• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسم اچھا تھا اور شام گہری تھی۔دوستوں کے ساتھ گپ شپ چل رہی تھی کہ دو جگمگ جگنو اڑتے اڑاتے آئے اور لان میں پودینے پر بیٹھ گئے۔ ندیدوں کی طرح جگنو جگنو کا شور ڈال کر میں نے سارے ٹبر کو ہلادیا۔شور سن کر بڑی بیٹی ڈیڑھ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگی آئی کہ کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔بمشکل بریک لگا کر جب اس نے دیکھا کہ جگنو دکھانے کیلئے بلایا ہے تو سر پکڑ لیا۔کیا ہوگیا بابا،یہ جگنو تو کتنے دن سے آرہے ہیں۔کل پورے پانچ جگنو آئے تھے۔یہ سن کر میرا سارا ندیدہ پن وہیں بیٹھ گیا۔اب میں کھڑا رہ کر کیا کرتا، میں بھی بیٹھ گیا۔جاتے جاتے بیٹی نے کہا،آپکو پتہ ہے ہم جگنو دیکھنے والی آخری جنریشن ہیں؟ ہمارے بعد کی نسل کو یہ سویٹ سی مخلوق نظموں میں یا پھر دور پار کے جنگلوں میں ملا کریگی۔

وبا کے دن تھے۔انسان گھروں تک محدود ہوگئے تھے اور فضا صاف ہوگئی تھی۔انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق اچھا محسوس کر رہی تھی۔ہمارے گھر کے ڈیک میں ہم نے دیکھا کہ چڑیا کا ایک جوڑا آنا جانا کر رہا ہے۔اندازہ ہوا کہ جوڑے کی بات پکی ہوگئی ہے اسے جگہ کا مسئلہ ہے۔تنکا تنکا جوڑ کر اس جوڑے نے گیزر کے پاس گھر بسا لیا۔ہم بھی فرصت میں تھے تو ہم نے انکی شادی، ولیمے، گود بھرائی اور بچے کے عقیقے تک کے سارے مرحلے تسلی سے دیکھے۔یہ سب میں نے ایک دوست کو بتایا تو اس نے کہا، تمہیں پتہ ہے ہم یہ چڑیا دیکھنے والی آخری نسل ہیں؟موسم کی سختیوں نے اسی فیصد چڑیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔اگلی نسل اول تو سجاد حیدر یلدرم، ابوالکلام اور ابن انشاء کو پڑھے گی نہیں۔ پڑھ لیا تو انہیں سمجھ ہی نہیں آئیگی کہ یہ لوگ چڑا چڑی کے نام سے کس پرندے کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والا علی اکبر پچھلے پچاس برس سے پیرس کے قصبے 'سان جرما دی پرے میں گلی گلی اخبار بیچ رہا ہے۔اسکا اخبار بیچنے کا اپنا ایک ظریفانہ انداز ہے۔نت نئے شاعرانہ جملے تخلیق کرتا ہے،اس میں مزاح کا رنگ بھرتا ہے اور بازاروں میں نکل جاتا ہے۔اسکے خریدار بیس ہیں مگر انتظار پورا قصبہ کرتا ہے۔وہ صبح بخیر کی آواز لگاکر، گاہک کو نام سے پکار کر اور بچوں کو دعائیں دے کر مثبت انرجی بانٹتا ہے۔قصبے کے لوگ اسے تہذیبی ورثے کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے اس اخبار فروش کو قومی اعزاز سے نوازنے کا اعلان کر دیا ہے۔اس اعلان پر قصبے کے رہائشی اخبار فروش سے بھی زیادہ خوش ہیں۔کیفے میں بیٹھی عمر رسیدہ خاتون نے ایک رپورٹر سے کہا، کیا تمہیں پتہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچے کسی اخبار فروش کو دیکھنے والی آخری نسل ہیں؟اخبار فروش نے کہا،میں اور میری اولاد پرنٹ اخبار دیکھنے والی آخری نسل ہے۔اخبار فروش نے ایک بات اور بھی کہی، دراصل مجھے کاغذ کی خوشبو بہت پسند ہے۔

