• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں اب ان لوگوں کو خوش نصیب سمجھا جارہا ہے جو ایک ہی بار مر گئے۔ جو رہ گئے انہیں روز جینا اور روز ہی مرنا پڑ رہا ہے۔ دو ہجرتوں کے بیچ کے وقفے کا نام وہاں امن رکھ دیا گیا ہے۔ پشتونوں میں دوبارہ سے ہجرت کرنی پڑ جائے تو ایک قدیم لوک گیت گایا جاتا ہے، بیا کڈی باریگی۔ اس گیت کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ پھر سے اونٹوں پر سامان لادنے والے درد کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر اسکی تشریح کی جاسکتی ہے اور تشریح بھی فیض احمد فیض ہی کرسکتے ہیں۔ مرے دل مرے مسافر، ہوا پھر سےحکم صادر، کہ وطن بدر ہوں ہم تم، دیں گلی گلی صدائیں ۔ فیض نے اس نظم کے بیچ میں غالب کا ایک خیال بھی رکھا ہے۔تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے۔ یہ مصرع قبائل میں ہر دو ہجرتوں کے بیچ آتا ہے۔ غالب ہی کے مصرعے پر فیض نے اپنی نظم کا اختتام کیا ہے۔ مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔یہ نظم نہیں ہے، باجوڑ سے ایک بار پھر ہجرت کرنیوالے خاندانوں کا روزنامچہ ہے۔ اس برس کا سیلاب پہلے سے زیادہ منہ زور ہے۔ بادل پھٹ رہے ہیں گائوں مٹ رہے ہیں۔ سیلاب ہر سال آتے ہیں اور زلزلے بھی۔وہاں کے لوگ مگر آفتوں سے نہیں ڈرتے۔ دہشت گردی کی لہر اور آپریشن کے اعلان سے ڈرتے ہیں۔دہشت گردی کی جنگ بے چہرہ ہوتی ہے اور لوگ اس میں بے موت مارے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے مگر صورت حال مضحکہ خیز ہے۔اسلئے کوفتے پر انور مسعود صاحب کی کہی ہوئی مزاحیہ پنجابی نظم کا پہلا بند پیش کرنا کچھ غلط نہیں ہوگا۔ بوٹی لئی تے ٹوکے نال قیمہ قیمہ کیتی، محنت کرکے اس قیمے دی فیر بنائی بوٹی، فیر بنایا اُس دا قیمہ رکھ کے دنداں تھلے، شاوا بلے بلے۔ پختونخوا میں دہشت گردی کا معاملہ بھی قیمے اور کوفتے والا ہو گیا ہے۔پہلے دہشت گردوں کیخلاف بے رحم آپریشن ہوتا ہے پھر بہت محنت کرکے انہی دہشت گردوں کو واپس قومی دھارے میں لاکر بسا دیا جاتا ہے۔پچھلی تھکن اتری نہیں ہوتی کہ پھر سے آپریشن کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔تھکے ہارے قبائلی اس بار علاقہ خالی کرنے سے انکار کر دیتے ہیں توا سٹیٹمنٹ جاری ہوجاتا ہے کہ قبائلی دہشت گردوں کے حامی ہیں۔ جولائی کے آخری ہفتے میں اے این پی کی میزبانی میں تین روزہ قومی جرگے کا انعقاد کیا گیا۔یہی جرگہ پھر آل پارٹیز کانفرنس کے عنوان سے پرسوں 17 اگست کو اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ ہم بھی وہیں موجود تھے ہم نے بھی سب دیکھا کیے۔صوبائی قیادت نے آپریشن کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار پشاور کے جرگے میں کیا تھا،آل پارٹیز کانفرنس میں انہی خدشات کو قومی قیادت کے سامنے رکھ دیا۔ دونوں جرگوں میں آپریشن کیخلاف متفقہ قرار دادیں منظور کی گئیں۔ دونوں ہی جرگوں میں آپریشن کی مخالفت کرنیوالی جماعتوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی صوبائی قیادتیں سب سے آگے تھیں۔