• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّدِ ابرار، احمدِ مختار، سرکارِ دو عالم، سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، سیّد ِعرب و عجم، نیّرِ تاباں، حاملِ قرآں، پیغمبرِ آخرالزّماں، معنیٰ قرآن عظیم، سیّدالمرسلین، خاتم النبیّین، صاحبِ کتابِ مبین، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے متعلق قرآن کریم میں ارشادِ ربّانی ہے۔(اے نبیؐ) آپؐ کہہ دیجیے، اگر تم (حقیقت میں) اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری اتباع کرو، (اس طرح) اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘(سورۂ آل ِعمران/۳۱)اس آیتِ مبارکہ سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ کی پیروی اور آپؐ کی اتّباع کرنا، آپؐ کی سیرتِ طیّبہ، تعلیمات، فرامین و ارشادات اور اسوۂ حسنہ کو مشعلِ راہ بنانا اور آپؐ سے محبت کرنا، ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد اور دین کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے۔ 

نیز، آپؐ سے بے نیاز ہوکر، آپؐ کی تعلیمات، فرامین و ارشادات اور اسوۂ حسنہ سے بے اعتنائی برت کر پروردگارِ عالم کی محبت، رضائے الٰہی کی توقع اور نجاتِ اخروی کی اُمید رکھنا، سراسر خام خیالی اور صریح گم راہی ہے۔ اللہ کے حبیبؐ کی اتّباع اور عشقِ رسولؐ بندۂ مومن کی حیاتِ مستعار کا سب سے قیمتی سرمایہ اور سب سے عظیم متاع ہے۔ شاعرِ مشرق، علّامہ محمد اقبال نے اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خُوب کہا ہے؎ بمصطفیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست.....اگر باونرسیدی تمام بو لہبی است۔(اقبال،کلیاتِ اقبال (ارمغانِ حجاز)صفحہ 691)۔

قرآنِ کریم نے ہادیِ اعظم، حضرت محمدﷺ سے تعلق کی چار بنیادوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے۔’’پس جو لوگ ان (رسول اللہﷺ) پر ایمان لائیں گے اور اُن (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے، جو اُن کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف/157) قرآنِ کریم کی اس آیتِ مبارکہ میں رسول اللہ ﷺسے اہلِ ایمان کے تعلق کی چار بنیادیں اور ان کی قرآنی ترتیب کچھ یوں ہے(1) ایمان بالرسولؐ۔(2) تعظیمِ رسولؐ۔(3) نصرتِ رسولؐ۔(4) اتباع و اطاعتِ رسولؐ۔

تعلق کی پہلی دو جہتوں میں مرکز و محور، رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، جب کہ دوسری دو جہتوں (نصرت و اتّباع و اطاعتِ رسولؐ) میں مرکز و محور رسولِ اکرم ﷺکا دین، آپؐ کی شریعت اور تعلیمات ہیں۔ قرآنِ کریم نے مذکورہ چار جہات کو ایک خاص ترتیب سے بیان کرکے یہ واضح فرما دیا ہے کہ اسلام میں اوّلاً رسولِ اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت و ادب، آپؐ کی اطاعت و اتّباع کا تعلق استوار ہوتا ہے اور بعد ازاں آپؐ کی شریعت اور تعلیمات پر عمل، اطاعت اور نصرت کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ 

اس حوالے سے رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’تم میں سے کوئی بھی شخص اُس وقت تک صاحبِ ایمان نہیں ہوسکتا، جب تک کہ مَیں اُس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔‘‘(بخاری، محمد بن اسماعیل/ الجامع الصحیح، کتاب الایمان، باب حُبّ الرسولؐ من الایمان،1/14)

