• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک دلچسپ ملک ہے۔یہاں صبح بتایا جاتا ہے کہ پانی ختم ہوگیا ہے۔شام کو بتایا جاتا ہےکہ ملک پانی میں ڈوب گیا ہے۔یہاں کئی علاقوں سے لوگ اس لئے ہجرت کر گئے کہ پانی ختم ہوگیا تھا۔کئی علاقے مٹ گئے کہ وہاں پانی آگیا تھا۔پانی کے اس ہونے اور نہ ہونےکے بیچ کہیں بڑا سا ایک خلا ہے جہاں آبی ماہرین پیدا ہو تے ہیں۔ان ماہرین نے نسل در نسل ایک لفظ ڈیم رٹا ہوا ہے۔سوال کچھ بھی ہو ان کاجواب ڈیم ہوتا ہے۔پانی کا بحران کیوں پیدا ہوگیا ہے؟ڈیم نہیں بنائے گئے۔سیلاب کیوں آرہے ہیں؟ڈیم نہیں بنائے گئے۔ان ماہرین کی پڑھی لکھی نسل نے جیسے تیسے کرکے دو نئی اصطلاحات زبان پر چڑھا لی ہیں۔ایک کلائمیٹ چینج دوسرا کلائوڈبرسٹ۔ان دو اصطلاحات کی جگالی کرتے ہوئے بھی یہ تان لے جاکر ڈیم پر ہی توڑتے ہیں۔سیلاب کیوں آیا ہے؟ کلائوڈ برسٹ کی وجہ سے۔کلائوڈ برسٹ کیوں ہورہے ہیں؟کلائمیٹ چینج کی وجہ سے۔اب مسئلے کا حل کیا ہے؟ڈیم بنانے پڑیں گے۔کرلو بات۔جیسے گھر میں گلاس ٹوٹ جانے پر الزام دودھ پیتے بچوں پر ڈال دیا جاتا ہے،ایسے ہی جب سیلاب آتا ہے تو موسمی ماہرین سارا الزام کسی مجہول ڈیم کے سر منڈ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی بلاشبہ ایک حقیقت ہے۔زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔گرین لینڈ ڈھائی سو سے تین سو ارب ٹن برف سالانہ کھو رہا ہے۔انٹارکٹیکا کی برفانی چادریں تیزی سے پگھل رہی ہیں۔سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے۔فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔ہجرت کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔موسمیاتی روٹ متاثر ہونے کی وجہ سے کئی پرندوں اور جانوروں کی بقا خطرے میں ہے۔قحط کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔یہ حقائق ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس سال جو سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی ہے، اس کی ذمہ داری فقط کلائمیٹ چینج پر عائد ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب سب دے رہے ہیں مگر پانی سے کوئی نہیں پوچھ رہا کہ اسکے احساسات کیا ہیں۔

قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پانی بہت ناراض ہے۔کلائمیٹ چینج پربھی ناراض ہے مگریہ ناراضی ٹوٹل ناراضی کا بیس فیصد بھی نہیں ہے۔زیادہ ناراضی اس بات پر ہے کہ اسکے علاقے پر مسلسل قبضہ ہو رہا ہے۔پھر لوگ طنز بھی کررہے ہیں۔خواجہ آصف کہہ رہے ہیں کہ پانی اپنی آمد سے پہلے خط نہیں لکھتا کہ مجھے ائیرپورٹ پرآکر ریسیو کرلو۔اب یہ کوئی بات ہے بھلا؟خواجہ صاحب محکمہ دفاع سے ہیں اسلئے معلومات کی کمی ہے۔محکمہ موسمیات سے پوچھ لیتے تو جان پاتے کہ پانی نے پندرہ سال پہلے ہی سیلاب کے ہاتھ تفصیلی خط بھیج کر اپنے ارادے ظاہر کر دیے تھے۔زیر آب آنے والے کئی علاقے اس خط کے گواہ ہیں۔جب دریائوں میں شہر بسانا سرکاری منصوبوں میں شامل ہوا تو پانی نے خط کے ساتھ ساتھ قدرت کی عدالت سے نوٹسز بھی بھجوانا شروع کر دیے تھے۔ایک نوٹس میں پانی نے یہ بھی لکھا کہ میری یادداشت میں وہ راستہ بھی ہزاروں سال تک رہتا ہے جہاں سے میں صرف ایک بار گزرتاہوں۔راوی اور چناب سے تو میرا تعلق ہی صدیوں پرانا ہے۔کوئی راوی کے river bed پہ اپنا بستر ڈال دے گا اور میں چپ چاپ دیکھتا رہوں گا؟ ممکن ہی نہیں ہے۔

