• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیلڈ مارشل ابو الفتاح السیسی مصر کا صدارتی الیکشن جیت گئے ہیں اور اس تحریر کی اشاعت تک وہ اپنے عہدہ صدارت کا حلف بھی اٹھا چکے ہونگے کچھ مصری دوستوں کے مطابق بڑے شہروں میں الیکشن سینٹرز پر حاضری کم تھی زیادہ تر بوڑھے مرد اور خواتین نظر آئیں ۔خوف تھا یا بائیکاٹ جوان کم ووٹ ڈالنے آئے۔دیہات اور قصبوں میں ووٹروں کی تعداد زیادہ تھی۔پاکستان کی طرح مصر میں بھی سرکاری اہلکاروں خصوصاً پولیس کی گرفت دیہاتیوں پر مضبوط ہے۔ غیر ممالک میں مقیم مصریوں کو ڈاک کے ذریعے ووٹ بھیجنے کی سہولت تھی ۔ آسٹریلیا جیسے جمہوری اور آزاد ملک سے 98% مصریوں نے السیسی کی حمایت کی باقی دنیا سے 94%نے جنرل کو ووٹ دیا ۔ایک توضیح تو یہ ہو سکتی ہے یہ مصری محکمہ ڈاک کا کمال ہے ۔دوسری آزاد اور کھلے معاشروں میں مقیم مصریوں کو مرسی کے اسلامی قوانین کا خوف ہوسکتا ہے ۔ مصرکافی کھلا معاشرہ ہے ۔ ممکن ہے مصریوں کے سامنے ایک شاہی ریاست کا سیناریوہو جہاں اسلام کے نام پر مجرموں کو سر عام سزائیں دی جاتی ہیں۔ عورتوں کو حقوق حاصل نہیں۔ سیاسی سماجی معاشرتی آزادیوں پر قدغن ہے غالب امکان ہے دونوں وجوہات زیر عمل ہوں۔ انتخابی عمل پر انگلی تو اٹھائی جا سکتی ہے مگر انتخاب سے قبل ہی ملکی اور بین الاقوامی میڈیا اور سروے السیسی کی کامیابی کی پیش گوئی کرتے نظر آئے۔ موجودہ صدر عادل منصور نے اپنی الوداعی تقریر میں السیسی کو تعمیری مشورے دیئے ہیں اور جاتے جاتے ایلیٹ پر کچھ اس طرح نئے ٹیکس نافذ کئے ہیں جو عام آدمی پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ عام آدمی میں عادل منصور کا امیج بہتر ہوا ہے مگر یہ سب کراماتی حربے ہیں یہ وہی عادل ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کے طور پر مرسی کے خلاف قانون کے زور پر اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد کی۔ السیسی فوج کے اندر بھی بہت طاقتور مانے جاتے ہیں، وردی اتار کر الیکشن میں حصہ لینے کا رسک ان کے غیر معمولی اعتماد کی غماضی کرتا ہے۔ السیسی مذہب پرست شہرت کے حامل ہیں۔ وہ جابر اور قاہر تو مانے جاتے ہیں مگر کرپشن کے دھبے ان کے پس منظر پر نہیں ملتے، جبکہ مصری معاشرہ پاکستان کی طرح سراپا کرپشن ہے ۔ممکن ہے السیسی ایک ایماندار اوراہل حکمران ثابت ہوں ۔ مصری معاشرے سے کرپشن کوجڑ سے اکھاڑ کر ایک عوام دوست نظام روشناس کرا دیں، حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھ دیں بصورت دیگر حسنی مبارک بننا تو کچھ مشکل نہیں۔
