• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ربیع الاوّل…‘‘وہ ماہِ مبارک، وہ صُبحِ سعادت جب امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ لّلعالمین، پیغمبرِاعظم وآخر، محسنِ انسانیت، نبیٔ رحمت، سرورِ کائنات، سرکارِ دوعالم، خیرالانام حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی ولادتِ با سعادت ہوئی، آپﷺ اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے، آفتابِ رسالت طلوع ہوا، دنیا توحید کے نُور سے روشن و منوّر ہوئی، تاریخ کے عہدساز، مثالی دَور کا آغاز ہوا۔ یہ ماہِ مبارک خاتم الانبیاء، فخرِ دوعالم،سرورِکونین، سرکارِدوجہاںﷺ کی ولادت اور آپﷺ کی اِس دنیا میں تشریف آوری کے حوالے سےماہ وسال کی پوری تاریخ میں منفرد مقام اور تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے۔

امسال ربیع الاوّل 1447ھ کو سیّدالکونین، امام الاوّلین و آخرین، رحمۃ لّلعالمین، خاتم النبیین حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی ولادتِ باسعادت کو پندرہ سوسال مکمل ہو رہے ہیں۔ پندرہ صدیوں پرمحیط یہ سفر، رسول اللہ ﷺ کے نامِ نامی، اسمِ گرامی سے موسوم اورآپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے عنوان سے مُعنوَن ہے۔ جس نے تمام عالمین اور جملہ کائنات کو اپنے مثالی و ادبی پیغام اور نورِ ہدایت سے روشن و منور کیا۔ 15 سو سالہ میلادالنبیﷺ کا یہ تاریخ ساز سفر نبوت و رسال کے ماہِ تمام، خیرالانامﷺ کی ذاتِ گرامی سے منسوب ہے۔ 

میلادی سال 40، نبوی سال 13، مکّی حیات طیّبہ53سال، ہجرت مدینہ یکم ہجری تا وصال 63سال۔ ربیع الاوّل 1447ھ، 15سو سالہ صدیوں پر محیط امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیین حضرت محمّدﷺ کا یہ یومِ ولادتِ باسعادت، انسانی تاریخ کا شاہ کار اور قابلِ ذکر باب ہے۔ 15سوسالہ یہ دور’’انّا اعطیناک الکوثر‘‘ اور ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ پر مُہرِ تصدیق اور آپ کی عظمت و رفعت کا ایک بنیادی حوالہ ہے۔ اسلامی تاریخ کے اس پندرہ سو سالہ دَور میں مسلم اور غیر مسلم سیرت نگاروں نے مشرق و مغرب، دنیا کے ہرخطّے، ہرگوشے، ہر زمانے، ہرعہد، ہر زبان میں گویا ’’بہرزماں، بہرزباں‘‘ مختلف اسالیب و مناہج میں ہزاروں کتابیں لکھیں اور تا قیامِ قیامت یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ 

اس لیے کہ از آدم تا ایں دَم، تاریخ کا ہر زمانہ، ہر دَور، ہرعہد آپﷺ کا ہے۔ یہ آپﷺ کے رفعتِ ذکر کا شاہ کار ہے۔ صاحبِ کشّاف امام جاراللہ محمود بن عمرالزّمخشری ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ یعنی ہم نے آپ ﷺ کی خاطر آپﷺ کا ذکر بلند کیا۔ آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ آپ ﷺ کا ذکر اللہ کے ذکر کے ساتھ پیوست ہے۔ کلمۂ شہادت میں، اذان میں، اقامت میں، تشہّد میں، خطبات میں، اور قرآنِ کریم کے بیش تر مقامات میں۔‘‘(محمود بن عمرالزمخشری / الکشاف عن غوامض التنزیل وعیون الاقاویل)۔ 

اس ذی شان رفعت کے ساتھ ساتھ رفعتِ خاص کا جو انعام آپ ﷺ کو عطا ہوا، وہ رفعتِ ذکر ہے۔ وہ ایک منفرد اور اعلیٰ و ارفع عطا ہے، جو نبوّت و رسالت کی پوری تاریخ میں آپﷺ کے حصّے میں آئی۔ شاعرِ مشرق، علّامہ ڈاکٹر محمّد اقبال کیا خوب کہتے ہیں؎ ہو نہ یہ پھُول تو بُلبل کا ترنُّم بھی نہ ہو.....چَمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو.....یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو.....بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو.....خیمۂ افلاک کا اِستادہ اِسی نام سے ہے.....نبضِ ہستی تپش آمادہ اِسی نام سے ہے.....دشت میں، دامنِ کُہسار میں، میدان میں ہے.....بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے.....چین کے شہر، مراکش کے بیابان میں ہے.....اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے.....چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے ..... رفعتِ شانِ ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکرَک‘‘ دیکھے۔ (اقبال/ بانگِ درا، صفحہ207)۔

