یہ 2003ء کی بات ہے، دل آویز لاہوری نہر کے دونوں اطراف ’’مال روڈ انڈرپاس‘‘ منصوبے پر تعمیراتی کام شروع ہو چکا تھا کہ درختوں کی مجوزہ کٹائی کے خلاف غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) نے حکم امتناعی حاصل کر لیا جسکی وجہ سے اس اہم منصوبے پر تعمیراتی کام روک دیا گیا۔ اس عبوری تعطل کے دوران منصوبے کے محرک محکمہ مواصلات و تعمیرات کی جانب سے ہمیں بھی تکنیکی اور دفاعی دلائل پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ چنانچہ مسند عدالت ماحولیاتی ٹربیونل کو گزارش کی گئی کہ بلاشبہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے عارضی ماحولیاتی نقصان موجود ہے، لیکن بڑے شہروں کے اندر فلائی اوورز، انڈرپاسز اور سڑکوں کی توسیع بھی درختوں کی طرح ماحولیاتی اصلاح کے مقاصد کی حامل ہے، کیونکہ ان اربن منصوبہ جات کی مدد سے شاہرات پر ٹریفک کے اژدھام کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے، جو نہ صرف متناسب طور پر شہری راستوں میں تقسیم ہو جاتی ہے بلکہ مصروف ٹریفک اشاروں اور چوکوں پر ٹریفک کے انتظاری دورانیہ کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے جسکی وجہ سے گاڑیوں کے Retention اور ایندھن کی بچت ہوتی ہے، بلکہ اس بے کار انتظار کے دوران گاڑیوں، موٹرسائیکلوں و دیگر ٹریفک سے نکلنے والی ایک درجن کے لگ بھگ خطرناک اور مضر صحت گیسوں کا احتمال نہیں رہتا۔ جبکہ یہ خصوصیات کماحقہ‘ نہر کنارے ایستادہ ہزاروں درختوں میں موجود نہیں ہیں، کیونکہ وہ تو محض کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور عوض میں مفید آکسیجن بھی فراہم کرتے ہیں۔ نہر کے اطراف و اکناف میں چونکہ چارگنا نئے درختوں کا منصوبہ بھی انڈرپاس اخراجات میں شامل ہے، جبکہ اس مقام پر مشکلات کے پیش نظر انڈرپاس جیسے ماحول دوست منصوبے کا کوئی متبادل نہیں۔ معزز ممبرانِ ٹربیونل کو ابتدائی نمونوں یعنی پروٹوٹائپ کی مدد سے بھی آگاہ کیا گیا کہ موجودہ منصوبہ کس طرح روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں گاڑیوں کو اجتماعی طور پر کئی گھنٹوں کے بے کار انتظار سے محفوظ کر دے گا اور یوں انتہائی ضرر رساں گیسوں ازقسم کاربن مونوآکسائیڈ، نائٹروجن و سلفرآکسائیڈ، گرین ہائوس، میتھین گیس، VOCs اور زمینی اوزون وغیرہ کے اخراج اور نقصانات کو کم کرے گا۔ یاد رہے کہ یہ وہی تباہ کار آلودگیاں ہیں جو انسانوں میں متلی، لاغرین، سینے اور تنفس کی بیماریاں، دمہ وغیرہ، پھیپھڑوں کا کینسر، فسادِخون اور اعصابی کھنچائو کا باعث بنتی ہیں۔ ہم نے اس تقابلی ماڈل کے ذریعے درختوں کے مجوزہ کٹائو کے اثرات بھی بیان کئے اور وضاحت کی کہ محدود تعداد میں درختوں کی یہ محرومی شہر کے اجتماعی کاربن Sink اور اخراجِ آکسیجن کی صلاحیتوں پر اثرانداز نہ ہو گی اور نہ ہی نہر کی جمالیات، قدرتی مناظر اور پرندوں کے مساکن پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے، کیونکہ ان تمام ممکنہ اثرات کی تلافی بھی انڈرپاس پروجیکٹ میں ہی مہیا کر دی گئی ہے کہ جسکے تحت نہر اور شہر کے نواح میں چارگنا درختوں کی آبیاری یا متاثرہ درختوں کی تبدیلیِ مقام بھی شامل ہے۔ چنانچہ ان دلائل کی روشنی میں معزز ٹربیونل نے انڈرپاس تعمیر کے منصوبہ پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ مال روڈ اور اسکے بعد بننے والے متعدد انڈرپاسز، بالائی پلوں اور سڑکوں کی توسیع کے منصوبہ جات نے شہری ٹریفک کی مشکلات کو مؤثر طور پر کم کر دیا، بلکہ ان منصوبہ جات کے نواح اور نہر کے ہر دو اطراف میں بھی ماحولیاتی بہتری اور جمالیات میں اضافہ ہوا ہے۔ تبھی تو ان مقامات اور سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد اور روانی توقع سے کئی گنابڑھ گئی ہے اور شہری ان راستوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ تو ہائیڈرو کاربن یا پٹرول وغیرہ سے چلنے والی ٹریفک کا تجزیہ تھا جنکے Retention میں کمی کی وجہ سے انڈرپاسز اور بالائی پلوں کو کامیابی ملی اور عدالتوں نے درختوں کی محدود کٹائی کو تکمیل میں حائل نہ ہونے دیا۔ عوامی ٹرانسپورٹ کا ایسا منصوبہ جسکے تحت لاکھوں موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی بجائے برقی توانائی سے چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کا اہتمام ہو۔ ایسے منصوبہ جات کو پہلی فرصت میں شروع کیا جائے۔ بجلی سے چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ اور میٹرو سیریز نہ صرف خطرناک گیسوں کے نقصانات کو ختم کر دے گی بلکہ عوام الناس کیلئے سستی، تیز رفتار اور پُرسکون ٹرانسپورٹ کی ضمانت ہو گی۔ چند ہزار درختوں سے عارضی محرومی ایسے پروجیکٹ کے مقابل پرِکاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
کسی بھی مجوزہ ترقیاتی منصوبہ کے فوائد اور نقصانات کے ماحولیاتی جائزہ اور جواز کی روشنی میں بہتر انتخاب کیا جا سکتا ہے اور اس منصوبے کو بعدازاں مزید پائیدار بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت مجوزہ پروجیکٹ کے منفی اور مثبت اثرات کی شدت یعنی Weightage کو معلوم کیا جاتا ہے۔ مثبت اثرات منفی اثرات سے زیادہ شدت رکھتے ہوں تو پروجیکٹ پر عملدرآمد فوائد زیادہ آسان اور یقینی ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود پروجیکٹ کے منفی اثرات کو زائل کرنا لازم ہے جیسے متاثرین کے اثاثہ جات، کاروبار، روزگار کی بحالی اور زرتلافی، درختوں، فصلوں اور ذرائع مواصلات کی متبادل بحالی، تاکہ اجتماعی طور پر ماحولیاتی اثاثہ جات اور اکالوجی متاثر نہ ہو۔
البتہ بچپن اور جوانی کی جو یادیں پرانی عمارتوں، تعلیمی اداروں، ہوسٹلوں، گھروں، باغیچوں اور کھیل کے میدانوں سے وابستہ ہوتی ہیں، انہیں ہم دوبارہ عملی طو رپر زندہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے ماحول میں خوشگوار تبدیلی نئی نسلوں کا حق ہے کہ وہ جدت کے ساتھ ان کو استعمال کر سکیں۔ پرانی نسل کے لوگ پرانے ماحولیاتی عناصر کو محفوظ بھی کر لیں تو یادیں پھر بھی تڑپاتی رہیں گی کہ ماضی کے دوستوں، ہم جماعتوں، عزیزوں اور محفلوں کی پرانی ترتیب سے بحالی کسی کے بس کی بات نہیں۔ آیئے! درختوں، باغیچوں، لینڈ اسکیپ اور ماحولیات کی نئی، تبدیل شدہ اور بہتر اشکال کے مقابل اپنی پرانی یادوں کی Inventory کو قربان کر دیں۔