یادیں وہ بھی ہوتی ہیں جو حافظے میں محفوظ ہوتی ہیں،مگر جو یادیں خوشبو، لمس اور آوازکے ڈیٹا بیس میں محفوظ ہوتی ہیں وہ دوا کا کام کرتی ہیں۔حافظے سے بھی کام چل جاتا ہے مگر یعقوب کو اپنے یوسف کی قمیص سونگھ کر ہی قرار آتا ہے۔انسان صرف دیکھنا نہیں چاہتا، وہ کالی رات کو جکڑنا اور ٹھنڈے چاند کو پکڑنا بھی چاہتا ہے۔واقعے کو لمس میں قید کرنا چاہتا ہے۔خارج میں موجود خدا کو محسوس کرنے کیلئے انسان نے کتنی علامتیں تخلیق کرلی ہیں۔ یہ سب لمس کی بے قراری کو مٹانے کے بہانے ہیں۔اسی بے قراری نے اقبال سے کیسا شعر کہلوایا دیا تھا۔ سنیں ذرا

خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر

مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر

احمد فراز کہتے تھے، ہم جسے چھو نہ سکیں اس کو خدا کہتے ہیں۔ٹھیک ہی کہتے تھے۔ہر وہ چیز جو اوجھل ہے بہت اہم ہے۔گزرا ہوا زمانہ بھی اسی لیے اہم ہے کہ یہ پھر نہیں آتا۔یہ زمانہ جب بلاتا ہے تو دل بے قرار ہوجاتا ہے۔ہم کسی بھی ذریعے سے اس گزرے زمانے کا سفر کرتے ہیں۔کبھی خوشبو کے ذریعے سے کبھی آواز کے ذریعے سے۔باذوق لوگوں کا کہنا ہے کہ گیت تو بس وہی ہیں جو آر ڈی برمن، کشور کمار، کے ایل سہگل اور رفیع نے گائے تھے۔کچھ کہتے ہیں گیت سنگیت کا سفر احمد رشدی، بیگم اختر، نیرہ نور اور ناہید اختر پر رک گیا ہے۔کیا ایسا کہنے والوں کا مسئلہ صرف ذوق ہے؟ ذوق بھی ہے، مگر اس سے بڑھ کر ان کا مسئلہ ناسٹیلجیا ہے۔خاص لمحوں میں سنے ہوئے گیت در اصل یادوں کی پٹاری بن جاتے ہیں۔جیسے ہی گانے کے بول کان میں پڑتے ہیں بھک سے یادوں کا ایک محلہ کھل جاتا ہے۔اس محلے میں بچپن کا ساون،بارش کا پانی اور کاغذ کی کشتی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔معصومیت کو توڑنے والی پہلی محبت کو جینے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ہر نسل کا اپنا ناسٹیلجیا ہے ہر ناسٹیلجیا کی اپنی کنجی ہے۔کسی کا ناسٹیلجیا گلوکار کی آواز سے کھلتا ہے کسی کا اخبار فروش کی آواز سے۔ناسٹیلجیا لیدر میں لپٹے ہوئے جاپانی ریڈیو کو دیکھ کر بھی کھل سکتا ہے جس کے استعمال کرنیوالے آخری لوگ ہمارے والدین تھے۔ جگنو کی روشنی اور چڑیا کی چہچہاہٹ بھی ہمیں اس صحن کا وزٹ کرواتی ہے جہاں ماں ہمیں لوریاں اور نانی کہانیاں سناتی تھیں۔اخبار فروش کی آواز بھی پیرس کے ایک قصبے میں رہنے والوں کیلئے محض آواز نہیں ہے۔اس کی آواز ٹائم ٹریول مشین ہے، جس کے ذریعے وہ لوگ پچھلا زمانہ گھوم کر آتے ہیں۔یہی واردات خود اخبار فروش کے ساتھ تب ہوتی ہے جب وہ کاغذ کی خوشبو سونگھتا ہے۔لمحہ بھر میں وہ پیرس کے قصبے سے راولپنڈی صدر بازار پہنچ جاتا ہے۔ایک قلمی گھسیٹا کار سے کسی جین زی نے پوچھا، بلاگنگ اور وی لاگنگ کے زمانے میں آپکا کالم پرنٹ اخبار میں نظر آنے لگا ہے، خیریت؟ مسکراکر دل ہی دل میں جواب دیا، تم نہیں سمجھو گے۔ کاغذ کی خوشبو کا مطلب تم نہیں سمجھو گے۔

تازہ ترین