• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا خان زیب روایتی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور روایتی دینی مدرسے کے ہی فاضل تھے۔ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ان کی سند پر معروف عالم دین مولانا حسن جان کے دستخط ہیں۔ اس بات پر بھی فخر کرتے تھے کہ ان کے دادا باچا خان کی اصلاحی تحریک کا حصہ تھے۔ وہ اسٹڈی سرکل میں سیاست اور مذہب پر بات کرتے ہوئے باچا خان کا ایک جملہ اکثر دہراتے تھے۔ بندے اور اس کے خدا کے بیچ کے معاملات کو مذہب کہتے ہیں۔ بندے اور بندے کے بیچ کے معاملات کو سیاست کہتے ہیں۔ ان دونوں دائروں کو اگر سمجھ لیا جائے تو الجھن کو آرام سے سلجھن مل سکتی ہے۔ ایک روایتی مدرسے سے فراغت کے بعد مولانا خان زیب کیلئے آسان یہی تھا کہ وہ مذہب کو معاش کا ذریعہ بناتے۔ کسی مذہبی جماعت سے وابستہ ہوکر اپنا شملہ بلند کر لیتے۔ یہ سب ان کیلئے اس لیے بھی آسان تھا کہ وہ زبان و بیان کے آدمی تھے۔ سکہ جمانا وہ جانتے تھے۔ مگر روایتی شارٹ کٹ مارنے کی بجائے انہوں نے غیر روایتی راستہ اختیار کیا۔ مذہب کو اپنی ذاتی زندگی تک محدود کر دیا اور معاشرے سے جڑنے کیلئے سیاست کا راستہ اختیار کر لیا۔جمہوریت کو وظیفہ کیا اور عوامی نیشنل پارٹی کو جماعت کر لیا۔ باجوڑ کے لوگوں نے کبھی انہیں چین سے بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا۔ ابھی حلقے میں بیٹھ کر اپنی غزل سنا رہے تھے، اب جلسے میں وسائل و اختیار کی بات کر رہے ہیں۔ وہاں جرگے میں بیٹھ کر کسی تنازعے کو سلجھا رہے ہیں یہاں مزدوروں سے پوچھ رہے ہیں کہ بندروں کیلئے پانی کی ٹنکی تیار ہوئی کہ نہیں؟مولانا کے پاس ایک سفید جھنڈا تھا جس پر سرخ رنگ میں امن لکھا ہوا تھا۔ یہ جھنڈا لے کر وہ گلی گلی اور گائوں گائوں جاکر نوجوانوں سے بات کرتے تھے۔ ان سے کہتے تھے کہ عدم تشددکے فلسفے کو ہمیں عقیدے کی طرح اختیار کرنا ہوگا۔ اسی سفیدجھنڈے کے نیچے انہوں نے پورے باجوڑ کو اکٹھا کر لیا تھا۔انہوں نے 13 جولائی کو دہشت گردی کے خلاف امن مارچ کی کال بھی دی ہوئی تھی۔ وہ 10 جولائی کو اسی مارچ کے سلسلے میں رابطہ مہم پر نکلے ہوئے تھے کہ دہشت گردی کا شکار ہوگئے۔ دن دہاڑے تین اطراف سے گولیاں برساکر انہیں قتل کر دیا گیا۔ کسی بڑے شخص کی موت پر اکثر رسمی سا ایک جملہ کہا جاتا ہے کہ فضا سوگوار ہو گئی۔اس جملے کا صحیح مفہوم کیا ہے، یہ میں نے 11 جولائی کو باجوڑ میں دیکھا۔ مسجد مندر، حجرہ و گلی، قلم کتاب بانسری رباب سب اداس تھے۔ سیاسی دفاتر، پریس کلب، تعلیمی مراکز، کھیل کے میدان، دانش کدے، ڈھابے اور چائے خانے بھی اداس تھے۔ پرندے اور جانور بھی اداس تھے۔ محنت کش، صحافی، ادیب، استاد اور فن کار سب جنازہ گاہ میں موجود تھے۔ مخالف جماعتوں کے رہنمائوں کو لوگوں نے اس دن روتے ہوئے دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ 13 جولائی کو ان کا وجود تو نہیں تھا، مگر ان کا دیا ہوا امن کا نعرہ انہی کی آواز میں گلی گلی گونج رہا تھا۔ مولانا کی زندگی صرف انسانوں کیلئے وقف نہیں تھی۔وہ باجوڑ کے جانوروں اور پرندوں کو بھی برابر وقت دے رہے تھے۔ سُکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر رہے تھے۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ انہوں نے اپنے خشک و بیابان گائوں میں ڈھائی لاکھ درختوں کا ایک جنگل اگایا تھا۔ اسی جنگل میں پرندوںکیلئے باقاعدہ پانچ ہزار گھونسلے بنائے تھے۔ گائوں کے درجہ حرارت پر حیران کن حد تک فرق پڑ چکا تھا۔ لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ٹل چکا تھا۔ کئی جانور اس نئے اگائے ہوئے جنگل کی طرف آئے۔ پہلی بار بندروں نے اس علاقے کا رخ کیا تو مولانا نے ان کیلئے پانی کی ٹنکیاں تعمیر کروائیں۔ کچھ عرصے میں سینٹرل ایشیا کےپرندے ہجرت کرکے یہاں پہنچ گئے۔ تب مولانانے پرندوں اور جانوروں کیلئے الگ سے تین تالاب بھی بنوائے۔ وہ اسی جنگل میں چرند پرندکیلئے ہر دس دن بعد ایک من گندم کا چھڑکائو کرتے تھے۔ میرے ہی گھر پر ان سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو میں ان کے کام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔ اب یاد آتا ہے کہ اس پہلی ملاقات میں بھی وہ پرندوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ مولانا عورتوں کی تعلیم اور ان کے با اختیار کردار پر زور دیتے تھے۔ جنازے والے دن میں صبح سے مولانا کی کم عمر بیٹی کو دیکھ رہا تھا۔وہ مردوں کے بیچ یہاں وہاں ہر جگہ موجود تھی۔ اس کے رویے میں عجیب سا اعتماد تھا۔ وہ اپنے بڑے بھائی کے پیچھے پیچھے سائے کی طرح چل رہی تھی۔ بھائی کچھ کچھ وقفے سے بے اختیار رونے لگتا تھا۔ یہ چہرہ تھام کر، سر پہ ہاتھ رکھ کر اور کبھی گلے لگا کر بھائی کو ایسے چپ کراتی تھی جیسے عمر میں اس سے کہیں بڑی ہو۔ مت رو بھائی مت رو۔ بس، اب بس کردو۔ دیکھو میں بھی نہیں رو رہی۔ اپنے بھائی کو سنبھالتے سنبھالتے یہ بچی ایک موقع پر شکر ہے کہ خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ یہ وہ موقع تھا جب وہ بزرگ سیاست دان میاں افتخار حسین کے گلے لگی۔ کوئی اپنا درد جتنا بھی چھپا لے، میاں صاحب کے گلے لگتے ہی وہ رو پڑتا ہے۔قمر الزمان کائرہ کے بیٹے کا انتقال ہوا تو انہوں نے بہت صبر کا مظاہرہ کیا۔ اسپتال میں، گھر میں،جنازہ گاہ میں، کفن دفن میں اور دعا میں۔ مگر اگلے دن میاں افتخار حسین کو دور سے تعزیت گاہ میں آتے دیکھا تو ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ در اصل میاں صاحب ڈیڑھ عشرے سے اپنے اکلوتے بیٹے کی ایک لاش اپنے کاندھوں پر لیے پھر رہے ہیں۔ وہ جب کسی کو کہتے ہیں میں تمہارے درد کو سمجھتا ہوں، تو سننے والے کو یقین بھی آتا ہے کہ ہاں یہ بالکل سمجھتے ہوں گے۔ ان کے گلے لگ کر روئیں گے تو ہمارے آنسو ضائع نہیں جائیں گے۔

تازہ ترین