رسولِ اکرم ﷺکی سیرتِ طیّبہ اور اسوۂ حسنہ کا سب سے پہلا اور بنیادی مصدر ومآخذ کتابِ مبین، فرقانِ حمید، قرآنِ کریم ہے اور یہی کتبِ سیرت کے لیے قابلِ وثوق مرجع اور بنیادی مآخذ ہے۔چناں چہ قرآنِ کریم کا اگر بنظر ِغائر مطالعہ کیا جائے، تو اس میں سرورِ کونینﷺ کی حیاتِ طیّبہ اور سیرتِ نبویؐ کے متعدد واقعات اور حالات کا صراحتاً یا اشارتاً ذکر ملتا ہے۔ 

عہدِ نبویؐ کے غزوات، اہم ترین واقعات، آپؐ کی اہم خصوصیات، کمالات اور امتیازات کا تذکرہ کتابِ مبین، قرآنِ کریم میں جا بجا ملتا ہے۔ اس لحاظ سے قرآنِ کریم کے آئینے میں سیرتِ نبویؐ کے امتیازی اور انفرادی گوشے واضح ہوکر سامنے آتے ہیں، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپؐ اور قرآن دونوں لازم و ملزوم ہیں۔

جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کتبِ سیرت و تاریخ میں رسولِ اکرمﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات و متعلقات کا ذکر عام طور پر تاریخی اور سوانحی حیثیت سے ہوتا ہے، لیکن وہی واقعات قرآنِ کریم میں بیان ہوتے ہیں، تو ان میں دعوتی فکر ہوتی ہے، قرآن چوں کہ تاریخ و سیرت کی کتاب نہیں، بلکہ اصلاً وہ کتاب دعوت و تذکیر ہے، اسی لیے اس کی ہر آیت میں یہ فکر نمایاں طور پر جھلکتی ہے۔ 

قرآن واقعات کو ایسے اسلوب اور پیرایۂ بیان میں پیش کرتا ہے کہ اس کا فائدہ رہتی دنیا تک عام ہوجاتا ہے اور اس سے ایسے نتائج اخذ کرتا اور ان کی روشنی میں ان حقائق کی طرف متوجّہ کرتا ہے، جو ہر دَور میں مفید اور چشم کُشا ثابت ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کا اسلوب ایجاز و اعجاز دونوں لحاظ سے جامع ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ قرآن واقعاتِ سیرتؐ کے انہی اجزاء کو بیان کرتا ہے، جو ضروری ہوتے ہیں اور جن میں عبرت و موعظت کا درس ہوتا ہے، جب کہ کتبِ سیرت میں ان واقعات کی پوری تفصیلات اور تمام اجزاء کا بیان ہوتا ہے۔ مثلاً واقعۂ اسراء و معراج کا ذکر قرآنِ کریم میں بے حد مختصر انداز میں اشارتاً فرمایا گیا ہے، البتہ اس کی بقیہ تفصیلات کتبِ احادیث و سِیر میں موجود ہیں۔

ایک نمایاں فرق انداز ِبیان کا بھی ہے۔ قرآن قصصی ادب کا اعلیٰ شاہ کار ہے۔ واقعاتِ سیرت کے ذکر میں جو جوشِ بیان، سلاست، برجستگی، لطافت، نفسیات کی رعایت، شکوہ اور فصاحت قرآن ِ کریم کی آیات میں ملتی ہے، اس کی دوسری نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ قرآن، اپنے قارئین کے حواس پر چھا جاتا ہے اور یہی اس کا اعجاز و کمال ہے، ظاہر ہے کہ یہ امتیاز کسی اور کتاب کو کیسے مل سکتا ہے؟ ورنہ خالق کی کتاب اور مخلوق کی کتاب میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟

غزوۂ خندق میں کفار کے اچانک حملہ آور ہونے اور بعد کے واقعات کا ذکر قرآن نے سورۂ احزاب میں جس طرح کیا ہے، اس سے بہتر الفاظ و اسلوب میں اس کی تصویر کشی ناممکن ہے۔ علماء اور مفسرین کے بقول غزوۂ خندق سے متعلق یہ آیات اعجازِ قرآنی کا اعلیٰ ترین اور اکمل ترین نمونہ و شاہ کار ہیں۔قرآن کریم ہی آپؐ کے اسوۂ حسنہ اور خُلقِ عظیم کا عظیم سرچشمہ ہے۔

