• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے مشرقی ہمسائے بھارت میں بی جے پی کے نریندر مودی کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے اور مغربی ہمسائے افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کے متوقع صدارتی انتخابات جیتنے کی صورت میں پاکستان ایک عجیب قسم کی بے یقینی کے صورتِ حال سے دو چار ہونے والا ہے جو ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کے لئے ایک تاریخی امتحان سے کم نہیں کیونکہ اس سے پیشتر پاکستان اس قسم کی نازک اسٹریٹجک پوزیشن میں کبھی نہیں آیا۔ نریندری مودی کا امیج ایک اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان سیاستدان کے طور پر مشہور ہے اور وہ اپنی انتخابی مہم میں ’’پاکستان کو سبق سکھانے‘‘ کے نعرے کے ساتھ برسرِاقتدار آئے ہیں۔ وہیں عبداللہ عبداللہ افغانستان کا وہ اینٹی پاکستان رہنما ہے جس نے ایک مرتبہ پاکستان پر ایٹم بم گرانے کا بیان دے کر سفارتی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ گویا پاکستان کو اگلے چند ماہ کے بعد اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر لٹکتی ہوئی دو دھاری تلوار کا سامنا کرنا ہو گا جس کی اہمیت امریکہ اور اس کے حلیفوں کے افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد اور بھی بڑھ جائے گی کیونکہ امریکی انخلا کے بعد اس خطّے میں ان دونوں منتخب سربراہوں کی موجودگی میں دیگر پاکستان مخالف قوتوں کے بھی کافی طاقتور اور فعال ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اس کے نام نہاد ’’افغان جہاد‘‘ کے دوران پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات کا ہنی مون مدّت ہوئی ختم ہو چکا ہے بلکہ افغانستان کے ملحقہ قبائلی علاقوں میں مذہبی انتہا پسندوں کی شورشوں اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی برآمدگی کے بعد تقریباً طلاق پر پہنچ چکا ہے۔ صرف یہی نہیں ہمارے سابق فوجی حکمرانوں کی پالیسیوں کے ردِعمل کے طور پر بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ یہ صورتِ حال اس وقت اور بھی گمبھیر ہوتی دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ کی بدترین معاشی اور داخلی امن و امان کی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ مذہبی تشدّد پانی ، بجلی ، گیس کے بحران ، آبادی میں بے تحاشا اضافے اور بیروزگاری نے اسے ایک طرح کی ’’حالتِ جنگ‘‘ میں مبتلا کر رکھا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے نوزائیدہ جمہوری نظام کو مختلف طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے۔ جس میں دھرنوں کی سیاست اور آزادیٔ صحافت پر حملے سرِفہرست ہیں۔ گویا ہم اس وقت معاشی اور سیاسی لحاظ سے کمزور ترین پوزیشن پر ہیں جس میں پاکستان کے دفاع، استحکام اور ترقی کے لئے قدم قدم پر احتیاط کی ضرورت ہے اور ذرا سی بے احتیاطی جذباتی پن یا طالع آزمائی ہمارے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اس صورتِ حال سے نپٹنے کے لئے ہمارے تمام سیاستدانوں اور مقتدر حلقوں کو مل بیٹھ کر ایک لائحہ عمل بنانے اور اپنے اپنے پارٹی مفادات سے بالا ہو کر قومی مفادات کے لئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں قومی قیادت کو فوری طور پر ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کرنا چاہئے اور اس کی ابتداء کے طور پر دھرنوں اور محاذ آرائی کی سیاست کو خیر باد کہہ کر قومی مفادات کے تحت متفقہ فیصلے کرنے چاہئیں جس میں سرِفہرست پاکستان میں جاری نوزائیدہ جمہوری نظام کو مستحکم کرنا شامل ہے کیونکہ ماضی میں ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ محاذ آرائی اور جنگوں کے تکلیف دہ واقعات ہماری غیر سیاسی حکومتوں کے دوران ہی ہوئے ہیں جنہوں نے ہمیں کمزور سے کمزور تر کردیا ہے جبکہ ہماری تمام سیاسی حکومتوں کے زمانے میں ان ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ بہتری کی جانب گامزن رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں سانحۂ مشرقی پاکستان کے باوجود کمزور ترین پوزیشن میں بھی معاہدہ شملہ کی وجہ سے نہ صرف ہمارے ایک لاکھ جنگی قیدی واپس لائے گئے بلکہ مغربی پاکستان کا تقریباً پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ بھی بھارت نے پاکستان کو واپس کر دیا۔ اس وقت یہ امید بھی پیدا ہو گئی تھی کہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کشمیر کے معاملے پر بھی کسی فیصلے پر پہنچ جائے گی لیکن جنرل ضیاء الحق نے جمہوری حکومت پر شب خون مارکر نہ صرف سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا بلکہ سامراجی طاقتوں کی طرف سے شروع کئے جانے والے نام نہاد’’ افغان جہاد‘‘ میں پاکستان کو بغیر سوچے سمجھے دھکیل کر اس کی مصیبتوں کے نئے دروازے کھول دیئے۔ فاتحین ِ افغانستان کی خود ساختہ اسٹریٹجک ڈیپتھ(Stratgic Depth) کی پالیسی نے جہاں افغان عوام کو پاکستان کا مخالف بنا دیا وہیں پاکستان کے لئے مذہبی انتہا پسندی کی ایسی دلدل تیار کر دی جس میں ہم گلے گلے تک پھنس چکے ہیں اور اس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ اسی زمانے میں پاکستان کو سیاچن کے اپنے علاقے سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ اسی طرح میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں جب بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے دورے پر آئے اور مینارِ پاکستان پر جا کر انہوں نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا تو اس وقت بھی ایک امید افزا صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی کہ پاکستان اور بھارت کشمیر سمیت اپنے تمام متنازع مسائل کو حل کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے لیکن اس وقت بھی جنرل پرویز مشرف نے ان تمام کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے میاں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور کارگل کے ایڈونچر کے ذریعے پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کروادی اور کشمیر کے معاملے میں ہمارے قومی موقف کو کمزور کردیا۔
لیکن اب بھارت میں نریندر مودی اور افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کی موجودگی پاکستان کو اپنے اندرونی اختلافات پر قابو پانے، جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اس مشکل صورتِ حال سے عہدہ برآہ ہونے کے لئے آنحضرتﷺ کے زمانے میں کفارِ مکّہ کے ساتھ ہونے والے معاہدۂ صلح حدیبیہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کمزور پوزیشن میں ہونے کے دوران کس طرح اپنے مفادات کا تحفظ کیا جا سکتا ہے کیونکہ تاریخ میں صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہی بعد میں فتحِ مکّہ کی بنیاد بنا تھا۔
تازہ ترین