یہ بات قابل غور تھی۔ سیاسی اور عسکری قیادت کیلئے یہ بات بھی تشویش کا باعث ہونی چاہئے کہ اس بار آپریشن کی مخالفت میں وہی جماعتیں سامنے آرہی ہیں جو ہر بار آپریشن کا پرزور مطالبہ لیکر آتی تھیں۔ مذہبی جماعتوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انکے دل میں کہیں طالبان کیلئے ہمدردی موجود ہوگی مگران جماعتوں کے بارے میں کیا کہیے گا جو شعوری طور پر طالبانائزیشن کیخلاف ہیں۔ کیا یہ کہنا آسان ہوگا کہ گھر بار قربان کر دینےوالے قائدین کے دل میں بھی طالبان کیلئے کوئی نرم گوشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اسلام آباد ایک سادہ سا سوال مسلسل اٹھا رہا ہے۔ اگر پختونخوا کے لوگ آپریشن کی مخالفت کرینگے تو پھر دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں پختونخوا سے ایک اور سوال آتا ہے۔اگر دہشت گردی کے خاتمے کا واحد طریقہ آپریشن ہی ہے تو آج 22میگا آپریشنز کے بعد بھی دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ کیوں ہے؟ اس سچائی کا اعتراف کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ یہ سوال پہلے دو چار لوگ کرتے تھے اب پورا محلہ کر رہا ہے۔حجرہ اور مسجد، درس گاہ اور پریس کلب اس ایک معاملے پر تقریبا ہم زبان ہوگئے ہیں۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ بڑی تعداد میں باوردی پولیس اہل کار وہی نعرے لگاتے ہوئے باہر نکل آئے جو سیاسی جماعتیں لگاتی چلی آرہی ہیں۔ پختونخوا میں اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ دہشت گردوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔اب یہ خاتمہ کیسے ہوگا، اس پر اختلاف ہے اور شدید اختلاف ہے۔ دراصل لوگ وہاں بد اعتمادی کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ انہیں ایک بار پھر کوئی مزاحیہ نظم سنائی جارہی ہے۔ قیمے کو اکٹھا کر کے پھر سے کوفتہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ظاہر ہے اس بار ایسا نہیں کیا جارہا مگر لوگوں کو کون بتائیگا کہ ایسا نہیں کیا جارہا۔بتایا نہیں جائیگا تو اعتماد کیسے حاصل کیا جائیگا۔ اعتماد حاصل کیے بغیر نتائج کیسے حاصل کیے جائینگے۔ لوگ خود آگے بڑھ کر بتا رہے ہیں کہ ہمیں اعتماد میں لینے کا طریقہ کیا ہے۔ہمیں بس اس بات کا یقین دلا دیا جائے کہ اس بار دہشت گردوں میں گڈ اور بیڈ والی درجہ بندی نہیں کی جائیگی۔اس آپریشن کے بعد دہشت گردوں کو قومی دھارے میں شامل کرنیکی کوشش نہیں کی جائیگی۔کوئی عارف علوی، کوئی فیض حمید اور کوئی عمران خان 'پائیدار امن کے نام پر دہشت گردوں کو رہا نہیں کریگا۔جو دہشت گرد افغانستان کی طرف دھکیل دیے گئے ہیں انہیں بال بچوں اور اسلحے سمیت واپس یہاں لاکر نہیں بسائیگا۔ ہم کسی مسئلے کی جڑ کی طرف اشارہ کریں تو اشارے کا اعتبار کیا جائیگا۔ بے اعتباری کے موسم میں فقط بات چیت سے راہیں کھلتی ہیں۔ راہیں کھل گئیں تو قبائل کے لوگ قدیم روایتی گیت 'بیا کڈی باریگی گاتے ہوئے ایک آخری بار اونٹوں پر سامان لادنے کو تیار ہوجائیں گے۔

تازہ ترین