قارئین اب افغانستان اور افغان الیکشن۔5 جون کو افغان صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ پر دو بار خودکش حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئے البتہ ان کے ساتھی اور 7گارڈ مارے گئے۔حملے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی ۔طالبان الیکشن کے مخالف ہیں اور لوگوں سے الیکشن میں حصہ نہ لینے کی اپیل کرچکے ہیں۔ اس قسم کی عسکری سرگرمیوں کی ذمہ داری عموماً طالبان قبول کر لیتے ہیں مگر اب کی بار ان کی خاموشی بہت سے سوالوں کو جنم دے رہی ہے ۔ جس ریجن میں زندگیاں بیچی ،خریدی جاتی ہوں ،باڈی پارٹس خریدے بیچے اور چرائے جاتے ہوں وہاں اس طرح کے محفوظ خودکش حملے الیکشن میں بوسٹ پانے کیلئے خود پر کروا لینا کوئی ناممکن العمل نہیں۔ موجودہ صدر حامد کرزئی سے بھی اس طرح کے حملوں کی امید کی جا سکتی ہے ۔ آئین کے مطابق کسی امیدوار کی موت کی صورت میں الیکشن دوبارہ ہوں گے ۔نئے سرے سے امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے الیکشن کے پہلے مرحلے میں اگر کسی امیدوار نے مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کئے تو پھر دوسرا مرحلہ ہوگا ۔اگر سارا معاملہ خوش اسلوبی سے مکمل ہو جائے تو پھر بھی کم از کم 6 ماہ صرف ہوں گے۔ یوں کرزئی صاحب کو 6 ماہ مزید صدارتی محل میں گزارنے کو مل جائیں گے۔ وہ ایک سازشی ذہن کے مالک ہیں اور ان سے کچھ بھی بعید نہیں۔ قارئین الیکشن کا دوسرا مرحلہ 15 جون کو ہوگا جس کیلئے بھرپور کمپین جاری ہے ۔ پہلے دور میں 8امیدوار تھے مگر کوئی بھی 50%ووٹ حاصل نہ کر پایا۔ افغان آئین کے مطابق صدر کا الیکشن جیتنے کیلئے پوسٹ شدہ ووٹوں کا 50% سے زائد حاصل کرنا لازمی ہے،بصورت دیگر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ دوسرے مرحلہ میں ہو گا۔سابق الیکشن میں بھی حامد کرزئی دوسرے مرحلے میں ہی کامیاب قرار پائے تھے۔ اب عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان 14جون کو مقابلہ ہو گا ۔ پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ عبداللہ عبد اللہ نے تقریباً 44.9% اشرف غنی نے ,31.6%, زلمے رسول نے 11.6%اور سیاف نے7%ووٹ حاصل کئے ۔ دوسرے مرحلے میں زلمے رسول اور سیاف دونوں نے عبد اللہ عبداللہ کے پلڑے میں اپناوزن ڈال دیا ہے جو غنی کیلئے ایک دھچکا ہو سکتا ہے ۔15جون کو الیکشن اور 22جون کو حتمی نتائج سامنے آ جائیں گے بشرطیکہ معاملات درست انداز میں رواں دواں رہے۔ قارئین اہم بات یہ ہے اب کی بار افغان الیکشن میں پاکستان کہیں نہیں ہر طرف بھارت ہی بھارت ہے۔عبداللہ عبداللہ تو بھارت کا خصوصی چہیتا مانا جاتا ہے مگر پشت دیگراں پر بھی بھارتی ہاتھ ہی محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان نے یہ علیحدگی کی لائن خود ڈرا کی ہے یا نیٹو مقبوضات میں پاکستان کے لئے سپیس ہی نہیں تھی اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ بظاہر نظر آتا ہے میسر سیناریو میں پاکستان نے اپنا رول خود متعین کیا ہے اور طالبان کو میسج دیا ہے ہم آپ کے بائیکاٹ کے ساتھ ہیں۔ٹھیک ہے فیصلہ بنتا بھی یہی تھا پاکستان کے پاس اور کوئی آپشن بھی تو کھلا نہیں۔ کاش امریکیوں میں تعمیری اور درست فیصلے کرنے کی خواہش ہوتی۔ کاش امریکہ پاک بھارت تنازعات مثبت انداز میں حل کروا کر اعتماد کی فضا قائم کرانے میں مددگار ہوتا تو افغان مسئلے کے حل کی کوئی شکل و صورت دیکھی جا سکتی تھی۔ امریکہ نے ایک قیدی کے عوض طالبان کے انتہائی اہم پانچ قیدی گوانتونامو بے سے رہا کردیئے ہیں۔ یہ قطری حکومت کے زیر نگرانی قطر میں رہیں گے۔نیٹو افواج کی واپسی سے قبل افغانستان نہیں جاسکیں گے۔ ایک کے بدلے پانچ قیدی ،نہیں نہیں بات کچھ اور بھی ہے واپسی کیلئے سیف پیسیج بھی ڈیل کا حصہ ہے جسے منظر عام پر نہیں لایا جا رہا۔ طالبان کیلئے بھی سودا مہنگا نہیں نیٹو افواج کی واپسی سے دشمنوں کی تعداد کم ہو گی اور کابل کی طرف پیش قدمی نسبتاً آسان ہو گی۔ قارئین باعث حیرت بات جو آپ سے شیئر کرنے جا رہا ہوں وہ افغان صدارتی امیدواروں کی اہلیت اور تعلیمی قابلیت ہے ۔تیسرے نمبر پر آنے والے ڈاکٹر زلمے رسول جو اب عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ہیں نے پیرس میڈیکل کالج سے 1973میں میڈیکل کی ((M.D ڈگری حاصل کی۔صدارتی دوڑ میں سب سے آگے عبداللہ عبداللہ بھی ڈاکٹر ہیں اور آئی اسپیشلسٹ ہیں۔ حامد کرزئی کے پہلے صدارتی دور میں وزیر خارجہ بنے۔ عبداللہ عبداللہ کا رجحان ہمیشہ ہندوستان کی طرف رہا ۔شاید اس کی وجہ پاکستان طالبان کی قربت تھی جبکہ عبداللہ شمالی اتحاد کے فعال لیڈر احمد شاہ مسعود کیساتھ تھے ۔وہ کامیاب ڈاکٹر ،کامیاب وزیر خارجہ مانے جاتے ہیں۔ طالبان مخالف علاقوں میں بہت مقبول ہیں ۔ عبداللہ کے مدمقابل اشرف غنی کرزئی کے ساتھ وزیر خزانہ تھے ۔ بیروت یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور کولمبیا یونیورسٹی امریکہ سے Anthropologyمیں ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کی۔ کولمبیا کے علاوہ کیلیفورنیا برکلے اور ہاپکن یونیورسٹی میں پروفیسر رہے ۔1991میں ورلڈ بنک جوائن کیا اور 5سال تک چین بھارت اورروس میں بھاری ڈیولپمنٹ کیں۔دنیا کے بڑے اخبارات میں کالم نگاری کی اور بی بی سی، سی این این اور امریکن پبلک ریڈیو پر مبصر کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ 2010میں فارن پالیسی میگزین نے ان کا نام دنیا کے 100 بہترین تھنکرز کی لسٹ میں شامل کیا۔2006میں کوفی عنان کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آیا۔ مبصرین نے اشرف غنی کااقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل بننا اقوام متحدہ کی خوش قسمتی قرار دیا مگر امریکہ نے اپنا وزن بان کی مون کے پلڑے میں ڈال دیا ۔ان پڑھ افغانستان کے پڑھے لکھے لیڈر اور پاکستان کے8 1کروڑ عوام کی توہین اٹھارویں ترمیم ایوان میں متفقہ طور پر اس لئے پاس ہوئی کہ تمام پارٹیوں کے ممبروں کی ایک بڑی تعداد کی ڈگریاں جعلی ثابت ہو چکی تھیں ، ہے نہ حیرت کی بات۔
تازہ ترین