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ گدو اور نندی پور کمبائنڈ سائیکل پاور پلانٹس کی نجکاری کی جا رہی ہے، پرانے پلانٹس کی فروخت کےلیے اسٹیٹ بینک کے ایلیوایٹرز سے قیمت لگوائی گئی ہے۔
سیکریٹری پاور نےیہ بھی کہا کہ پرانے پاور پلانٹس کو کابینہ نے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان پلانٹس کی صرف مشینری فروخت کی جا رہی ہے، اراضی نہیں۔
پی اے سی نے سیکریٹری پاور سے کہا کہ فروخت کیے جانے والے تمام پرانے پاور پلانٹس کی تفصیلات دی جائیں اوراب تک فروخت ہونے والے پاور پلانٹس کے اسپیشل آڈٹ کیا جائے۔
شرکاء کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ صرف ان پلانٹس کا آڈٹ کر سکتے ہیں جن کی فروخت مکمل ہو چکی ہے۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ پرانی ٹیکنالوجی کے حامل یہ پلانٹس مہنگی بجلی پیدا کرتے ہیں، ان پلانٹس کی فروخت کا فیصلہ کابینہ کا ہے۔
دوران اجلاس پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) میں 5 ارب کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، اس دوران 2 آڈٹ پیراز بھی زیر غور آئے۔
اس موقع پر پی پی پی کے ایم این اے نوید قمر نے کہا کہ یہ اتھارٹی خود کو وفاقی حکومت کے زیر انتظام نہیں سمجھتی۔
اس پر سیکریٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کہا کہ ہم اتھارٹی کے اس موقف کو درست نہیں سمجھتے ہیں، یہ وفاقی حکومت سے فنڈز لیتی ہے، اس لیے ہمارے زیر انتظام ہی رہے گی۔
پی اے سی نے ایک ماہ میں پی ایس کیو سی اے کے مالیاتی قواعد بنانے کی ہدایت کی۔
اجلاس کے شرکاء کو آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ 7 سے 8 سرکاری ادارے اس وقت آڈٹ کروانے سے انکاری ہیں۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ آڈٹ نہ کروانے والے تمام اداروں کے سربراہان کو طلب کیا جائے۔