’’ربیع الاوّل‘‘ آپ ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے حوالے سے انسانی تاریخ میں امتیازی مقام کا حامل ہے۔ ’’ربیع الاوّل‘‘ کے لغوی معنیٰ ’’پہلی بہار‘‘ کے ہیں۔ مؤرخین نے ’’ربیع الاوّل‘‘ کو ربیع الاوّل کہنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب اس مہینے کا نام رکھنے کا مرحلہ آیا، تو یہ مہینہ فصلِ ربیع یعنی موسمِ بہار کے آغاز میں واقع ہوا، اس بِنا پر اسے ’’ربیع الاوّل‘‘ سے موسوم کردیا گیا۔ جب کہ علّامہ سخاوی اپنی کتاب ’’المشہور فی اسماء الایّام والشّہور‘‘ میں اس کی وجۂ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’مختلف مقاصد اور ضروریات کے پیشِ نظر سفر کرنے والے اہلِ عرب، موسمِ بہار گزارنے کی مناسبت سے اس مہینے میں خصوصی طور پر اپنے گھروں میں اقامت اختیار کرتے تھے اور وہ بہار کےایّام اپنے گھروں میں ہی گزارتے تھے، لہٰذا اس بِنا پر اس مہینے کا نام ’’ربیع الاوّل‘‘ رکھ دیا گیا۔ 

’’بلوغ الارب فی احوال العرب‘‘ کے مؤلف محمود شکری آلوسی نے مسعودی کے حوالے سے ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ ’’ربیع‘‘ کے معنیٰ خوش حالی اور فارغ البالی کے ہیں، چناں چہ اہلِ عرب صفر کے مہینے میں اپنی مصروفیات کے باعث جو کچھ کماتے، اس کی وجہ سے ان کے ہاں مالی آسودگی اور خوش حالی ہوجاتی تھی، جس کے باعث وہ عموماً ’’ربیع الاوّل‘‘ اور ’’ربیع الثّانی‘‘ کے مہینوں میں فارغ البال ہوجاتے اور ان ایّام کو اپنے گھروں میں بسر کرتے تھے۔

اسلامی تاریخ میں ماہِ ربیع الاوّل کو جو عظمت، تقدّس، بزرگی و برتری حاصل ہے، وہ صرف اور صرف فخرِ دوعالم، نیرِاعظم، سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، صاحبِ لوح و قلم، سیّدِ عرب وعجم، صبحِ درخشاں، نیّرِ تاباں، مہرِ درخشاں، ساقیِ کوثر، شافعِ محشر، مرسلِ داور، شاہِ اُمم، محبوب رب العالمین، سیّدالمرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین، سرورِ کونین، بشیر و نذیر، سراج منیر، امام الانبیاء، ماہِ عرب، آفتاب دو عالم حضرت محمّد مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ ﷺ کی بدولت حاصل ہے۔ 

یہ وہ بابرکت اور بہار آفرین مہینہ ہے، جس کی آمد سے چمنستانِ دہر کی مُرجھائی کلیاں کِھل اٹھیں، خزاں رسیدہ گلستان سرسبز و شاداب ہوگئے۔ اسلامی تاریخ میں اس ماہِ مبارک کو خاص عظمت و فضیلت حاصل ہے، جو بعض اعتبار سے دیگر مہینوں سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ خاص فضیلت ’’ظہورِ قدسی‘‘ یعنی حضورِاکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت اور آپﷺ کی تشریف آوری ہے، آپﷺ کی آمد دنیا کی بہارکا سبب ہے، پھر جس مہینے میں آپﷺ تشریف لائے، وہ ربیع در ربیع، یعنی بہارہی بہار اور نُور ہی نُور ہے۔

آپﷺ کی ولادتِ باسعادت باختلافِ روایات یعنی مختلف مؤرخین اور سیرت نگاروں نے جو روایات بیان کی ہیں، ان میں تین روایات 8، 9 اور12ربیع الاوّل بیان کی جاتی ہیں۔ 12ربیع الاوّل 1عام الفیل کو زیادہ شہرت حاصل ہے۔ مشہور روایت 12ربیع الاوّل ہے۔ ’’ربیع الاوّل‘‘ (1عام الفیل 52 قبل ہجرت، اپریل 571ء) میں محسنِ انسانیت، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی تشریف آوری سے نبوت و رسالت اور رُشد و ہدایت کے تاریخ ساز سفر کا باب مکمل ہوا۔ دینِ مبین کی تکمیل کردی گئی، نبوت و رسالت کا ماہِ تمام طلوع ہوا اور آپﷺ کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔ 