زوجہ ٔ رسولؐ اُم المومنین، صدیقہ بنت صدیقؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ایک روز کسی نے ان سے سرورِ کائناتﷺ کے اخلاق کریمانہ کے متعلق سوال کیا تو اُم المومنینؓ نے فرمایا۔’’رسولِ اکرمﷺ سے زیادہ کوئی بھی شخص اخلاقِ حسنہ سے متصف نہ تھا، آپؐ کا ’’خلق‘‘ قرآن تھا، جس سے قرآن راضی ہوتا، اس سے آپؐ راضی ہوتے، جس سے قرآن ناراض ہوتا، اس سے آپؐ ناراض ہوتے، آپؐ، فحش گو نہ تھے اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے تھے، نہ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دیتے، بلکہ عفو و درگزر آپؐ کا شیوہ تھا۔،،(الصالحی، محمد بن یوسف/سُبل الھدیٰ والرشاد، 2/16)۔ 

اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی اس روایت اور ان کے فرمان سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آپؐ کی سیرتِ طیّبہ، اسوۂ حسنہ اور شانِ کریمانہ کا ذکر ِجمیل قرآنِ کریم میں پوری طرح موجود ہے۔ چناں چہ مؤ رخین اور سیرت نگاروں نے سیرت نگاری یا سیرت النبیؐ کے جن بنیادی مآخذ کا ذکر کیا ہے، قرآنِ کریم کو ان تمام مآخذ و مناہج میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کیا خوب لکھتے ہیں۔

’’دراصل قرآن اور حیاتِ محمدؐ (سیرت النبیؐ) معناً ایک ہی ہیں، قرآن متن ہے اور سیرت النبیؐ اس کی تشریح، قرآن علم ہے اور سیرت اس کا عمل، قرآن صفحات و قراطیس مابین الدفتین اور ’’فی صُدُور الّذین اُوتُوا العِلم‘‘ میں ہے اور یہ (صاحبِ قرآنؐ) ایک مجسّم و ممثل قرآن، جو یثرب کی سرزمین پر چلتا پھرتا نظرآتا ہے۔(ابوالکلام آزاد/ رسولِ رحمتؐ،صفحہ11)۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم عالمِ انسانیت کے پروردگار کا آخری اور ابدی پیغام ہے، جسے بلاغ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور رسولِ اکرمﷺ کی حیاتِ طیّبہ یعنی سیرت النبیؐ کو اس ابدی پیغام کا مبلغ اعظم اور ابلاغِ کامل قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ عالمِ انسانیت تک اللہ تعالیٰ کے اس ابدی پیغام ہدایت کو بہ تمام و کمال پہنچانے کا ایک ہی موثر اور قطعی ذریعہ ہے اور وہ خاتم الانبیاءﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ 

یہ آپؐ کی سیرتِ طیّبہ ہی ہے، جس نے ابلاغ کے جملہ تقاضے اس طرح پورے کیے کہ انسانیت پر حجت تمام ہوگئی اور وعدۂ خداوندی کے مطابق جملہ نتائج معرضِ وجود میں آگئے۔قرآنِ کریم، احادیثِ نبویؐ کتبِ مغازی و سیر، کتبِ تاریخ، کتبِ تفاسیر، کتبِ اسماء الرجال، کتبِ شمائل، کتبِ دلائل، کتبِ آثار و اخبار اور معاصرانہ شاعری کو سیرت النبیؐ یا سیرت نگاری کے بنیادی مآخذ میں شمار کیا گیا ہے۔

