30؍جون 2025ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران مختلف طبقات سے حاصل ہونے والے محصولات کے اعدادو شمار اس اعتبار سے حوصلہ افزا نہیں کہے جاسکتے کہ اس سے پچھلے مالی سال میں متعارف کرائی گئی تاجر دوست اسکیم کی ناکامی کا اظہار ہو رہا ہے اور پرچون فروشوں کو ہی نہیں، دیگر طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے ترغیبی و تادیبی طریقے موثر بنانے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔ ٹیکس کا فلسفہ یہ ہے کہ ریاست کو اپنے شہریوں کے تحفظ و سلامتی کے تقاضوں سے لیکر انہیں سڑکوں، پلوں، شاہراہوں، فراہمی آب، نکاسیٔ آب، ماحولیاتی ضروریات، امن و امان، تعلیم سمیت بیشمار مدوں میںسہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے سرمایہ درکار ہوتا ہے جس میں ریاست کے شہری اپنا اپنا حصّہ ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ یہ حصّہ اگر ریاستی وسائل سے زیادہ فوائد حاصل کرنے والے طبقات زیادہ ادا کررہے ہیںاور کم فوائد حاصل کرنے والے طبقات اپنے وسائل کے اعتبار سے کم ادا کررہے ہیں تو اسےانصاف پر مبنی کہا جاتا اور فوائد معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچانے کے ذریعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں ریاست کا نظام ٹیکسوں کے ذریعے چلتا جبکہ ٹیکسوں کی ادائیگی کو شہریوں کی ذمہ داری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں لوگ اس امر پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ریاست کو ٹیکس دیتے ہیں یا زیادہ ٹیکس دینے کے اعزاز کےحامل ہیں۔ ان ملکوں میں ٹیکس گریزی سنگین جرم کے طور پر دیکھی جاتی ہے جبکہ وطن عزیز میں یہ بات شدّت سے محسوس کی جاتی ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکسوں کی ادائیگی ان توقعات سے مطابقت نہیں رکھتی جو بعض شعبوں سے وابستہ کی جاسکتی ہے۔ مالی سال 2024-25ء کے ٹیکسوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں موجود خاموش اور بے آواز تنخواہ دار طبقے سے 545ارب روپے کی تاریخی رقم انکم ٹیکس کی مد میں وصول ہوئی۔ اس طرح تنخواہ دار افراد براہ راست ٹیکسوں کے لحاظ سے تمام شعبوں میں سب سے زیادہ حصّہ ڈالنے والے بن گئے ہیں۔ برآمد کنندگان نے ڈالر میں آمدنی حاصل ہونے کے باوجود صرف 180ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا جبکہ تاجروں نے، جو ہر سیاسی جماعت سے جُڑے سمجھے جاتے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 236جی اور 236ایچ کے تحت محض 62ارب روپے کی ادائیگی کی۔ اعلیٰ حکام کے مطابق مجموعی طور پر تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ مالی سال میں برآمدکنندگان اور تاجروں کی مشترکہ ادائیگی سے دگنا زیادہ انکم ٹیکس ادا کیا۔ مالی سال 2023-24ء میں تنخواہ دار طبقے نے 367ارب روپے ٹیکس دیا تھا جبکہ 2024-25ء میں یہ رقم 78ارب اضافے کے ساتھ 545ارب روپے ہوگئی۔ مختلف شعبوں میں پائے جانے والے ٹیکس گریزی رجحان میں تبدیلی کے لئے ایف بی آر بھی متحرک ہے اور وزیراعظم بھی اسی بات پر زور دے رہے ہیں۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کم کرنے کے ضمن میں رواں بجٹ میں کئی اقدامات سامنے آئے ہیں جبکہ زرعی شعبے میں خصوصی کمیٹی بناکر پہلے سے جاری مختلف مدوں میں علیحدہ علیحدہ ٹیکسوں کی بجائے یونیفارم ٹیکس کے تعین کی ضرورت ہوگی جس میں یہ صراحت ہونی چاہئے کہ ٹیکس کے لئے فصل کا حجم دیکھنا ہوگا یا آبیانہ کی مقدار پیش نظر رکھنی ہوگی۔ صنعت کاروں میں سے بہت سے افراد ٹیکس دے رہے ہیں، مگر نئے ٹیکس گزار تلاش کرکے نیٹ میں لانے بھی ضروری ہیں۔ اس باب میں طریق کار آسان بنانا ہوگا۔ بھارت میں تقریباً ہر فرد ایک ٹیکس نمبر کا حامل ہوتا ہے ہم بھی شناختی کارڈ اور ٹیکس نمبر ایک ہی کرکے یاد کرنے میں آسانی پیدا کرسکتے اور پیچیدگی سے بچ سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ٹیکس دینے کے قابل افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے ساتھ ٹیکس ادائیگی کے ضمن میں آسانیاں پیدا کرنی ہیں۔