آپﷺ سیّدالمرسلین اور خاتم النبیین ہیں یعنی رسالت و نبوت کے سلسلے کو ختم کرنے والے، انبیاء و رُسل کے سردار ہیں۔ آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی پردین کی تکمیل کردی گئی، وحی کا باب بند ہوا۔ دُعائے خلیلؑ، تمنائے کلیمؑ اور نویدِ مسیحاؑ حضرت محمدﷺ کے ظہورِ قدسی سے انسانیت کی صُبحِ سعادت کا آغاز ہوا، ایسا تاریخ ساز انقلاب رونما ہوا، جس نے توحید و رسالت کے نور کو عام کر کے انسانی عزّت و وقار اور اعلیٰ انسانی قدروں کو بحال کیا۔ 

صدا بلند ہوئی کہ ؎ مبارک ہو شہِ ہر دوسرا تشریف لے آئے.....مبارک ہو محمدِ مصطفیٰؐ تشریف لےآئے.....مبارک ہو،غم گُسارِ بے کساں تشریف لےآئے.....مبارک ہو، شفیعِ عاصیاں تشریف لے آئے.....مبارک ہو، رسولِ محتشمؐ تشریف لےآئے.....مبارک ہو، نبیِ محترمؐ تشریف لے آئے.....وہ آئے، جن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی.....وہ آئے، جن کی آمد کے لیے بےچین فطرت تھی.....وہ آئے، جن کو ابراہیمؑ کا نورِنظر کہیے.....وہ آئے، جن کو اسمٰعیلؑ کا لختِ جگر کہیے.....وہ آئے، جن کے ہر نقشِ قدم کو رہنما کہیے.....وہ آئے، جن کے فرمانے کو فرمانِ خدا کہیے۔ (ماہرالقادری)۔

معروف سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی کے الفاظ میں ’’اس رات ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے گرگئے، آتش کدۂ فارس بجھ گیا۔ دریائے ساوہ خشک ہوگیا، لیکن سچ یہ ہے کہ ایوانِ کسریٰ ہی نہیں، بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم، اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے، آتش کدۂ فارس ہی نہیں، بلکہ آتش کدۂ کفر، آزر کدۂ گم راہی سرد ہو کررہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اُڑنے لگی۔ بُت کدے خاک میں مل گئے، شیرازۂ مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے۔ توحید کا غلغلہ اٹھا، چمنستانِ سعادت میں بہار آگئی، آفتابِ ہدایت کی شعائیں ہرطرف پھیل گئیں۔ اخلاقِ انسانی کا پرتو قدس سے چمک اٹھا۔ 

یعنی یتیمِ عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، شاہِ حرم، حُکم رانِ عرب، فرماں روائے عالم، شہنشاہِ کونینؐ عالمِ قُدس سے عالمِ امکان میں تشریف فرما ہوئے۔ اللّٰھمّ صلّ علیہ و علیٰ اٰلہ و اصحابہ و سلّم۔(شبلی نعمانی؍/سیرت النبیﷺ) اور پھر حفیظ جالندھری اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خُوب کہتے ہیں؎ وہ دن آیا کہ پورے ہو گئے تورات کے وعدے.....خدا نےآج ایفا کردیے ہر بات کے وعدے.....ربیعُ الاوّل اُمیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا.....دُعائوں کی قبولیت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا.....جہاں میں جشنِ صُبحِ عید کا سامان ہوتا تھا.....اُدھر شیطان اپنی ناکامی پہ روتا تھا.....سرِ فاراں پہ لہرانے لگا جب نور کا جھنڈا.....ہُوا اک آہ بھر کر فارس کا آتش کدہ ٹھنڈا.....ندا آئی، دریچے کھول دو، ایوانِ قدرت کے.....نظارے خود کرے گی آج قدرت شانِ قدرت کے.....صدا ہاتف نے دی اے ساکنانِ خطۂ ہستی.....ہوئی جاتی ہے پھر آباد یہ اُجڑی ہوئی بستی..... ضعیفوں، بے کسوں، آفت نصیبوں کو مبارک ہو .....یتیموں کو، غلاموں کو، غریبوں کو مبارک ہو.....مبارک ہو کہ ختم المرسلیںؐ تشریف لے آئے.....جناب رحمۃ لّلعالمیں ؐ تشریف لے آئے .....بصد اندازِ یکتائی بغایت شانِ زیبائی.....امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی.....سلام اے آمنہ کے لالؐ، اے محبوبِ سبحانی.....سلام اے فخرِ موجوداتؐ، فخرِ نوعِ انسانی.....سلام اے ظلِّ رحمانی، سلام اے نورِ یزدانی.....ترا نقشِ قدم ہےزندگی کی لوحِ پیشانی..... سلام اے سروحدتؐ، اے سراج بزم ایمانی.....زہے یہ عزّت افزائی، زہے تشریف ارزانی۔