’’قرآنِ کریم‘‘ سیرت النبیؐ کا بنیادی مآخذ اور سرچشمہ ہے، اس الہامی کتابِ مبین کی 114سورتوں میں رسولِ اکرمﷺ کی حیاتِ طیّبہ کے ضروری اجزاء جستہ جستہ مذکور ہیں، آپؐ کی ابتدائی زندگی، یتیمی، غربت، جوانی میں مالی فراغت، تلاشِ حق، بعثت، نزولِ وحی، دعوت و تبلیغ، کفار کی مخالفت، اسلام کی اشاعت، واقعۂ معراج، ہجرتِ حبشہ، ہجرتِ مدینہ، تحویلِ قبلہ، مشہور غزوات (غزوۂ بدر، اُحد، احزاب، حنین، تبوک اور فتح مکّہ) عائلی زندگی، آپؐ کے اخلاق و عادات اور سیرت و کردار کے بارے میں مستند معلومات کا سرچشمہ یہی کتابِ ہدایت ہے۔(انورمحمود خالد، /اردو نثر میں سیرت رسولؐ، صفحہ ۴۵)۔

قرآن کے آئینے میں سیرتِ رسولؐ کی جو دل آویز جھلکیاں نظر آتی ہیں، ان میں اوّلین جھلک ایک جلیل القدر پیغمبر کی ہے۔ ایک ایسا پیغمبر جس کی آمد کی بشارت سابق آسمانی صحائف میں دی گئی تھی، چناں چہ آیاتِ قرآنی کے مطابق آپؐ دعائے خلیل بھی ہیں اور نویدِ مسیحا بھی، آپؐ کا اسمِ مبارک محمدؐ بھی ہے اور احمدؐ بھی۔

کلام اللہ میں آپ کو یٰسین، طٰہٰ، مزمّل، مدثّر، نبی اُمی، داعی الی اللہ، منذر، ہادی، سراجِ منیر، شاہد، مبشّر، نذیر، مزکّی، مُعلّمِ کتاب و حکمت، نور، رسولِ صادق، برہانِ ربّانی، حاکمِ برحق، سراپا ہدایت، رحمۃ لّلعالمین، رئوف و رحیم، صاحبِ خُلقِ عظیم، اوّل المسلمین، خاتم النبیّین، بندۂ الٰہی، صاحبِ کوثر، صاحبِ رفعت و شان، مرکزِ آرزوئے مومنین، محبوبِ خدا اور ممدوح ملائکہ قرار دیا گیا ہے، تاہم قرآن کے نزدیک آپؐ کی سب سے اعلیٰ صفت یہ ہے کہ آپؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی اصل حیثیت ایسے انسان کی ہے، جسے منصبِ نبوت سے سرفراز کیا گیا ہے۔( ایضاً ص 47)۔

قرآنِ کریم میں آپؐ کی مکی اور مدنی زندگی کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں۔ آپؐ کی یتیمی، غربت میں پرورش، جوانی میں معاشی آسودگی، بعثت سے پہلے کی پاکیزہ زندگی، حقیقت کی تلاش کے لیے مجاہدے، منصبِ نبوت سے سرفرازی، آغازِ وحی، مکّے میں تبلیغِ اسلام، قریش کی مخالفت اور ایذا رسانی، سعید رُوحوں کا قبولِ اسلام، دعوتِ دین کی راہ کی مشکلات، واقعۂ معراج، مظلوم مسلمانوں کی ہجرتِ حبشہ، کفار کی طرف سے رسول اللہﷺ کے قتل کے ارادے، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ساتھ ہجرتِ مدینہ، غارِ ثور میں قیام، مدینے میں مہاجرینؓ، انصارؓ، منافقین اور یہود مدینہ کا اخلاق و کردار اور آنحضرت ﷺسے ان کا سلوک، اصحابِ صُفہ ؓ، مسجدِ ضرار کا انہدام، مسجدِ قبا کی تعمیر، تحویلِ قبلہ، غزوۂ بدر، غزوۂ اُحد، غزوۂ احزاب، غزوۂ حنین، غزوۂ تبوک، بیعتِ رضوان، صلح حدیبیہ، فتح مکہ اور حجۃ الوداع وغیرہ کا ذکر اس صراحت سے موجود ہے کہ ان تمام آیات کو جمع کرکے آپؐ کی سوانح عمری مرتب کی جاسکتی ہے۔

