• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب محمود خان اچکزئی کی میزبانی میں دو روزہ آل پارٹیز کانفرنس ہوئی۔ سیاسی قائدین، سول سوسائٹی کے نمائندوں، اخبار نویسوں اور دوسری موثر آوازوں کو’’ تحفظ آئین پاکستان ‘‘کے بینر تلے جمع کیا گیا تھا۔جاننے سمجھنے کی غرض سے ہم نے دونوں دن حاضری لگائی۔ نظر آنیوالی تمام صورتیں تقریباً وہی تھیں جو 2018 ءکے انتخابات سے پہلے’’ووت کو عزت دو‘‘ کے عنوان پر اسلام آباد ہی کے ایک ہوٹل میں جمع ہوئی تھیں۔تب اسٹیج پر مسلم لیگ نون سب سے نمایاں تھی اب تحریک انصاف سب سے آگے تھی۔آل پارٹیز کی ٹرین ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہے۔ ڈرائیور بدلتے رہتے ہیں اور آنڈے گرم آنڈے کی آوازیں لگانے والے وہی رہتے ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کوجمہوریت ، انسانی حقوق اور آئین کی بات کرتا دیکھ کر زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ انسانی حقوق، آئین اور جمہوریت تو راگ درباری میں خیال گانے کی ایک کوشش ہے جو یہاں ہمیشہ اپوزیشن کو ہی زیب دیتی ہے۔آئین اور جمہوریت والے دعووں پر پہلے یقین کرنے کو کم از کم جی چاہتا تھا،اب تو جی بھی نہیں چاہتا۔پہلے ہمیں چیلنج یہ تھا کہ جمہوری اقدار میں بہتری کیسے لائی جائے، پھر چیلنج یہ ہوا کہ جیسی تیسی جمہوریت کو کیسے بچایا جائے،اب تو جمہوریت کا سوال بہت پیچھے رہ گیا ہے۔اب چیلنج یہ ہے کہ سیاست کہاں گم ہوگئی ہے اس کی بازیابی کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ ظاہر ہے سیاست کو سیاست دان ہی بازیاب کرواسکتے ہیں۔اس کی بازیابی کا طریقہ وہی ہے جو اکتوبر 1999ءکے دھڑن تختے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو اورجناب نواز شریف صاحب نے اختیار کیا تھا۔ دونوں رہنمائوں نے مل بیٹھ کر سوچا کہ’’ ہُن کیہڑے پاسے جائیے تے منجی کتھے ڈاہیے‘‘۔ میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے انہوں نے بقائے باہمی کا ایک فارمولا طے کر لیا۔حکومتی جماعت کو پانچ سال پورے کرنے دیں گے، تعمیری اپوزیشن کرینگے اور کالی بلی کو راستہ کاٹنے کا موقع نہیں دینگے۔ اس فارمولے سے ان چھوٹی جماعتوں نے بھی اتفاق کر لیا جنہیں میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے وقت بلاوا نہیں دیا گیا تھا۔میثاق کی حمایت کرنے کی بجائے تحریک انصاف نےمیثاق جمہوریت کی مخالفت میں ہی اپنا بیانیہ ڈیزائن کر لیا۔ میثاق کے بارے میں تحریک انصاف نے کہا کہ یہ در اصل چوروں، نے باریاں لگانے کا فارمولا طے کیا ہے۔ پانچ سال تم پانچ سال ہم۔ تعمیری اپوزیشن کو انہوں نے مُک مُکا، کا نام دیا۔ تم کھائو تو ہم کچھ نہیں کہیں گے۔ ہم کھائیں گے تو ہمیں کچھ مت کہنا۔ سیاسی ریکارڈ کو درست کرنے کی بات آتی ہے تو تحریک انصاف اس دن سے بات شروع کرتی ہے جس دن وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔ مسلم لیگ نوے کی دہائی سے بات شروع کرتی ہے جب دوبار اس کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پیپلزپارٹی کی بات ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے شروع ہوتی ہے۔ بلوچستان کی جماعتیں کہتی ہیں کہ اگر قلات معاہدے سے بات شروع نہیں کرنی تو کم ازکم نیپ پر پابندی سے شروع کی جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی انیس سو اڑتالیس کے سانحہ بھابھڑہ سے بسم اللہ پڑھنا چاہتی ہے۔ مگر ایک دور ایسا بھی ہے جہاں سے بات شروع کرنے میں کسی سیاسی کارکن کو دقت نہیں ہوگی۔ یہ وہ دور ہے جو جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد شروع ہوا تھا۔ اس دور کا آغاز میثاق جمہوریت کی روشنی میں ہوا تھا۔ یہ پچھلے سارے دکھوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کا دور تھا۔ یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوئی مثالی دور تھا۔یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں ایک اچھے سیاسی مستقبل کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ ہم پہلی بار سیاست میں شراکت، شمولیت اور مشاورت کے عمل کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ کارکن ووٹ ڈالنے کا ڈھنگ جان رہے تھے۔ انقلابی رنگ مباحثوں سے نکل رہا تھا۔ سیاسی مکالمہ جگہ پکڑ رہا تھا۔ حسب نسب اور قربانیوں کی جگہ تعمیر و ترقی کی باتیں ہونے لگی تھیں۔مگر تیسری جانب سے جو ہوائیں چل رہی تھیں وہ اب سونامی میں بدل گئیں۔ ایسی ہوائیں چلیں کہ میثاق جمہوریت کے سارے ورق یہاں وہاں اڑ گئے۔ دوچار ورق بچانے کیلئے کوئی دیوانہ اٹھ کر بھاگا تو اس کی دستار بھی گر گئی۔سوال اٹھتا ہے کہ یہ سب کس نے کیا اور کیسے کیا؟ آپ کا نہیں پتہ، میری نظر تو گھوم پھر کر تحریک انصاف کی طرف ہی چلی جاتی ہے۔ مشرف کی رخصتی کے بعد تحریک انصاف کا سب سے نمایاں کردار یہی نظر آتا ہے کہ اس نے میثاق جمہوریت کا خاتمہ کیا۔ یوں کہہ لیں کہ ایک سیاسی دور کا خاتمہ کیا۔ آج آل پارٹیز کانفرنس میں جب اسی جماعت نے ایک نئے جمہوری میثاق پر زور دیا تو طالب علم کو حیرت کا ایک خوش گوار جھٹکا لگا۔ تب تو حیرت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا جب میثاق جمہوریت کو اس جماعت نے آل پارٹیز کانفرنس کی سب سے اہم تجویز قرار دے دیا۔دماغ میں سوالات کے جھکڑ چل گئے۔ کیا تحریک انصاف انقلابی جماعت نہیں رہی؟ میثاق جمہوریت تو ایک سیاسی مشق ہے۔ سیاسی مشقوں میں تو ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے رکھنے ہوتے ہیں۔ کیا تحریک انصاف اس مشق کیلئے آمادہ ہوگئی ہے۔ کیا تحریک انصاف نے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو بھی سیاسی نمائندوں کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔اگر یہ سیاست دان اب لٹیرے نہیں رہے تو کیا عمران خان صاحب کو بھی اس بات کی اطلاع کر دی گئی ہے۔ کیا انہوں نے بھی سیاسی حقیقتوں کو تسلیم کر لیا ہے۔ اگر ہاں، تو ہم پھر سے اچھے سیاسی مستقبل کا خواب آنکھوں میں بسا سکتے ہیں۔ اگر نہیں، تو پھروہی دائرے ہیں اور کولہو کے وہی بیل ہیں۔ پہلے بھی تو گھوم ہی رہے تھے، آگے بھی گھوم لیں گے۔

تازہ ترین