آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں نئی ترامیم کے ساتھ بھاری اکثریت سے منظور کرالیا گیا۔ 17ہزار 573ارب روپے حجم کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو مزید ریلیف دیا گیا ہے جو یقیناََ ایک درست فیصلہ ہے کیونکہ ہمارے معاشی حکمت کار بالعموم مالی وسائل کی فراہمی کیلئے سب سے آسان راستہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھاتے چلے جانے کو تصور کرتے رہے ہیں جبکہ قومی معیشت میں بڑا حصہ رکھنے والے کئی شعبے حکومت کی محصولاتی آمدنی میں برائے نام شریک ہوتے ہیں تاہم موجودہ دور میں ان شعبوں کو بھی بتدریج ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ تمام مالیاتی لین دین کو آن لائن یا ڈیجیٹل نظام سے منسلک کرنے کی کوششیں ا مید ہے کہ اس ضمن میںکارآمد ثابت ہوں گی اور تمام شعبے ٹیکس کی فراہمی میں منصفانہ طور پر شریک ہوکر کاروبار مملکت کو رواں رکھنے اور ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے میں حصہ لیں گے۔ قومی اسمبلی نے جن نئی ترامیم کے ساتھ فنانس بل کی منظوری دی ان کے مطابق سولر پینل کی درآمد پر سیلز ٹیکس 18سے کم کرکے 10فیصد کردی گئی نیز پٹرولیم مصنوعات پر 2.5فیصد کاربن لیوی عائد کی گئی اور اسے کلائمٹ سپورٹ کا نام دیا گیاہے۔ شمسی توانائی کی حوصلہ افزائی کیلئے اب تک سولر پینل کی درآمد پر ٹیکس عائد نہیں کیا گیا تھا تاہم توقع ہے کہ دس فی صد ڈیوٹی کے باوجود سولر سسٹم کی تنصیب کا رجحان برقرار رہے گا کیونکہ سرکاری بجلی کے مقابلے میں صارف کیلئے توانائی کے حصول کا یہ بہت سستا ذریعہ ہے۔پانچ کروڑ روپے سے زائدسیلز ٹیکس فراڈ کی صورت میں ملزم کی گرفتاری کے بعد چوبیس گھنٹے کے اندر اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جانا لازمی قرار دیا گیا ہے جو انصاف کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے کارگو ٹریکنگ سسٹم کی تنصیب اور ڈیجیٹل دستاویزات کیلئے ای بلٹی سسٹم کے نفاذ سے بھی مالیاتی و معاشی نظام پر مفید اثرات مرتب ہونگے۔