ان واقعات میں بعض کا ذکر اجمالاً اور بعض کا تفصیلاً کیا گیا ہے۔‘‘چناں چہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قرآنِ کریم سیرت النبیؐ کا بنیادی مصدر و مآخذ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسالت مآبؐ کی حیاتِ طیّبہ اور سیرتِ مبارکہ کا شاید ہی کوئی پہلو ہو، جس کا ذکر قرآنِ کریم میں نہ ہو۔ البتہ اس کے لیے تفصیل کے بجائے اجمالی اسلوبِ بیان پر اکتفا کیا گیا ہے۔ مثلاً قرآنِ کریم میں جب کسی جنگ یا غزوے کا ذکر کیا گیا ہے تو تفصیلی ذکر کے بجائے اجمال سے کام لیا گیا ہے۔ 

قرآن ان مواقع پر نصیحت آمیز پہلوؤں کو نکھارتا اور عبرت آموز واقعات پر تبصرہ کرتا ہے، کم و بیش یہی معاملہ انبیائے سابقینؑ کے قصص و واقعات اور گزشتہ اقوام کے اخبار و حالات کا ہے۔ قرآنِ کریم کے آئینے میں، سیرت النبیؐ کی جو دل آویز جھلکیاں اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ کے روشن و درخشاں پہلو نظر آتے ہیں، وہ آپؐ کی سیرت و کردار اور خُلق عظیم کا مظہر ہیں کہ؎ نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر.....وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہ۔(اقبال، /کلیاتِ اقبال (بالِ جبریل)صفحہ 317)۔

ڈاکٹر غلام مصطفی خاں مرحوم کے بقول۔’’قرآن اور عملی قرآن یعنی حضور انور ا کی حیاتِ طیّبہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جس نے حضور انور ﷺ کو نہیں دیکھا، وہ قرآن کو دیکھ لے، آپؐ کی حیاتِ طیّبہ کا ایک ایک واقعہ قرآنِ کریم کی ترجمانی کرتا اور اس کے احکام کی عملی تصویر پیش کرتا ہے، جس نے انہیں دیکھ کر قرآن پڑھا، اسی نے ہدایت پائی اور جس نے انہیںؐ دیکھے بغیر اس کا مطالعہ کیا، وہ ہدایت سے محروم رہا۔‘‘ مزید لکھتے ہیں۔

’’نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد وغیرہ جیسے اہم قرآنی احکام پر عمل کس طرح کیا جائے اور معروف و منکر کو کس طرح پہچانا جائے؟ اس کا جواب صرف حضورِ انورﷺ کی سیرتِ طیّبہ سے ہی مل سکتا ہے۔ گویا قرآن کی ہر آیت اور ہر واقعہ حضور انورﷺکی تصدیق ہے اور بالواسطہ یا بلا واسطہ انہی سے اس کا تعلق ہے۔ مولانا جامیؒ نے صحیح فرمایا تھا کہ ’’ہمہ قرآن درشانِ محمدؐ‘‘( بحوالہ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان (مقالہ) ہمہ قرآن درشان محمدؐ،صفحہ89 ،مطبوعہ نقوش رسولؐ نمبر، جلد اوّل، دسمبر 1982ء)۔

آیاتِ قرآن اور شانِ صاحبِ قرآنﷺ

لہٰذا یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ ’’قرآنِ کریم‘‘ سیرت النبیؐ، آپؐ کی تعلیمات و ہدایات اور اسوۂ حسنہ کا اوّلین مآخذ اور بنیادی سرچشمہ ہے۔ قرآنِ کریم میںآپؐ کے مقام و مرتبے، ہدایات و تعلیمات اور متعلقات سیرت پر بنیادی مواد موجود ہے، جس سے آپؐ کی حیاتِ مبارکہ اور سیرتِ طیّبہ کی ترتیب و تدوین میں بنیادی مدد ملتی ہے۔ سیرت نگاروں نے ’’سیرت النبیؐ‘‘ کے بنیادی مآخذ و مرجع قرآنِ کریم سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے آپؐ کی سیرتِ طیّبہ کی ترتیب و تدوین میں قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں۔