• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کی سیاست میں ایک نیا منظرنامہ ابھر رہا ہے۔ سیاست کی پرانی بساط پر نئی چالیں چلی جا رہی ہیں۔ ذوالفقار جونیئر سے لے کر ریحام خان تک، اور قوم پرست جماعتوں کے ناراض کارکنوں سے لے کر چند خودساختہ’’سندھ بچاؤ‘‘ تحریکوں تک، ہر کوئی ایک نئی جماعت بنانے کی بات کر رہا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک جمہوری حق ہے،تاہم اگر ان تمام کوششوں کا تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی مشترکہ نکتہ سامنے آتا ہے: ان سب کا پہلا ہدف پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔

سوال یہ نہیں کہ نئی جماعتیں کیوں بن رہی ہیں، سوال یہ ہے کہ یہ سب جماعتیں بن کیوں ایک ہی وقت میں بن رہی ہیں؟ اور سب کا ہدف پیپلز پارٹی ہی کیوں ہے؟ کیا واقعی عوام میں کسی نئے بیانیے کی بھوک ہے یا یہ سب کچھ ایک مخصوص منصوبے کا حصہ ہے؟ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کی کڑی ہے جس کا مقصد سندھ کی سب سے بڑی عوامی جماعت کو کمزور کرنا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ابتدا ہی سے جمہوریت دشمن اور مراعات یافتہ طبقے کے نشانے پر رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہو یا شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفیاں، پیپلز پارٹی کو ہمیشہ’’قومی سلامتی‘‘کے نام پر دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی۔ آج وہی انداز نئے چہروں کے ذریعے دہرایا جا رہا ہے۔ ماضی میں آئی جے آئی بنی، آج نئی جماعتیں وجود میں آ رہی ہیں۔

ملک کا ایک بڑا میڈیا سیگمنٹ مسلسل پیپلز پارٹی کو بدعنوانی، کرپشن اور بدانتظامی کے استعارے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ حالانکہ یہی مسائل باقی صوبوں میں کہیں زیادہ شدت سے موجود ہیں، لیکن تنقید کا مرکز صرف سندھ بنتا ہے۔ اب یہی میڈیا ذوالفقار جونیئر یا ریحام خان کو’’نئے پاکستان‘‘ کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہا ہے، چاہے ان کی سیاسی جڑیں زمین پر کہیں بھی موجود نہ ہوں۔

سینئر تجزیہ کاروں اور دانشوروں کا ماننا ہے کہ اس وقت جو کچھ سندھ میں ہو رہا ہے، وہ ایک خاص بیانیے کا حصہ ہے۔ جس میں عوامی شعور کو منتشر کرنا اور پیپلز پارٹی کو ایک پرانی اور ناکام جماعت کے طور پر پیش کرنا شامل ہے۔ اس کھیل میں بعض نام نہاد قوم پرست کردار بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

ذوالفقار جونیئر کی جماعت ہو یا ریحام خان کی ممکنہ تنظیم، ان کے پاس نہ تو تنظیمی ڈھانچہ ہے، نہ کوئی واضح منشور، نہ کوئی گراس روٹ سپورٹ۔ ان کے جلسے ہوں یا پریس کانفرنسز، ان میں ایک غیر فطری چمک اور ایک مشینی ساخت دکھائی دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ عوامی تحریک نہیں بلکہ لیبارٹری میں تیار کی گئی مہم ہے۔

پیپلز پارٹی کا سندھ کے عوام سے رشتہ صرف ووٹ کا نہیں، قربانیوں کا ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس نے لیڈر دیے، لاشیں اٹھائیں، جیلیں کاٹیں اور نظریات پر ڈٹے رہے۔ سندھ کا ووٹر جانتا ہے کہ اس کے ساتھ کس نے کھڑے ہو کر آواز بلند کی اور کس نے صرف اقتدار کے لیے نعرے لگائے۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی آج بھی اندرون سندھ کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔

کراچی اور حیدرآباد میں بھی اب نئی جماعتیں ’’غریب شہری سندھی‘‘کے نام پر ووٹ بینک کاٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کچھ گروہ اردو اور سندھی بولنے والوں کے پرانے زخموں کو پھر سے کریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ایک مصنوعی تقسیم پیدا کی جا سکے۔ مگر سندھ کے باشعور شہری اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ اصل جنگ وسائل، اختیارات، اور شناخت کی ہے، نہ کہ لسانیت کی۔اگر پیپلز پارٹی واقعی عوامی حمایت کھو چکی ہے تو کیا یہ نئی جماعتیں آزادانہ طور پر ابھریں یا کسی ایجنڈے کے تحت؟ اگر ان جماعتوں کا مقصد عوام کی فلاح ہے تو پھر وہ پیپلز پارٹی کے بجائے وفاق سے سندھ کے حقوق کیوں نہیں مانگتیں؟ کیوں وہ پانی کی تقسیم، این ایف سی ایوارڈ یا احساس پروگرام میں سندھ کی ناانصافی پر بات نہیں کرتیں؟ یہ سوالات ان کی نیت اور کردار پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو کمزور کرنا دراصل سندھ کی سیاسی خودمختاری کو کمزور کرنا ہے۔ یہ جماعت نہ صرف ایک سیاسی قوت ہے، بلکہ سندھ کی تہذیبی، نظریاتی اور جدوجہد کی علامت بھی ہے۔ جو قوتیں اس جماعت کو مصنوعی طریقوں سے ختم کرنا چاہتی ہیں، وہ دراصل سندھ کے سیاسی شعور کو قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ سندھ نے ہمیشہ سازشوں کو پہچانا ہےاور اپنے ساتھ کھڑے رہنے والوں کو یاد رکھا ہے۔

سندھ میں نئی جماعتوں کا ابھرنا اگر حقیقی عوامی مطالبے کا نتیجہ ہوتا، تو پیپلز پارٹی کے بجائے ان کا مقابلہ ان قوتوں سے ہوتا جو اصل میں سندھ کے وسائل، شناخت اور اختیارات پر قابض ہیں۔ مگر جب سب کا ہدف ایک ہی جماعت ہو، تو پھر یہ سیاست نہیں، منصوبہ بندی لگتی ہے۔پیپلز پارٹی کی سیاست نظریات، قربانیوں اور عوامی رشتے پر قائم ہے، اور یہ وہ دیوار ہے جسے سازشوں سے گرایا نہیں جا سکتا۔

تازہ ترین