پاکستان میں برسات کا موسم جہاں خوش گوار ٹھنڈک، زرعی اراضی کے لیے زندگی بخش پانی لے کر آتا ہے، وہیں تباہی وبربادی کی کئی داستانیں بھی رقم کرتاہے۔ مون سون کی بارشیں، جو عمومی طور پر جنوبی ایشیا کے لیے قدرتی نعمت سمجھی جاتی ہیں، جب شدّت اختیار کر لیتی ہیں، تو اپنے ساتھ کئی قیمتی انسانی جانیں، مال مویشی، فصلیں اور بنیادی انفرااسٹرکچر بھی بہا لے جاتی ہیں۔
گزشتہ ماہ مون سون کے ایک اسپیل میں ہونے والی طوفانی بارش نے ضلع چکوال جیسے پہاڑی اور نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والےعلاقے کو جس شدّت سے متاثر کیا، اُس نے ایک بار پھر ذہنوں میں یہ سوال کھڑا کر دیا کہ ’’کیا ہم قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے واقعی تیار ہیں؟‘‘
حالیہ مون سون کےایک اسپیل میں ضلع چکوال میں 430 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جو اس خطّے کی تاریخ میں مون سون کے ایک دَور میں سب سے زیادہ ہونے والی بارش ہے۔ طوفانی بارش کے نتیجے میں اس پہاڑی ضلعے میں مکانات اور گھروں کی دیواریں منہدم ہونے، ڈیمز کے بند ٹوٹنے اور پُلوں کے بہہ جانے جیسے افسوس ناک واقعات نے ثابت کیا کہ یہاں بھی قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔
موسلادھار بارش سے ضلع چکوال کی تحصیلیں چکوال، تلہ گنگ،کلرکہاراور چوآسیدن شاہ شدید متاثر ہوئیں۔ بڈھیال، ڈھوڈہ، کھیوال، ڈھوک مستانی، پادشاہان، گھوکل، دھرابی، چتال اور چک باقر شاہ کے علاوہ کئی دیہات برساتی ریلوں میں ڈُوب گئے۔ مواصلات کا نظام درہم برہم ہونے سے ریسکیو آپریشن شدید متاثر ہوا اور الیکٹرک پولز گرنے سے کئی علاقوں میں چار روز تک بجلی کی فراہمی معطل رہی۔ بجلی کی بندش سے جہاں نظامِ زندگی شدید متاثر ہوا، وہیں لوگ پینے کے پانی سے بھی محروم ہوگئے۔
ضلع چکوال میں کئی چھوٹے بڑے ڈیمز ہیں، جن میں سے بیش تر حکومت کی سرپرستی میں قائم ہیں، جب کہ کئی ڈیمز مقامی باشندوں نے خُود تعمیر کیے ہیں اور اُن کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید بارش کے دوران دھرابی ڈیم سے کچھ فاصلے پر واقع ایک چھوٹے نجی ڈیم کا بند ٹوٹنے سے کئی دیہات مکمل طور پر زیرِآب آگئے۔ واضح رہے کہ اگر سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے پیشگی اقدامات کیےجاتے، تو نہ صرف جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکتا تھا بلکہ ذخیرہ شُدہ پانی مستقبل میں زرعی مقاصد اور پینےکے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔
یہاں قابلِ ذکر اَمر یہ بھی ہےکہ ان دنوں چوآسیدن شاہ اورکلر کہار جیسے علاقوں میں پانی کی قلّت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہاں ڈیمز تعمیر کیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری جانب ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ تجاوزات، نالوں پر قبضے اورغیرمعیاری نجی ڈیمز نےصورتِ حال مزید ابترکردی ہے۔ حالیہ طوفانی بارشوں کے دوران ڈوہمن پُل کو، جو چکوال، سوہاوہ روڈ پر واقع ہے، سیلابی ریلے سے شدید نقصان پہنچا۔
پی ڈبلیو ڈی کے مطابق، اب اس کو پُل کو عارضی طور پر صرف چھوٹی گاڑیوں کی گزرگاہ میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر و مرمّت کے لیے دو سے تین ہفتے درکار ہوں گے، جب کہ راستے بند ہونے کے سبب روزانہ ہزاروں افراد کو چکوال اور جہلم کے درمیان کئی کلومیٹر اضافی سفر کرنا پڑ رہا ہے، جس کے نتیجے میں وقت اور رقم کازیاں ہورہا ہے۔
شدید بارشوں کے دوران چکوال شہر میں واقع 1122ریسکیو کی عمارت میں پانی داخل ہوگیا اور جب وہاں سے اس کی نکاسی کی گئی، تو یہ پانی قریبی دُکانوں میں چلا گیا، جس سے دُکان داروں کو مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے نمٹنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی تیاری ناکافی تھی۔
ضلع چکوال میں طوفانی بارشوں سے ہونے والی تباہی کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ چکوال شہر اور تحصیلوں کے علاوہ درجنوں دیہات اور محلّوں میں لوگوں کے مکانات زمیں بوس ہوگئے اور کئی خاندان اپنے واحد ذریعۂ معاش سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے۔ گرچہ وزیرِاعلیٰ مریم نواز کی جانب سے جاں بحق افراد کے ورثا کے لیے مالی امداد کا اعلان قابلِ ستائش ہے، لیکن یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اپنا مال و متاع اور عُمر بَھر کی جمع پونجی کھونے کی تکلیف بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔
اس وقت طوفانی بارش سے متاثرہ افراد کے لیے بنیادی ضروریات کا حصول تک ناممکن ہوچُکا ہے، لہٰذا ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ضلع چکوال کو فوری طور پر آفت زدہ علاقہ قرار دے کر متاثرہ افراد کے یوٹیلیٹی بِلز اور بچّوں کی اسکول فیسز معاف کی جائیں اور متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد اور روزگار کی فراہمی کے لیے خصوصی پیکیجز دیے جائیں۔
بدقسمتی سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں موسلا دھار بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کو قدرتی آفت قرار دے کر بری الذمّہ ہوجاتی ہیں، جب کہ درحقیقت پورے مُلک ہی میں نکاسیٔ آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں زیرِزمین سُرنگیں اور ہائی کیپیسٹی پمپنگ اسٹیشنز سمیت دیگر انفرااسٹرکچر کی تعمیر جیسے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
علاوہ ازیں، اب ہر شہر میں برساتی اور سیوریج کے پانی کی نکاسی کے لیے الگ الگ نظام کی تشکیل، نالوں کی سالانہ صفائی اور تجاوزات کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہوچُکی ہے۔ نیز، شہری علاقوں میں ’’رین واٹر ہارویسٹنگ‘‘ کو فروغ دے کر پانی کو زمین میں جذب کرنے کا عمل تیز کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ایک ذمّےدار شہری کےطور پر ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم بارش کو آفت کی بجائے رحمت اور برساتی پانی کو اثاثہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