کسی بھی نوٹس کا مثبت جواب دینے کی بجائے پانی کے راستے میں مزید رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔پھر ایک ہی راستہ بچ گیا۔آپریشن!!پانی نے اسی طرز کا ایک بے رحم آپریشن شروع کردیا جو پنجاب حکومت نے تجاوزات ہٹانے کے لیے پنجاب بھر میں شروع کر رکھاہے۔اب ڈھور ڈنگر بہہ رہے ہیں اور انسان ہجرت کر رہا ہے،مگر پانی کیا کرے۔وہ سعود عثمانی کا شعر ہی سنا سکتا ہے

کہا نہیں تھا کہ دریا کے راستے مت روکو

کہ سیل آب کو قبضے چھڑانے آتے ہیں

کلائمیٹ چینج ایک مستقل حقیقت ہے مگر آج کا سوال اور ہے۔کیا اس بار دریائوں کی گنجائش سے زیادہ پانی آیا ہے؟ نہیں۔ڈھائی لاکھ کیوسک کے ریلے تو راوی ہنستے کھیلتے پی جاتا ہے۔چناب پہلے بھی آٹھ لاکھ کیوسک کے ریلے بغل کے نیچے سے گزار دیتا تھا۔دس لاکھ کا ریلا بھی آجائے تو اسکے ماتھے پر بل نہیں پڑتا۔ہم پانی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ڈیم اور کلائمیٹ کی جگالی کر رہے ہیں۔یہ بات پانی کوتنگ کررہی ہے۔اشو لال کہتے ہیں دریا خاموش دیوتا ہے۔مگر یہ دیوتا کئی برس سے اپنی خاموشی توڑ چکا ہے۔چیخ چیخ کربتا رہا ہے کہ میں پہلے ہی ڈیم سے بہت تنگ آچکا ہوں۔ڈیم میرا بہائو روکتا ہے اور بہائو میرا مقدر ہے۔مجھے راوی اور چناب میں ٹہلنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔قدرت نے میرے ذمے کچھ کام لگائے ہیں۔میں بہتاہوں تو ریت کے ساتھ سلٹ بھی لے کرآتا ہوں۔سلٹ کی قیمت ڈیلٹا سے پوچھو اور کسان سے پوچھو۔پھر بھی یقین نہ آئے تو مچھیروں کی بستی میں جاکر پوچھو۔سلٹ قدرتی کھاد ہے جو صرف مجھے پتہ ہے کہ کہاں سے ملتی ہے۔یہ کھاد دے کر میں زمینوں کو زرخیر کرتا ہوں۔آبی حیات کیلئے ماحول بناتا ہوں۔مونگرو کے درخت اگاتا ہوں جو طوفان، کٹائو اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے ساحلوں کو بچاتے ہیں۔میں زمین کی تہوں میں انرجی دیتا ہواسمندر میں اترتا ہوں،وہاں میٹھے کھارے کا توازن بناتا ہوں،خود کو بخارات میں بدلتا ہوں، بادل بن کرپھر سے برستا ہوں،پھر سے دریائوں میں آتا ہوں اور زندگی کو ری چارج کرتا ہوا واپس سمندر میں اترتا ہوں۔رکاوٹوں کی وجہ سے میرا یہ چکر پورا نہیں ہو رہا۔مونگرو ختم ہورہا ہے زمین مر رہی ہے۔طاہر ہے، میرا چکر نہیں چلے گا تو گلشن کا کاروبار کیسے چلے گا؟

مجھے بہنے دیا جاتا تو سجادعلی کو کبھی’جے راوی دے وچ پانی کوئی نئیں‘گانا نہیں پڑتا۔تم نے ٹھیکیداروں کی سنی،آج بربادیوں کا سوگ منارہے ہو۔میرے تعلق داروں کی سن لیتے تو آج راوی کے زندہ ہونے کا جشن منارہے ہوتے۔نوجوان جوڑے پھول اور شیرینی دریا کے سپرد کرکے منتیں مانگ رہے ہوتے۔لوگ شام کے وقت خاموش سنہرے پانیوں میں سورج کا اترنا دیکھ رہے ہوتے۔ملاحوں کی زبانی راوی کی کہانی سن رہے ہوتے۔ کُل ملاکر کہانی یہ ہے کہ زندگی بہائو کا نام ہے۔زندگی کے واسطے پانی کو بہنے دو۔راوی کو بہنے دو!!

تازہ ترین