فخرِموجودات، باعثِ تخلیق کائنات، شافعِ محشر، ساقیٔ کوثر، صاحبِ لوح و قلم، محمّدِ مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ ﷺ کا ظُہور قدسی اور آپﷺ کی اس دنیامیں تشریف آوری پوری کائنات پر پروردگارِ عالم کا سب سے عظیم احسان ہے۔ آپﷺ کی ذاتِ گرامی کو اللہ تعالیٰ نے جو بلند مقام، جو عظمت و رفعت اور محبوبیت عطا فرمائی، اس میں کوئی آپﷺ کا شریک وسہیم نہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’اولادِ آدم کا خلاصہ (منتخب اور مقدّس ہستیاں) پانچ ہیں۔ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور میں، یعنی حضرت محمّدﷺ اور محمدﷺ اُن میں سب سے افضل مقام پر فائز ہیں۔‘‘ (ابنِ عساکر)۔ 

ڈاکٹر میخائیل ایچ ہارٹ، مشہور امریکی ماہر فلکیات اور عیسائی مؤرّخ ہیں، انہوں نے اور اُن کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی نے دنیا کی نام وَر شخصیات کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کیا۔ اس مطالعےکا حاصل انہوں نے 572 صفحات کی ایک انگریزی کتاب "The 100" A ranking of the Most Influential Persons in history کی صُورت، دنیا کےسامنے پیش کیا۔ اس کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور متعدّد ایڈیشن شائع ہوئے، جس نے عالمی سطح پر بہت شہرت پائی، اس کتاب میں سرکارِ دوجہاں، حضرت محمّد مصطفیٰﷺ کو سرِفہرست رکھا گیا ہے، کیوں کہ مصنّف کے مطالعے کے مطابق آپﷺ دنیا کے سب سے عظیم، منفرد اور انسانی تاریخ کے نمایاں ترین انسان ہیں۔ ہارٹ میخائیل لکھتا ہے۔ 

’’قارئین میں سے ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو تعجب ہوکہ میں نے دنیا جہاں کی مؤثّر ترین شخصیات میں ’’محمدؐ‘‘ کو سرِفہرست کیوں رکھا ہے؟ اور وہ مجھ سے اس کی وجہ طلب کریں گے، حالاں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صرف وہی (حضرت محمّدﷺ) ایک عظیم انسان تھے، جودینی اور دنیوی اعتبار سے غیرمعمولی طور پر کام یاب وکام ران اور سرفراز ٹھہرے۔‘‘ 

موصوف مزید رقم طراز ہے ’’میرا یہ انتخاب کہ محمدؐ دنیا کی تمام انتہائی بااثر شخصیتوں میں سرِفہرست ہیں، بعض قارئین کواچنبھے میں ڈال سکتا ہے، کچھ اس پرمعترض ہوسکتے ہیں، مگریہ حقیقت ہے کہ محمدﷺ تاریخ کے واحد شخص ہیں، جنہوں نے ایک عظیم ترین مذہب کی بنیاد رکھی اور اس کی اشاعت کی، اُن کے وصال کے چودہ سوسال بعد آج بھی ان کے اثرات غالب اور طاقت وَر ہیں۔‘‘

63 سال یہ نورِ ازلی و ابدی دنیا کو غیر فانی تنویرات سے منوّر اورمستنیر کرنے کے بعد اسی مہینے میں2شنبہ 12ربیع الاوّل 11ھ کو ’’الصّلوٰۃ وماملکت ایمانکُم‘‘ نمازاورغلام۔ (یعنی ان دونوں کا خاص اہتمام اور خیال رکھنا) اور ’’بل الرّفیق الاعلیٰ‘‘ بلکہ وصال رفیق اعلیٰ (اللہ رب العزت کا دیدار اوراس سے شرفِ ملاقات) مطلوب ہے، فرماتے ہوئے وصال فرما گئے اور روحِ پاک عالمِ قدس میں پہنچ گئی۔ ؎ مولایَ صلِّ وسلّم دائماً ابداً…علیٰ حبیبیک خیرالخلقِ کُلّھم…محمدؐ سیّدالکونین والثقلین…والفریقین من عُربٍ ومن عجم۔